ایس اے اعظمی
یورپ میں اللہ اکبر کہنا بھی جرم بنا دیا گیا ہے۔ حجاب اور برقع کے بعد نصف درجن یورپی ممالک میں عوامی مقامات پر اللہ اکبر کہنے پر جرمانے عائد کئے جانے لگے ہیں۔ تازہ واقعے میں سوئس پولیس نے ایک مسلمان نوجوان کو، اللہ اکبر کہنے پر 210 فرانک کا جرمانہ کر دیا اور ساتھ ہی اس کو دہشت گردی کے مقدمے میں ماخوذ کرنے کی دھمکی بھی دی۔ 22 سالہ ترک نژاد سوئس نوجوان ارحان علی کی شکایات پر ترک سفیر نے جب سوئس حکومت سے پولیس افسر کی زیادتی کی کمپلین کی، تو سوئس حکومت نے کوئی ایکشن لینے کے بجائے پولیس اہلکاروں کے رویے اور جرمانے کو درست قرار دیا۔ ترک سفارتی حکام کو دی جانے والی وضاحت میں سوئس سیکورٹی ترجمان پیٹرک کیپریز نے کہا کہ پولیس ہر اس فرد پر جرمانے کا استحقاق رکھتی ہے، جو بازار میں عوام کو خوف میں مبتلا کرنے کیلئے ’’اللہ اکبر‘‘ کا نعرہ لگائے۔ پولیس ترجمان نے یہ ہرزہ سرائی بھی کی کہ اللہ اکبر کا نعرہ دہشت گرد، یورپی عوام کو خوفزدہ کرنے کیلئے لگاتے ہیں۔ سوئس ریلوے اسٹیشن کے سیکورٹی چیف رومیو بیٹینی سے جب اس ترک نژاد سوئس نوجوان ارحان علی نے مل کر معاملہ حل کرنے اور جرمانے کی رقم ری فنڈ کرنے کی درخواست کی تو موصوف نے پولیس کی جانب سے جرمانے کو جائز قرارد ے دیا اور ارحان علی سے کہا کہ تم نے عوام کو ’’دہشت زدہ‘‘ کرنے کیلئے جان بوجھ کر ’’اللہ اکبر‘‘کا نعرہ لگایا۔ اپنی تحریری شکایت میں ارحان علی نے اس بات سے انکار کیا کہ انہوں نے بلند آواز میں نعرہ تکبیر لگایا تھا۔ ارحان نے چیلنج کیا کہ اس مقام کی سی سی ٹی وی ویڈیو اور آڈیو ریکارڈنگ سنی اور دیکھی جائے کہ اس نے اللہ اکبر کا نعرہ با آواز بلند لگایا تھا یا آہستگی سے اللہ اکبر کہا تھا؟ لیکن سوئس پولیس اور اسٹیشن سیکورٹی چیف نے ارحان کے چیلنج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ مقامی میڈیا کو دیئے جانے والے انٹرویو میں ارحان علی نے بتایا ہے کہ ان کے والدین نے ترکی سے ہجرت کرکے سوئٹزرلینڈ میں سکونت اختیار کی تھی اور وہ خود پیدائشی طور پر سوئس باشندے ہیں۔ لیکن انہیں اس افسوس ناک واقعے کا سامنا کرنا پڑا جس میں پولیس نے ان سے نسل پرستی کا مظاہرہ کیا ہے۔ برطانوی جریدے ڈیلی ایکسپریس نے بتایا ہے کہ ارحان علی ایک پر ہجوم ریلوے اسٹیشن Schaffhausen سے متصل ترک کلچرل سینٹر کی جانب جا رہا تھا کہ اس کو ایک دیرینہ دوست دکھائی دیا، جس پر یہ نوجوان اس قدر خوش اور پر جوش ہوگیا کہ اس کے منہ سے بے ساختہ اللہ کی کبریائی بیان ہوگئی۔ دوسری جانب قریب ہی کھڑی ایک خاتون پولیس افسر سمیت دو مسلح پولیس اہلکاروں نے اللہ اکبر سنتے ہی ارحان علی پر اپنی آٹومیٹک بندوقیں تان لیں اور اس کو گرا کر اس کی تلاشی لی۔ ارحان علی نے پولیس والوں کو سمجھایا کہ وہ اپنے دیرینہ دوست سے ملاقات ہونے پر انتہائی خوش تھا جس کے باعث اس نے اللہ اکبر کہا۔ اس وضاحت کے باوجود سوئس پولیس اہلکاروں نے ارحان کو رہائی دینے سے انکار کردیا اور اس کی تمام پرسنل انفارمیشن ایک ڈائری میں لکھنا شروع کردیں۔ ساتھ ہی وائرلیس کال کرکے مزید نصف درجن پولیس اہلکاروں کو موقع پر بلا لیا اور ارحان کے ساتھ دہشت گرد جیسا سلوک کیا۔ بعد ازاں پولیس نے ارحان کو 150 فرانک کا جرمانہ بھرنے کو کہا۔ جب ارحان علی نے اس ضمن میں پولیس کو سمجھانے کی کوشش کی تو پولیس افسر نے مزید ساٹھ فرانک کا جرمانہ بڑھایا۔ ساتھ ہی دہشت گردی کے مقدمہ میں ماخوذ کرنے اور جیل بھیجنے کی دھمکی بھی دی۔ سوئس جریدے دی لوکل نے لکھا ہے کہ سوئس حکومت نے عوامی مقامات پر اللہ اکبر کہنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ کیونکہ داعش سے تعلق رکھنے والے متعدد حملہ آوروں نے اپنے حملوں سے قبل یہی الفاظ ادا کئے تھے۔ حکومتی سرکلر میں کہا گیا ہے کہ اللہ اکبر کہنے سے یورپی عوام خوفزدہ ہوجاتے ہیں اس لئے عوام کے تحفظ کی خاطر عوامی مقاما ت پر اللہ اکبر کہنے پر 200 فرانک تک جرمانہ کیا جائے اور عدم ادائیگی پر جیل بھیجا جائے اور اس نعرہ لگانے والے فرد کیخلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا جائے۔
٭٭٭٭٭