ماہنامہ’’نقاد‘‘ نے کچھ ہی عرصے میں سکہ جمالیا تھا

0

ترتیب و پیشکش
ڈاکٹر فرمان فتحپوری
نیاز فتحپوری کی اس قسم کی رومانی تحریریں، ماہنامہ نقاد کی ہر اشاعت میں چھپتی تھیں اور ہر حلقے میں چٹخارہ لے کر پڑھی جاتی تھیں۔ یہ دراصل نیاز کی ادبی زندگی کا شباب تھا اور ان کی شخصیت و ادبیت اس زمانے کے ادبی مذاق رکھنے والے تعلیم یافتہ افراد خصوصاً کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نوجوانوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی۔ ملا واحدی صاحب، نیاز کی اس شہرت و مقبولیت کے عینی شاہد ہیں۔ وہ نیاز صاحب کے بارے میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:
’’نیاز صاحب کی ادبیت کا آفتاب برابر بلند ہو رہا تھا۔ خاص طور سے علی گڑھ کالج کے طلبا ان سے بے حد متاثر تھے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین (سابق صدر جمہوریہ ہند) اور کئی اور طالب علم عبدالرئوف (ڈپٹی کلکٹر)، نورالرحمن (بیمہ والے) وغیرہ نیاز صاحب کے ادبی معتقد تھے اور نیاز صاحب سے ملنے کے لئے دلی کے پھیرے کیا کرتے تھے۔ مولانا عبدالماجد دریا آبادی کو بھی اوّل بار میں نے نیاز صاحب کے طفیل دیکھا۔ منشی محمدالدین خلیقی، سید ظفر احسن علوی، حکیم مجیب بقائی، نیاز صاحب ہی کی وجہ سے میرے گھر کی رونق بڑھاتے تھے۔ یہ تینوں انشا پرداز تھے۔ ان تینوں کے اور نیاز صاحب کے جمع ہو جانے سے میرے گھر میں بہار اتر آتی تھی۔ ایسا معلوم ہونے لگتا تھا کہ گویا چمن میں مہکتے پھول کھل گئے‘‘۔
مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کے بڑے بھائی مولانا ابوالخیر مودودی صاحب نے پہلے اپنے ایک خط میں نیاز صاحب کے بارے میں یوں اظہار خیال کیا:
’’جی ہاں‘‘ نیاز اور بھوپال ’’پر لکھنے والا ایک یہی نافرجام رہ گیا ہے، کاش… قمر کو مرحوم ہوئے ایک زمانہ بیت گیا۔ ابوالاعلی بعد از خدا بزرگ‘‘ ہو گئے اور یہ نافرجام ’’ہمہ حیرتم کہ دہقان بچہ کار کشت مارا‘‘۔
ایک وہ جس نے قلم پکڑنا حضرت نیاز کی حاشیہ نشینی میں سیکھا، جس نے ادبی درک نیاز صاحب کی صحبتوں سے حاصل کیا اور جس نے حضرت نیاز کو ادیب سے زیادہ ایک اعلیٰ قسم کا انسان پایا، یہ اس کی بدبختی ہو گی اگر وہ امتثال فرمان سے قاصر رہے…۔
بعد ازاں اپنے مختصر مضمون میں انہوں نے اس زمانے کے نیاز فتح پوری کی تصویر الفاظ میں اس طور پر کھینچی…
’’کھلتا شیام رنگ‘‘ عفت کردار سے شاداب و روشن، آنکھوں میں گھنیری ذہانت و ذکاوت اور چنچل پن بھی گھنی ڈاڑھی کی خوش نما سنجاف ایک کیف استغنا…
اور معنویت میں تفرد… میں کوئی رسالہ پڑھ رہا تھا شاید معارف یا نقاد، نیاز صاحب نے کمرے میں قدم رکھتے ہوئے چونکایا۔
کیا پڑھ رہے ہو …… ’’ساقی نامہ پڑھو‘‘، ابر گہر بار‘‘ پڑھو اور بات فارسی کلاسک میں چل نکلی۔ کچھ اس قرینے سے عام ادبی مساحت جیسے شفیق مربی مدت کے بعد اپنے دست گرفتہ سے ملے اور تہ بہ تہ باتوں سے بھانپے کہ تربیت رائیگاں تو نہیں گئی اور طرحداری سے یہ ایما بھی کہ درسی کلاسک کو ایک بار پڑھ لینا کافی نہیں، ذہن میں ادبی رچائو کے لئے مزادلت ضروری ہے… یہ خصوصیت کچھ میرے ہی ساتھ نہیں تھی۔ قمرالحسن(مرحوم) سے ملاقات ہوئی، ان کے ساتھ بھی یہی حسن تادیب تھا۔ ابو الاعلیٰ سے ملاقات ہوئی تو ان کے ساتھ بھی… ہماری شامیں نیاز صاحب کی خواجہ تاشی میں گزرتی رہیں۔ پھر نیاز صاحب نے ہمیں لکھنے پر ابھارا…
صرف باتیں ہی باتیں نہیں کچھ کام بھی ہونا چاہئے۔
’’تم لوگ لکھو اور پڑھ کے سنایا کرو۔ ہر مہنے کم سے کم ایک مضمون‘‘۔
ہم تینوں کے لئے حسب ذوق مستقل موضوع بھی مقرر کئے، لکھنا اور سنانا اٹل تھا۔
مجھے نیاز صاحب ملک الموت نظر آنے لگے۔ لیکن زجر مشفقانہ سے مفر بھی نہ تھا، گھاس کاٹنی ہی پڑتی، مستعدی سے ہر مہینے صرف ابوالاعلیٰ ہی لکھتے سناتے۔ یہ لکھنا سنانا ان میں ایسا رچا کہ لکھ کے سنانے کی طرح پڑھنا ان کی عادت تحریر بن گیا‘‘۔
غرضیکہ 1913ء اور 1920ء کے درمیانی عرصہ میں نیاز صاحب کی عزت و شہرت بام عروج کو پہنچ گئی تھی۔ کیوپڈ اور سائیکی، جذبات بھاشا، ایک شاعر کا انجام اور اس طرح کے متعدد رومان پرور افسانے اور کتابچے شائع ہو چکے تھے۔ ہر حلقے میں ان کی تحریریں بڑے چائو سے پڑھی جاتی تھیں۔ ان کے مقالوں، افسانوں، شعر منشور اور انشائیوں کی مانگ بازار میں بڑھتی جا رہی تھی۔ مجبوراً رسالوں کے مدیر ان کی تحریریں ہزار خوشامد سے حاصل کرتے اور ادارتی نوٹ کے ساتھ نمایاں حیثیت سے شائع کرتے تھے۔ نیاز صاحب بھی صبح شام لکھتے تھے اور رسالوں کا پیٹ بھرتے تھے۔ لیکن ان کی زیادہ تحریریں نقاد ہی میں چھپتی تھیں۔ یہ دراصل انہیں کی انشا پردازی کا اثر تھا کہ نقاد تھوڑے ہی دنوں میں ’’انشائے لطیف‘‘ کا نمائندہ اور معاصر پرچوںکا حریف بن گیا۔ الناظر کے مدیر ظفرالملک نقاد اور نقاد کی تحریروں میں اکثر کیڑے نکالتے تھے۔ لیکن نیاز فتح پوری اور ان کے ’’یاران نجد‘‘ بھی جن کا نقاد اور مدیر نقاد سے یارانہ تھا، جواب دینے میں کم نہ تھے۔ ’’ یاران نجد‘‘ کی محفل میں جس کا ایک گروپ فوٹو بھی مولانا نیاز فتح پوری نے ’’نگار‘‘ کے اولین شمارے میں دے دیا ہے، مندرجہ ذیل اصحاب شامل تھے۔
1۔ مولانا نیاز فتح پوری۔
2۔ شاہ نظام الدین دلگیر
3۔ لطیف الدین احمد (ل، احمد)
4۔ نذیر احمد قریشی
5۔ عارف حسین عارف ہسوی
6۔ سید محمود احمد رضوی مخمور اکبر آبادی۔
7۔ ڈاکٹر ضیاء عباس ہاشمی
8۔ محمد احمد ہاشمی
9۔ محمد الدین خلیقی دہلوی
10۔ سید حسن عابد جعفری
11۔ بیدل شاہجہان پوری
12۔ مانی جائسی
13۔ عبدالرئوف ہسوی
14۔ امام الدین امام اکبر آبادی
15۔ ملک حبیب احمد
16۔ مقدس
ان میں بہ حیثیت انشا پرداز نیاز فتح پوری ، شاہ دلگیر، عارف ہسوی، خلیقی دہلوی اور ضیا عباس ہاشمی خاص شہرت رکھتے تھے۔ ان کی تحریروں میں انشا پردازی کا ایسا جادو تھا کہ ادبی معرکوں میں عموماً انہیں کی جیت ہوتی تھی۔ لیکن حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ نقاد دو سال تین مہینے سے زیادہ جاری نہ رہ سکا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More