ملک بھر میں 4356 رہائشی منصوبے جعلی نکلے
کراچی(رپورٹ : فرحان راجپوت)ملک بھر میں 4356 رہائشی منصوبے جعلی نکلے۔ اس بات کا انکشاف عدالت عظمی کے احکامات پر بنائی گئی فرانزک آڈٹ رپورٹ میں ہوا ۔ سب سے زیادہ 2852 غیر تصدیق شدہ اور غیر قانونی ہاؤسنگ اسکیمیں پنجاب کی ہیں، جن کے این او سی ،ایل او پی حکومتی افسران نے مافیا کے ساتھ ملکر غیر قانونی طریقے سے جاری کئے اور ان کے ذریعے لوگوں سے کھربوں روپے بٹورے گئے۔ سندھ 943 کے ساتھ دوسرےنمبر پر ہے جبکہ خیبر پختون کے 349 اسلام آباد 109اور بلوچستان میں 103 رہائشی منصوبے جعلی ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے نے جے آئی ٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی جس میں سفارش کی گئی ہے کہ جعلی سوسائیٹوں کے مالکان سمیت ملوث سرکاری ملازمین پر ضابط فو جداری سمیت دیگر نوعیت کے مقدمات درج کیے جائیں،پارٹنر شپ پر قائم فرم کمپنیوں ہاؤسنگ سوسائٹی متعارف کرانے پر فوری طور پر پابندی عائد کی جائےاور جو کمپنیاں ایکٹ 2017کے مطابق رجسٹرڈ ہوں، صرف انہیں ہاؤسنگ سیکٹر میں کام کرنے کی اجازت دی جائے ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم 3 رکنی بنچ آج کیس کی حتمی سماعت کرے گا۔ جس میں جے آئی ٹی کے افسران چاروں صوبوں کے قانونی افسران سمیت دیگر پیش ہوں گے اور ایف آئی اے حکام مزید دلائل دیں گے۔ریکارڈ کے مطابق سپریم کورٹ نے پاکستان بھر میں جعلی ہاؤسنگ اسکیموں کے ذریعے عام لوگوں سے لوٹ مار کرنے کی شکایت پران منصوبوں کا فرانزک آڈٹ کرانے کے لیے ایف آئی اے، نیب، اے سی اسٹیبلشمنٹ کے سینئر ڈائریکٹرز اورسینئر افسر ریونیو پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دی تھی۔ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے نے اسکروٹنی مکمل کرنے کے بعد رپورٹ جمع کرائی ہے کہ پاکستان بھر میں ہاؤسنگ اسکیموں،کوآپریٹو سوسائٹی کی تعداد 3720 ہے جن میں 3053 نجی منصوبے جب کہ 667 کوآپریٹو سوسائٹیز ہیں ۔ غیر تصدیق شدہ غیر قانونی ہاؤسنگ اسکیموں کی تعداد 4356 ہے جن میں سندھ میں 943،پنجاب میں 2852،کے پی میں 349،اسلام آباد میں 109 اور بلوچستان میں 103 ہے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ عدالت عظمی کی ہدایت پر مختصر وقت کے دوران باریک بینی سے فرانسک آڈٹ کیا گیا ہے جس میں معلوم ہوا ہے کہ جعلی رہائشی منصوبوں کے ذریعے لوگوں سے کھربوں روپے بٹورے گئے ہیں اس کے بدلے گھر نہیں فراہم کیے گئے ہیں حکومتی ملازمین نے مافیا کے ساتھ مل کر جعلی این او سی،ایل او پی جاری کیے ذاتی مفادات کا استعمال کیا گیا ہے اس کام میں من پسند لوگوں کو سستے اراضی فراہم کی گئی نہ ہی قواعد وضوابط مکمل کیے رہائشی اسکیموں کی کوئی قرعہ اندازی نہیں کی گئی نہ ہی کمرشل عمارتوں کی آکشن ہوئی تھی جس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ قوانین کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے لوگوں کے ساتھ زیادہ تر فراڈ پارٹنر شپ ایکٹ کے تحت قائم کردہ فرم کمپنیوں نے کیا ہے پارٹنر کے درمیان پیسوں کے تنازعہ پر معاملات خراب ہوئے لوگ رل گئے ہیں ۔ ان سے پیسے وصول کرلیے گئے تو گھر نہیں دئیے گئے ۔ یہاں تک کے اسکیموں میں کئی برسوں سے کام ہی نہیں ہوا ہے ۔ متعلقہ حکام نے ایسی اسکیموں کے خلاف کارروائی عمل میں نہیں لائی ،بلکہ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا ہے کہ حکومتی ملازمین نے کارروائی کرنے کی بجائے پیسے پکڑ کر معاملات کو دبایا ہے ۔ ڈائریکٹر ایف آئی ائے نے سپریم کورٹ میں سفارشات داخل کی ہیں کہ تمام صوبوں کے متعلقہ حکام پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے جو کوُآپریٹو قوانین پر نظر ثانی کرتے ہوئے ترمیم کرئے سخت قوانین بنائے جائیں ،تاکہ کوئی عام لوگوں کے ساتھ لوٹ مار نہ کرئے سخت سے سخت سزا مقرر ہو،پارٹنر شپ ایکٹ پر قائم ہونے والی فرم کمپنیوں پر نئے ہاوسینگ پروجیکٹ متعارف کرانے پر پابندی عائد کی جائے صرف 2017 ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ کمپنیوں کو ہاوسینگ سیکٹر میں کام کرنے کی اجازت دی جائے اور وفاقی حکومت کو پابند کیا جائے کہ 2017کمپنی ایکٹ کی دفعہ 456 کے نفاذ کے لیے فوری طور پر نوٹیفکیشن جاری کیا جائے ۔مزید کہا گیا ہے کہ تمام ڈیولپر کو ہدایات جاری کی جائیں کہ بڑے شہروں میں ماسٹر پلان آویزاں کیا جائیں ،پرائیوٹ اسکیموں کی رجسٹریشن کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے ڈائریکٹر ایف آئی اے نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ فرانسک رپورٹ کے نتیجے میں ہاوسینگ اسکیموں سوسائیٹوں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لانے کی اجازت دی جائے اور ہدایات جاری کی جائیں حکومتی ملازمین سمیت دیگر خلاف ضابط فوجداری دفعات سمیت دیگر نوعیت کے مقدمات درج کرنے کی بھی اجازت دی جائے مزید ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔