اسلام آباد کے تمام مدارس سے زبردستی کوائف حاصل کرلئے گئے

0

نمائندہ امت
ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی دینی مدارس کو دبائو میں لینے کیلئے ہر حربہ استعمال کر رہی ہے۔ ایک بار پھر اسلام آباد کے تمام مدارس سے پولیس نے زبردستی کوائف حاصل کرلئے ہیں۔ جس سے مدارس انتظامیہ اور علمائے کرام میں سخت بے چینی اور تشویش پائی جاتی ہے۔ مدارس کو دیئے گئے پرفارمے میں ایسے سوالات بھی پوچھے گئے، جن کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ وفاق المدارس کے مرکزی ترجمان اور اسلام آباد کے ممتاز عالم دین مولانا عبدالقدوس محمدی کہتے ہیں کہ مدارس اب گزشتہ ادوار کی نسبت زیادہ مشکلات اور مسائل کا شکار ہیں۔
ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ دینی مدارس کو کئی مسائل کا سامنا ہے اور سب سے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ حکومت، مدارس دینیہ کے طلبہ کو نہ نوجوانوں میں شامل کرنے پر آمادہ ہے اور نہ ہی ان کو دی جانی والی تعلیم میں منتظمین کی مدد پر تیار ہے۔ وزیر اعظم عمران خان ان مدارس کو دنیا کی سب سے بڑی این جی او قرار دیتے ہوئے ان کی افادیت اور اپنے معاشرے میں ان کی اہمیت کے نہ صرف قائل رہے، بلکہ اہل مغرب کو بھی قائل کرنے کے لئے دلائل دیتے تھے۔ لیکن اب مغربی دبائو یا خوشنودی کے لیے ہی ان کی حکومت نے ان مدارس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی حکمت عملی پر تیزی سے عمل شروع کر دیا ہے۔ نوجوانوں کے امور کے لئے وزیر اعظم کے مشیر عثمان ڈار بھی دینی مدارس کے طلبہ کو نوجوانوں میں شمار نہ کرتے ہوئے انہیں نظر انداز کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ حکومت مالیاتی امور میں شفافیت لانے کے لئے مدارس پر زور دیتی ہے کہ وہ بینک اکائونٹس کی وساطت سے عطیات اور رقوم وصول کریں، تاکہ اخراجات اور آمدن کا سارا عمل شفاف ہو اور اس کی آسانی سے مانیٹرنگ کی جا سکے۔ لیکن جب مدارس کے منتظمین بینکوں سے رابطہ کرتے ہیں تو ایک اعتراض ختم کرنے کے بعد دوسرا، پھر تیسرا اور اعتراض در اعتراض لگا کر ان کے اکائونٹ کھولنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ لہذا جب اکائونٹ ہی نہیں ہوتا تو وزارت داخلہ و پولیس ایسے مدارس کو مشکوک فہرست میں شامل کر کے انہیں دبائو میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ امتیازی سلوک، وقت بے وقت چھاپے اور کوائف طلبی کے نام پر ہراساں کرنا دبائو میں لانے کے حربے ہی ہیں۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی نے صوبہ خیبر پختون میں اپنے گزشتہ دور حکومت میں آئمہ مساجد کو دس، دس ہزار روپے ماہانہ دینے کا اعلان کر کے ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن جبکہ وہ وفاق میں بھی برسراقتدار آ چی ہے، تو اس صوبے میں بھی مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ اور آئمہ کرام سے رویہ اور سلوک یکسر بدل گیا ہے۔ گزشتہ دنوں خیبر پختون میں عربی اور اسلامیات کے ٹیچرز کی بھرتی کے لئے ٹیسٹ ہوئے۔ میرٹ بتاتے ہوئے امیدواروں کے ماضی میں حاصل کئے گئے نمبرز کو بھی بنیاد بنایا گیا۔ لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے کہ جن عربی و اسلامیات کے امیدوار اساتذہ نے شہادت العالمیہ کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی، ان کے نمبر اس ڈگری میں شامل ہی نہیں کئے گئے۔ مدارس سے اسناد حاصل کرنے والے طلبہ کے ساتھ اس سے بڑا ظلم و زیادتی اور کیا ہو سکتی ہے۔ اس ظلم کا مقصد ان طلبا و طالبات کو اساتذہ کی ان خالی آسامیوں سے محروم کرنا اور اسکول و کالجز سے پڑھے طلبہ کو آگے لانا تھا۔ ایک جانب حکومت مدارس کے طلبہ کو مین اسٹریم میں لانے کی دعودار ہے اور اپنے دعوے کے مطابق اس کے لیے کوشاں بھی ہے، تو دوسری جانب جب دینی مدارس کے طلبہ کو مرکزی دھارے میں لانے کی مؤثر صورت سامنے آتی ہے تو ان سے سوتیلی ماں کا سا سلوک کیا جاتا ہے۔
اسی طرح ذرائع کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی کی انتظامیہ اور پولیس نے گزشتہ دنوں تمام مدارس میں پرفارمے تقسیم کئے اور انتظامیہ کو ہدایت کی گئی کہ تمام کوائف مکمل کر کے ایک ہفتے کے اندر واپس کئے جائیں۔ ان میں بعض ایسے سوالات/ خانے بھی تھے، جن کا بظاہر کوئی جواز نہیں بنتا۔ اس سلسلے میں علمائے کرام نے جب وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری سے رابطہ کیا تو انہوں نے ایسی کسی سرگرمی سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ جبکہ اسلام آباد پولیس نے مدارس سے زبردستی کوائف یہ کہہ کر حاصل کرلئے کہ اگر پرفارمے مکمل کر کے واپس نہ کئے گئے تو ایسا نہ کرنے والے مدارس اور ان کے متعلقہ حکام و علمائے کرام کا ریکارڈ خراب ہو گا، جو ان کے لئے مستقبل میں مشکلات اور مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔
اس حوالے سے ’’امت‘‘ نے وفاق المدارس کے ترجمان اور اسلام آباد کے ممتاز عالم دین مولانا عبدالقدوس محمدی سے رابطہ کیا تو انہوں کہا کہ موجودہ حکومت مدارس پر بلاوجہ پابندیاں عائد کر کے انہیں دبائو میں لانا چاہتی ہے۔ ماضی کی حکومتوں کی ایسی کوششیں ناکامی سے دو چار ہوئیں۔ موجودہ حکومت کو بھی اس سے سبق لینا چاہئے۔ مدارس دینِ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں۔ کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں۔ اگر کسی کو غلط فہمی ہے کہ وہ انہیں دینِ اسلام کی تعلیم کے نصب العین اور مشن سے روک دے گا تو اسے یہ غلط فہمی دور کر لینی چاہئے۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم سیاسی لوگوں کی طرح یہ تو نہیں کہتے کہ وزیر اعظم عمران خان نے مدارس کے بارے میں اپنی چند سال پہلے کی سوچ اور پالیسی پر یو ٹرن لے لیا ہے۔ لیکن ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ انہوں نے مدارس کے بارے میں پالیسی تبدیل کر لی ہے۔ اس کا ایک ثبوت صوبہ خیبر پختون میں عربی و اسلامیات کے ٹیچرز کے لئے ٹیسٹ ہیں۔ اس میں شہادت العالمیہ کے طلبہ کو ان کی اسناد کے نمبر نہ دینا، بہت بڑی زیادتی ہے۔ پھر ایک جانب بینک اکائونٹ کی ضرورت اور افادیت پر زور دیا جاتا ہے تو دوسری جانب اسٹیٹ بینک کے ماتحت تمام بینکس، اکائونٹ کھولنے پر آمادہ نہیں۔ ایک طرف وفاقی وزیر مذہبی امور کوائف طلبی سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں تو دوسری جانب اسلام آباد پولیس انہی کوائف کی طلبی کو بنیاد بناکر ڈرانے دھمکانے اور خوف زدہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ موجودہ حکومت کی یہ دو عملی سمجھنے سے علمائے کرام قاصر ہیں‘‘۔ مولانا عبدالقدوس محمدی نے بتایا کہ نوجوانوں کے لئے وزیر اعظم کے مشیر عثمان ڈار مدارس کے نوجوانوں کو غالباً اپنے ملک پاکستان کا شہری اور نوجوان ہی نہیں سمجھتے۔ ان کی تمام پالیسیاں کالجز و یونیورسٹیز کے طلبا و طالبات کے دائیں بائیں گھومتی ہیں۔ شہباز شریف دور میں دینی مدارس کے کچھ طلبہ کو بھی لیپ ٹاپ ملے تھے اور یہ تاثر ابھرا تھا کہ حکومت ان طلبہ کو بھی اپنا شہری سمجھتے ہوئے انہیں قومی دھارے میں لانے کے لئے سنجیدہ ہے۔ لیکن پی ٹی آئی حکومت کے دور میں تو وہ تاثر بھی دھندلا چکا ہے۔ مدارس کے نوجوان عثمان ڈار کی کسی ترجیح میں شامل نہیں۔ خیبر پختون حکومت شہادت العالمیہ کے نمبر شامل نہ کر کے مدارس کے بارے میں پی ٹی آئی قیادت کی سوچ کی عکاسی کر رہی ہے، جو انتہائی قابل تشویش بات ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مدارس دینیہ ان تمام تر زیادتیوں کے باوجود کسی دبائو میں آئے بغیر اپنے مشن اور دینی تعلیم کے فروغ کے لئے کوشاں رہیں گے۔ انشاء اللہ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More