سکھر بیراج سے نکلنے والی نہریں بھی بند۔ بحران کا خدشہ
کراچی(اسٹاف رپورٹر)سالانہ مرمت اور چھوٹی نہروں کی بھل صفائی کے لئے کوٹری بیراج کے بعد اتوار کو سکھر بیراج سے بھی پانی کی فراہمی بند کر دی گئی۔ سندھ میں خشک سالی کے باعث اندرون سندھ پینے کے پانی کے بڑے بحران کا خدشہ ہے۔ کراچی کو پینے کے پانی کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے10جنوری سے کینجھر جھیل کو پانی کی فراہمی شروع ہو گی۔ سالانہ مرمت و بھل صفائی کیلئے نہروں کو پانی کی فراہمی بند کر کے سکھر بیراج اور کوٹری بیراجز کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں تاکہ پانی دریائے سندھ میں چلا جائے۔کوٹری بیراج سےپانی کی فراہمی 25دسمبر سے بند ہے ان میں کینجھر جھیل کو پانی فراہم کرنے والی نہر کلری بگھار نہربھی شامل ہے۔ سکھر بیراج سے نہروں کو پانی فراہمی بند کئے جانے کے بعد خارج کیا جانے والا پانی 5سے7 دن میں کوٹری بیراج پہنچے گا جس کے بعد10جنوری سے کینجھر جھیل کو بھی پانی کی فراہمی شروع ہوگی۔نہروں کی بندش سے قبل ہر برس محکمہ صحت عامہ ، محکمہ بلدیات کے علاوہ واٹر سپلائی کے اداروں کو پہلے ہی آگاہ کیا جاتا ہے کہ وہ نہروں میں پانی کا اخراج بند ہونے سے قبل اپنے تالاب بھر لیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ نہروں میں 15دن تک پانی سپلائی بند ہونے،دریائے سندھ میں پانی کی سطح کم ہونے سے بھی سکھر سمیت متعدد اضلاع میں پانی بحران پیدا ہوتا ہے جہاں زیر زمین پانی کھارا ہے ، پانی کی سطح نیچے ہے ۔ بیشتر بلدیاتی اداروں کے پاس اتنے بڑے تالاب نہیں کہ واٹر سپلائی کا پانی 15دن تک چل سکے۔ذرائع اس بار پینے کی پانی کی قلت میں شدت کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس مرتبہ سندھ میں موسم سرما کی بارش نہ ہونے کے برابر ہوئی جبکہ پہلے ان دنوں میں بارشوں کی وجہ سے واٹر سپلائی تالابوں کو پانی مل جاتا تھا۔محکمہ آبپاشی ذرائع کا کہنا ہے کہ کوٹری بیراج کی نہروں کو10و سکھر بیراج کی نہروں کو 21جنوری سے پانی فراہمی شروع ہوگی۔ڈیم خالی ہونے اور بارشیں کم ہونے کی وجہ سے صورتحال اگریہ رہی تو پھر فروری اور مارچ میں پانی کی قلت کا معاملہ سنگین ہو جائے گا۔ایسی صورتحال میں گندم کی فصل کو آخری پانی ملنا انتہائی مشکل ہو گا۔ایسی صورتحال میں صرف پینے کے پانی کی فراہمی کو ترجیح دی جائے گی جس کی منصوبہ بندی شروع کر دی گئی ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق زیادہ بارش ہونے کے امکانات کم ہیں جس سے پورا سندھ بھی متاثر ہو سکتا ہے تاہم اس کے نتیجے میں خصوصاً دریائے سندھ کے دائیں جانب والے علاقے زیادہ متاثر ہوں گے۔