قسط نمبر 3
ترتیب و پیشکش/ ڈاکٹر فرمان فتحپوری
قمر زمانی بیگم کون ہیں؟ کیا ہیں؟ اور ان کی اہمیت کیا ہے؟ ان سوالوں کے مفصل جوابات آپ کو اس تحریر کے مطالعہ سے خود معلوم ہوجائیں گے۔ ابتداً اتنا ضرور کہنا ہے کہ اِن کے اور اُن کے معاشقے کی جو داستان یہاں بیان کی جارہی ہے۔ وہ فرضی نہیں حقیقی ہے۔ من گھڑت نہیں سچا واقعہ ہے۔ محض ایک رنگین و رومان پرور کہانی نہیں، ادبی تاریخ کا ایک دلکش باب ہے۔ معمولی اشخاص کی زندگی کی تفصیل نہیں، علم و ادب کی غیر معمولی شخصیتوں کا مرقع ہے۔ سنی سنائی باتوں کا مصنوعی مجموعہ نہیں، خطوط کی صورت میں ایک خاص عہد کی ادبی دستاویز ہے۔ جس کے منتخب حصے قارئین امت کی نذر ہیں۔
جنوری 1913ء میں نقاد طلوع ہوا تھا۔ مارچ 1915ء میں غروب ہوگیا۔ نقاد کی خاموشی سے آگرہ، دلی اور بھوپال کی ادبی فضا بہت کچھ سونی ہوگئی۔ نقاد کے لکھنے والوں کی ادبی زندگی میں بھی ایک طرح کا خلا پیدا ہو گیا۔ چنانچہ ہر طرف سے نقاد کو دوبارہ جاری کرنے کا مطالبہ شروع کیا گیا۔ نقاد کے نوجوان قارئین خصوصاً طلبا و طالبات نے اس سلسلہ میں خطوط لکھے۔ نقاد کے خاص معاونین ضیا عباس ہاشمی، خلیقی دہلوی اور نیاز فتح پوری وغیرہ نے بھی شاہ دلگیر کو بہت اکسایا۔ لیکن وہ رضامند نہ ہوئے۔ پھر بھی دلگیر کے دوستوں اور نقاد کے بہی خواہوں میں اس مسئلے پر غور و خوض ہوتا رہتا۔ جہاں مل جل کر بیٹھنے کا موقع ملتا، دلگیر اور نقاد موضوع گفتگو بن جاتے۔ آخرکار خلیقی دہلوی، نیاز فتح پوری اور ضیا عباس ہاشمی نے ایک دن بڑی سنجیدگی سے اس مسئلہ پر تبادلہ خیال کیا۔
نیاز: ضیائی (ضیا عباس ہاشمی)، نقاد کے دوبارہ اجرا کی کوئی صورت نکلنی چاہئے۔
ضیائی: میں خود بھی یہی چاہتا ہوں لیکن دلگیر ، نقاد کے سلسلے میں اتنا نقصان اٹھا چکے ہیں کہ اب ان کی ہمت نہیں پڑتی۔
خلیقی: یہ کیوں نہ کیا جائے کہ ہم سب مل کر اپنی اپنی جیبوں سے ان کی کچھ مدد کریں اور نقاد کے خریداروں سے پیشگی سالانہ چندہ وصول کرنے کی مہم چلائیں۔
ضیائی: میں نے یہ تجویز بھی ان کے سامنے رکھ کر دیکھ لی ہے۔ مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اندر ہی سے کچھ بجھ سے گئے ہیں تبھی تو حرکت میں نہیں آتے۔
نیاز: اندر سے بجھے بجھے رہنے کی علامت تو خطرناک ہے۔ اس سے ان کی تخلیقی قوتوں کو نقصان پہنچے گا۔
ضیائی: اسی لئے تو ’’نقاد‘‘ سے پہلے دلگیر کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔
نیاز: یہ تو صحیح ہے لیکن زندہ کیونکر کیا جائے۔
خلیقی: آپ کو دلگیر کے مزاج اور ان کی نفسیات کا خوب اندازہ ہے۔ آپ ہی کوئی ترکیب نکال سکتے ہیں۔
نیاز: ترکیب تو ہے اور بہت دلچسپ و موثر، لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ اس پر عمل کیسے کیا جائے۔
ضیائی: بتائیے تو سہی میں عمل میں لانے کی صورت نکال لوں گا۔
نیاز: بھائی سنو، فلسفہ حسن و عشق کے پردے میں جس طرح عورت سارے شاعروں، سارے ادیبوں اور میری آپ کی کمزوری ہے، اسی طرح دلگیر کی بھی، بلکہ مجھ سے آپ سے زیادہ۔ لہٰذا کیوں نہ کسی لڑکی سے نقاد کو زندہ کرنے کے سلسلے میں دلگیر کے نام ایک رومان پرور خط لکھوایا جائے۔ ممکن ہے اس خط سے ان میں کچھ جھرجھری پیدا ہو۔
خلیقی: ترکیب تو بہت اچھی ہے، لیکن ایسی لڑکی یا عورت کہاں ملے گی جو اس کام کو انجام دے سکے۔ اپنے دوستوں اور عزیزوں میں تو کوئی ہے نہیں اور اگر کوئی تعلیم یافتہ لڑکی مل بھی جائے تو وہ اس چکر میں کہاں پڑے گی۔ وہ اپنے ہاتھ سے رومان پرور خط لکھنے اپنا نام خط میں ظاہر کرنے اور اس طرح خود کو اپنے خاندان کو رسوا کرنے پر آمادہ کیوں کر ہو گی؟
نیاز: یہی تو اصل مشکل ہے۔ کوئی عورت اس قسم کی مل جاتی تو میں اب تک اس کام کو کر گزرتا۔
ضیائی: بھائی، آپ خود کیوں نہ کچھ دنوں کے لئے لڑکی بن جائو۔ یوں بھی آپ کے انسانوں میں طبقہ نسواں کے جذبات کی بھرپور ترجمانی ہوتی ہے۔ کوئی شبہ تک نہ کر سکے گا کہ یہ کسی مرد کی تحریر ہے۔ یقین ہے کہ آپ کی انشا پردازی کا جادو پورا کام کرے گا اور دلگیر نقاد دونوں زندہ ہو جائیں گے۔ نیاز: میں اس کے لئے تیار ہوں، کسی لڑکی کی ضرورت نہیں۔ میں خود بائیں ہاتھ سے ’’قمر زمانی‘‘ کے نام سے خط لکھوں گا۔ آپ صرف اس کا انتظام کر دیجئے کہ خطوط کے جوابات راز دارانہ مٹکائے جاسکیں۔
ضیائی: یہ کام آپ مجھ پر چھوڑ دیجئے۔ گوالیار، بھوپال، بریلی، لکھنئو اور دہلی جہاں کہیں سے آپ چاہیں گے میں اس کا انتقام کروا دوں گا۔
نیاز: اچھا تو یہ بات چند مخصوص دوستوں کے سوا کسی کو معلوم نہ ہو۔ میں آج ہی دیگر کو قمر زمانی بیگم کے نام سے ایک خط لکھتا ہوں۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں قمر زمانی و نیاز فتح پوری اور شاہ دلگیر کے درمیان خط و کتابت کا ایک دلچسپ سلسلہ شروع ہوا اور ایک عرصے تک جاری رہا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ تیر ٹھیک نشانے پر جا کر لگا۔ دلگیر اور نقاد دونوں فی الواقع زندہ ہو گئے۔ قمر زمانی کے خطوط نے دلگیر کی ادبی زندگی میں ایک نئی روح پھونک دی۔ قمر زمانی کے اصرار پر پورے دو سال بعد دلگیر نے نقاد کو دوبارہ جاری کر دیا۔ لیکن شرط یہ ٹھہری کہ خود قمر زمانی بھی پس پردہ رہ کر نقاد کی نگرانی اور ادارت میں دلگیر کا ہاتھ بٹائیں۔ قمر زمانی نے یہ شرط قبول کرلی۔ نقاد کی جوائنٹ ایڈیٹر بن گئیں اور دلگیر کے اصرار پر نقاد میں مضامین بھی لکھنے لگیں۔ ان کے مضامین نے علمی و ادبی حلقوں میں ایک ہل چل پیدا کر دی اور خط و کتابت میں ضمناً اس دور کے بہت سے مشاہیر ادب شامل ہو گئے۔ قمر زمانی کے روپ میں نیاز فتح پوری کے یہی مکتوبات اور ان کے جوابات میں دلگیر کے خطوط اس وقت میرے سامنے ہیں اور قمر زمانی بیگم و شاہ دلگیر کی عشقیہ داستان کا مواد فراہم کرتے ہیں۔ یہ خطوط ادبی لحاظ سے حد درجہ دلچسپ ہیں اور بیشتر نیاز کی تخلیق ہونے کے سبب اردو ادب و صحافت کی تاریخ میں ایک نایاب اور انمول خزانے کی حیثیت رکھتتے ہیں۔ اس لحاظ سے اس دفینہ بے بہا پر جتنا حق میرا ہے، اتنا ہی ادب کے دوسرے قارئین کا۔ اس لئے اپنی طرف سے ایک لفظ کی کمی بیشی کئے بغیر اسے پیش کیا جا رہا ہے۔
قمر زمانی بیگم اور شاہ دلگیر کی خط و کتابت اور داستان معاشقہ کے سلسلے کا آغاز قمر زمانی بیگم کے خط سے ہوتا ہے۔ قمر زمانی کا پہلا خط 3 نومبر 1916ء کا مرقومہ ہے اور دہلی سے لکھا گیا ہے۔ اس میں انہوں نے دلگیر کو کیا لکھا، اس کے جواب میں ان کے اصل خط پر نظر ڈالتے چلئے …۔
پھاٹک حسین خان دہلی 3 نومبر 1916ءمری تقدیر میں دلگیر رہنا ہی مقدر ہےنہ نکلی آج تک حسرت میں وہ حسرت بھرا دل ہوںجناب اڈیٹر صاحب، تسلیم…
آپ اس خط کو دیکھ کر کہیں گے کہ یہ لکھنے والی کون ہے اور یہ بھدا خط کس کا ہے۔ لیجئے سنئے، بھائی جان قبلہ کے پاس ایک عرصہ تک نقاد آتا رہا۔ چوری چھپے میں بھی اسے دیکھ لیتی تھی۔ ماشاء اللہ کیا طرز تحریر ہے اور کیا پیارا کلام ہے۔ غزلوں کو دیکھ کر دل بے قابو ہو گیا۔ دل نے کہا، ہو نہ ہو یہ کسی دکھے ہوئے جی کا کلام ہے۔ مگر حیران تھی کہ مجھ کم بخت سے بھی زیادہ کوئی دکھا ہوا دل رکھتا ہے۔ میں شاعرہ نہیں ہوں۔ لیکن تھوڑا بہت مذاق سخن ضرور رکھتی ہوں، جو میرے تڑپانے کے لئے کافی ہے۔ شاعروں کی سخن دری کی داد دے سکتی ہوں اور نہ میں اپنی سخن فہمی کی داد چاہتی ہوں۔ عالم گیر کی چہیتی بیٹی زینب النساء کی طرح میری زندگی بھی بسر ہوتی ہے۔
خیر اس ذکر کو چھوڑیئے۔ اب آپ یہ بتایئے کہ اگر کوئی دکھیا آپ سے ملنا چاہے تو کیونکر ملے۔ آپ بڑے آدمی ہیں۔ شاعر ہیں اور ایک مشہور شخص ہیں۔ آپ کی بلا سے۔ مگر نہیں، اگر آپ سچ مچ ویسا ہی درد مند دل پہلو میں رکھتے ہیں جیسا کہ آپ کے کلام سے ظاہر ہے تو یقین ہے آپ از راہ کنیز نوازی کوئی تدبیر ملاقات کی ضرور نکالیں گے۔ میری سمجھ میں تو ایک بات آئی ہے کہ آپ 7 نومبر کی شب دہلی شریف لا کر احمد بھائی… کے کسی بالا خانے میں قیام کریں۔ وہاں یا تو میں خود حاضر ہوں گی یا میری خادمہ پیاری (اس کا نام ہے) میرا خط لے کر آپ کی خدمت میں دس بجے رات کو حاضر ہو گی اور سواری ساتھ لائے گی۔ آپ اگر تشریف لا کر میری عزت بڑھائیں گے تو میں بہت شکر گزار ہوں گی۔ یہ تاریخ خاص کر اس لئے مقرر کی ہے کہ اس دن میرے عزیز و اقارب بریلی جائیں گے اور گھر میں سوائے میری خادمہ کے اور کوئی نہ ہوگا۔ نقاد میں آپ کی تصویر دیکھ چکی ہوں۔ لیکن اب سامنے بیٹھ کر آپ سے کچھ حال دل کہنے کو جی چاہتا ہے۔ لِلہ ملاقات کیجئے۔ پھر خدا جانے کب موقع ملے، کیونکہ بہت جلد بنارس جانے والی ہوں۔ (قمر زمانی)۔ (جاری ہے)