واٹر بورڈ کے70فیصد افسران کی ترقیاں غیر قانونی نکلیں

0

کراچی(رپورٹ:نواز بھٹو) واٹر کمیشن کی ہدایت پر واٹر بورڈ، ایس بی سی اے، واسا اور حیدرآباد میونسپل میں ترقیوں اور اپ گریڈیشن کی چھان بین کرنے والی کمیٹی نے چھان بین کا عمل مکمل کر لیا ۔ صرف کراچی واٹر بورڈ میں 70 فیصد سے زائد افسران کی ترقیاں غیر قانونی نکلیں۔ایس بی سی اے ، واسا اور بلدیہ حیدرآباد کے بیشتر افسران کا ریکارڈ بھی موجود نہیں۔ کمیٹی نے واٹر بورڈ میں ہونے والی جعلسازیوں کا معاملہ نیب کے سپرد کرنے اور ریکارڈ کا اے جی سندھ کی توسط سے فارنسک آڈٹ کروانے کی سفارش کی ہے۔ذرائع کے مطابق متعلقہ اداروں کے حکام3 ماہ تک کمیٹی کو انگلیوں پر نچاتے رہے ۔ مدت مکمل ہو گئی لیکن حکام کی طرف سے بیشتر افسران کا ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا۔ مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والے ریکارڈ کی چھان بین کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ واٹر بورڈ میں گریڈ 17سے 20تک کے 70فیصد سے زائد ، ایس بی سی اے کے 50فیصد سے زائد، واسا کے 50فیصد سے زائد اور بلدیہ حیدرآباد کے60فیصد سے زائدافسران کو ڈپارٹمینٹل پروموشن کمیٹی کے ذریعے غیر قانونی ترقیاں، آؤٹ آف ٹرن پروموشن اور اپ گریڈیشن دی گئی۔ واٹر بورڈ حکام کی طرف سے فراہم کی جانے والی نامکمل فہرستوں کے مطابق افسران کی مجموعی تعداد 567بتائی گئی تھی جن میں سے گریڈ 17کے 300،گریڈ 18کے 220،گریڈ 19کے 41اور گریڈ 20کے 5افسران شامل ہیں لیکن ان افسران میں سے صرف 30فیصد افسران کا ریکارڈ پیش کیا گیا ۔ واسا میں موجود افسران کی تعداد 46، ایس بی سی اے میں 450 اور حیدرآباد میں میونسپل میں افسران کی مجموعی تعداد 20 بتائی گئی۔ ذرائع کے مطابق کمیٹی کی طرف سے واٹر بورڈ حکام کو گزشتہ تین ماہ کے دوران 25 لیٹر ارسال کئے جانے کے باوجود نتیجہ صفر نکلا۔ سیکریٹری بلدیات کو واٹر بورڈ حکام کی طرف سے ارسا ل کئے لیٹر No.KWSB/D.MD/HDR&A/363 میں کہا گیا کہ جن افسران کا ریکارڈ موجود نہیں ہے ان میں گریڈ 19کے ڈائریکٹر ریونیو ایس ایم غیاث اور خالد سلطان ، سپرنٹینڈنگ انجنیئرڈبلیو ٹی ایم ظفر علی، سپرنٹینڈنگ انجنیئر سول پی ایس تھری خرم شہزاد، سپرنٹینڈنگ انجنیئر سول توقیر علی خان، سپرنٹینڈنگ انجنیئر سول محمد حنیف، سپرنٹینڈنگ انجنیئر سول نظام الدین، سپرنٹینڈنگ انجنیئر مکینیکل ایس منظور یامین، سپرنٹینڈنگ انجنیئر مکینیکل انتخاب احمد، منظور علی خان، جمیل احمد، امتیاز الدین، سپرنٹینڈنگ انجنیئر سول امتیاز الدین، سپرنٹینڈنگ انجنیئر ای اینڈ ایم حسن اعجاز کاظمی، سپرنٹینڈنگ انجنیئر سول امداد حسین مگسی، روشن الدین میمن شامل ہیں۔ فہرست میں دئیے جانے والے گریڈ 18کے افسران میں ایگزیکٹو انجنیئر سول تابش رضا حسنین، تارا چند، ایس ایم اعجاز شامل ہیں ۔ گریڈ 17کے افسران میں اسٹنٹ ایگزیکٹو انجنیئر ای اینڈ ایم مسعود کاظمی، مظہر حسین، ایم راشد صدیقی شامل ہیں جن کے خلاف خلاف ای اینڈ ڈی رولز 1987کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے۔ جبکہ بعد میں ان میں سے متعدد نے کمیٹی سے رجوع کر کہ بتایا کہ انہوں نے ریکارڈ پیش کر دیا ہے۔ 26دسمبر 2018کو کمیٹی کو ارسال کئے گئے لیٹر No.KWSB/D.MD/ HDR&A/405میں گریڈ 17اور 18کے 33افسران کی منسلک فہرست میں بتایا گیا تھا کہ 33ایگزیکٹو انجنیئر، ریذیڈنٹ انجنیئر اور اسٹنٹ ایگزیکٹو انجنیئر نے ریکارڈ پیش نہیں کیا جن میں گریڈ 18کے منصور، ریاض خان غوری، جگدیش کمار، ہاشم عباس، تابش رضا، عابد حسین، عبدالواحد، عبدالغفار، جہانزیب خان، کلیم اختر، اظہر اقبال قاضی شامل ہیں۔ گریڈ 17افسران میں عبدالبشیر، عمران علی، محی الدین، شبیر حسین، باقر خمینی، راحیل احمد، محمد قسیم، محمد دلاور، فہد اعجاز، مسرت زکی، زاہد خان، یار محمد، محمد ندیم، اختر علی خان، شہزادہ حسین، مدن لال، منظور علی مگسی، ندیم احمد خان، امتیاز احمد، نصراللہ خان، فرحان شمس، مبارک علی شامل ہیں۔ لیٹر کے ساتھ منسلک گریڈ 17اور 18کے 63افسران کی ایک اور لسٹ بھی منسلک ہے جن کا ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا ان میں گریڈ 18کے سید فاروق احمد، شہزاد احمد، وقار احمد ہاشمی، خالد احمد خان، زاہد احمد، سید مشہود حسین، سید مسعود اختر، فہیم احمد صدیقی، خالد سلطان ، سید حسن امام، عمران خان، سیف یار خان، سید رفعت علی اور دیگر شامل ہیں ۔ جبکہ اسی لسٹ میں گریڈ 17کے 49افسران کے نام شامل ہیں۔ واضح رہے کہ واٹر کمیشن کی ہدایات پر11اکتوبر 2018کو سیکریٹری بلدیات سید خالد حیدر شاہ کی سربراہی میں سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کے شہمیر بھٹو اور محکمہ آبپاشی کے غلام علی برہمانی پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی جسے 30دن میں تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تاہم بعد میں تین بار توسیع کی گئی ۔ رپورٹ پیش کرنے کے لئے دی جانے والی پہلی ڈیڈ لائن 6نومبر تک دی گئی تھی ، دوسری ڈیڈ لائن 6دسمبر کو ختم ہوئی لیکن کمیٹی اپنے کسی بھی ماتحت ادارے سے افسران کا مکمل ریکارڈ حاصل نہیں کر سکی جس پر کمیٹی کو تیسری ڈیڈ لائن 6 جنوری 2019تک دی گئی تھی۔ ریکارڈ کی چھان بین کے لئے کمیٹی کے تین ماہ میں 15سے زائد اجلاس ہوئے تاہم محکمہ بلدیات کے ماتحت اداروں کے حکام نے کوئی اہمیت نہیں دی اور اجلاسوں میں دیر سے آنا معمول بنا رہا متعدد اجلاس ان اداروں کے افسران کی اجلاس میں عدم شرکت کی بنا پر ملتوی کرنے پڑے۔ کمیٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ چھان بین کے دوران جس حد تک ریکارڈ کو چھپانے اور پیش نہ کرنے کے بہانے کئے گئے اس کے پیش نظر ضروری ہے کہ ان کے ریکارڈ کا اے جی سندھ کی معرفت فرانسک آڈٹ کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم صرف سفارشات پیش کریں گے فیصلہ واٹر کمیشن نے کرنا ہے اور کمیٹی رواں ہفتے کے اختتام تک اپنی رپورٹ پیش کر دے گی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ واٹر بورڈ حکام نے جعلی ملازمین کا بھرپور دفاع کیا ہے،کبھی کہا گیا کہ ریکارڈ جل گیا ہے تو کبھی ہیڈ آفس کی منتقلی سے ریکارڈ گم ہونے کا بہانہ کیا، نچلے گریڈ سے بڑے گریڈ تک ترقی حاصل کرنے والے اکثر افسران کے پاس بھرتی ہونے کا ریکارڈ بھی موجود نہیں تھا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More