لواحقین نے اصغرخان کیس بند کرنے کی مخالفت کردی
اسلام آباد(نمائندہ خصوصی )تحریک استقلال کے سربراہ اصغر خان مرحوم کے لواحقین نے ایف آئی اے کی جانب سے سیاستدانوں میں کروڑوں روپے تقسیم سے متعلق کیس بند کرنے کی مخالفت کردی اور سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ ہم کیس کا منطقی انجام چاہتے ہیں، نتیجہ عوام کے سامنے لایا جائے۔ اصغر خان کی اہلیہ، علی اصغر خان، نسرین احمد خٹک اور شیریں اعوان کی جانب سے مشترکہ طور پر ان کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے ذریعے جمع کرائی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہم ایف آئی اے کی جانب سے انکوائری ختم کرنے کی سفارش کو مسترد کرتے ہیں۔ سابق فوجی افسران نے اپنا جرم عدالت میں تسلیم کیا، ان کیخلاف ٹرائل کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے، جب کہ رقوم کی تقسیم میں ملوث سیاستدانوں اورفوجی افسران کو بے نقاب ہونا چاہیے۔ درخواست میں مزید کہا گیا کہ اصغرخان نے جمہوری نظام کوغیرقانونی مداخلت سے پاک کرنے کی جہدوجہد کی، لیکن اصغر خان کی جہدوجہد پایہ تکمیل تک نہیں پہنچی۔ سیاسی شخصیات اورفوجی شخصیات نے آئین اورقانون کی خلاف ورزی کی، نشاندہی کے بغیر یہ شخصیات جمہوری نظام کیلئے خطرہ رہیں گی۔واضح رہے کہ 29 دسمبر کو ایف آئی اے نے سپریم کورٹ سے اصغر خان عملدرآمد کیس کی فائل بند کرنے کی درخواست کی تھی۔ 31 دسمبر 2018 کو سپریم کورٹ نےدرخواست گزار کے قانونی ورثا سے جواب طلب کیا تھا۔سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس 1996 میں دائر ہوا، مقدمے کی رو سے اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان کی ہدایت پر ایوان صدر میں 1990 کے انتخابات کے لیے الیکشن سیل بنایا گیا، جس میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ اور ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی شامل تھے۔مقدمے میں کہا گیا تھا کہ 1990 کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کو شکست دینے کے لیےآئی ایس آئی کے سیاسی ونگ نے مبینہ طور پر مہران بینک کے یونس حبیب کے ذریعے سیاستدانوں میں 14 کروڑ روپے تقسیم کیے، جس سے عوام کو شفاف انتخابات اور حق رائے دہی سے محروم رکھ کر حلف کی رو گردانی کی گئی۔بعد ازاں 16 سال بعد عدالت نے 2012 میں مذکورہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ریٹائر جرنیلوں اسلم بیگ، اسد درانی اور مہران بینک کے سربراہ یونس حبیب کے خلاف کارروائی کا حکم دیا اور رقم وصول کرنے والے سیاستدانوں کے خلاف ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔اس ضمن میں تفصیلی فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ اس وقت کے صدر، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنے عہدوں کا ناجائز استعمال کیا، 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی جبکہ اسلم بیگ اور اسد درانی غیر قانونی سرگرمیوں میں شریک ہوئے، ان کا یہ عمل انفرادی فعل تھا، اداروں کا نہیں۔تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ خفیہ اداروں کا کام الیکشن سیل بنانا نہیں بلکہ سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے، صدر مملکت ریاست کا سربراہ ہوتا ہے، صدر حلف سے وفا نہ کرے تو آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے، ایوان صدر میں کوئی سیل ہے تو فوری بند کیا جائے۔