کراچی کے تاجروں نے خود سوزی کی دھمکی دیدی

0

کے ایم سی کی جانب سے دکانوں کو مسمار کرنے کے نوٹس دیئے جانے پر لی مارکیٹ کے تاجر غیر معینہ مدت کیلئے مارکیٹ کے سامنے احتجاجی دھرنے پر بیٹھ گئے ہیں۔ کے ایم سی کی انہدامی کارروائیوں پر مشتعل تاجروں کا کہنا ہے کہ اگر زبردستی دکانیں توڑنے کی کوشش کی گئی تو وہ مارکیٹ کے سامنے خود سوزی کرلیں گے۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو میں تاجر رہنما شعیب بلوچ کا کہنا تھا کہ اگر میئر کراچی کو برٹش حکومت سے تمغے لینے ہیں تو مارکیٹ سے کلاک ٹاور کو نکال کر لے جائیں۔ غریب تاجروں کے کاروبار کو برباد نہ کریں۔ انہوں نے بتایا کہ دھرنے میں موجود تاجر شدید مشتعل ہیں۔ اردو بازار سمیت دیگر 5 مارکیٹوں پر چڑھائی روک کر نظرثانی کے نام پر مک مکا کیا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ دوبارہ سروے ہوگا۔ اسی طرح لیمارکیٹ کا بھی دوبارہ سروے کرایا جائے۔ اگر کوئی دکان غیر قانونی ہے تو تاجر خود اس کو توڑ دیں گے۔
واضح رہے گزشتہ برس نومبر سپریم کورٹ کے احکامات پر کراچی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کا آغاز ایمپریس مارکیٹ کے اندر اور اطراف کی دکانیں مسمار کرکے کیا گیا تھا۔ ذرائع کے بقول اس آپریشن کا ایک مقصد برطانوی دور حکومت کی عمارات کی اصل شکل میں بحالی بھی ہے۔ لیمارکیٹ کی عمارت بھی انگریز دور کی تعمیر کردہ ہے۔ مارکیٹ کے اندر اور اطراف 1200 سے زائد دکانیں ہیں۔ تاہم سرکاری سطح پر 961 دکاندار چالان بھر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق کے ایم سی کا عملہ تجاوزات آپریشن کے دوران بھی دکانداروں سے دسمبر 2019ء تک کا کرایہ وصول کرچکا ہے۔ اس مارکیٹ میں پختون، بلوچ اور سندھی تاجر کاروبار کررہے ہیں اور کے ایم سی کی جانب سے انہدامی کارروائی کی صورت میں امن و امان کی صورت حال خراب ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ لیمارکیٹ کے دکانداروں کے مطابق انہیں 9 روز قبل انہدامی کے نوٹس دیئے گئے تھے اور کہا گیا تھا کہ وہ اپنی دکانیں خالی کر دیں۔ ایمپریس مارکیٹ کی طرح مارکیٹ کے اندر اور اطراف کی تمام دکانیں مسمار کی جائیں گی۔ اس دوران دکانداروں نے عدالت سے رجوع کیا کہ ان کو متبادل جگہ دی جائے اور مہلت دی جائے۔ لیمارکیٹ میں چائے کی پتی، سبزی، فروٹ اور دیگر اشیا کی دکانیں، ہوٹل اور دودھ منڈی واقع ہے۔ انہدامی کے نوٹس ملنے پر تمام مارکیٹوں کے تاجر رہنمائوں نے اپنے طور پر میئر کراچی سے ملنے کی کوشش کی۔ لیکن انہیں کہا گیا کہ آخری حل یہ ہے کہ دکانیں خالی کرکے چلے جائیں۔ ورنہ بلڈوزر طاقت کے استعمال کے بعد بھی چل سکتا ہے۔ تاجر پریشان تھے کہ کسی بھی وقت عملہ آکر آپریشن شروع کردے گا۔ بعدازاں تمام تاجروں نے ہڑتال کا فیصلہ کیا اور جمعہ کی صبح دکانیں بند کرکے دھرنے پر بیٹھ گئے۔ احتجاجی تاجر شدید مشتعل ہیں، ان کا کہنا ہے کہ 3 ماہ قبل متاثر ہونے والے ایمپریس مارکیٹ کے تاجروں کو ابھی تک متبادل جگہ نہیں دی گئی ہے، تو لی مارکیٹ والوں کا کیا ہوگا۔ دھرنے میں موجود آل لیمارکیٹ تاجر اتحاد کے چیئرمین شعیب بلوچ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’بس بہت ہوگیا۔ تاجر اب مزید ظلم برداشت نہیں کریں گے۔ ہم کے ایم سی کے کسی حکم کو نہیں مانتے۔ اگر لی مارکیٹ میں آپریشن کیا گیا تو صورتحال کے ذمہ دار میئر کراچی ہوں گے۔ ہم انہدامی آپریشن کا فیصلہ واپس لئے جانے تک دھرنا ختم نہیں کریں گے۔ تاجر اپنی دکانیں بند کر کے احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں لیکن کے ایم سی کے افسران اور میئر کراچی کچھ سننے کو تیار نہیں ہیں۔ اگر آپریشن کیا گیا تو تاجر سخت مزاحمت کریں گے‘‘۔ لیمارکیٹ تاجر اتحاد کے صدر سید سعد اللہ آغا کا کہنا تھا کہ ’’میئر کراچی جس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں وہ پارٹی لسانی بنیاد پر قتل وغارت کرتی رہی ہے اور اب وسیم اختر کراچی کے تاجروں کا معاشی قتل کررہے ہیں۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ پہلے بھی بھتہ نہیں دیتے تھے، اب بھی نہیں دیں گے‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ اردو بازار اور اورنگزیب مارکیٹ سمیت 5 مارکیٹوں میں آپریشن روک دیا گیا ہے اور دوبارہ سروے کیلئے کمیٹی بنائی گئی ہے۔ جبکہ وہ مارکیٹیں نالوں پر قائم ہیں۔ لی مارکیٹ کے اندر اور اطراف کی تمام دکانوں سے کے ایم سی چالان کے ساتھ کرایہ وصول کرتی ہے۔ میئر کراچی اس مارکیٹ میں آپریشن کے فیصلے پر بھی نظرثانی کریں۔ اگر کوئی دکان غیرقانونی ہے تو بتائیں، تاجر رضاکارانہ طور پر خود توڑ دیں گے۔ لیکن قانونی دکانیں کسی صورت نہیں توڑنے دیں گے۔ تاجر رہنما ہاشم خان کا کہنا تھا کہ اگر طاقت کا استعمال کرتے ہوئے لیمارکیٹ کی دکانیں گرانے کی کوشش کی گئی تو تاجر بیوی بچوں سمیت خود سوزی کرلیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تاجر اپنے بچوں کو فاقوں کا شکار نہیں ہونے دینگے اور انہدامی آپریشن کی بھرپور مزاحمت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ لیاری میں بڑی قربانیوں کے بعد امن قائم ہوا ہے۔ کے ایم سی کے کارروائی سے صورتحال خراب ہوسکتی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے تجاوزات کیخلاف آپریشن کا حکم دیا تھا۔ اب کے ایم سی کی جانب سے قانونی دکانیں توڑنے کا فوری نوٹس لیں، ورنہ کراچی میں لاکھوں تاجر بے روزگار کر دیئے جائیں گے۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار کہاں ہیں، وہ اس معاملے پر کیوں خاموش ہیں۔ جہاں کروڑوں کا کاروبار ہوتا تھا، وہاں اب ملبے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، کیا یہ نیا پاکستان ہے۔ دکاندار نبی بخش نے بتایا کہ اس کے خاندان کے لوگ قیام پاکستان سے قبل لیمارکیٹ میں فروٹ سبزی کی دکانیں چلاتے تھے۔ اگر میئر کراچی نے برٹش حکومت سے کوئی میڈل لینا ہے تو لی مارکیٹ سے قدیم گھڑیال نکال کر لے جائیں اور غریبوں کو روزگار کرنے دیں۔ تاجر ایوب خان نے کہا کہ کے ایم سی 1947ء سے 2019ء تک اس مارکیٹ کے دکانداروں سے کرایہ وصول کرتی رہی اور اب انہی دکانوں کو گرانے کے درپے ہے۔ لیکن تاجروں کی لاشوں کو روند کر ہی دکانیں مسمار کرنی پڑیں گی۔ تاجر محمد امین نے بتایا کہ ایک ہزار دکانوں کے 7 ہزار سے زائد مالک اور ملازمین کاروبار بند کرکے دھرنے پر بیٹھ گئے ہیں۔ اگر زبردستی آپریشن کیا گیا تو شدید ہنگامہ آرائی ہوگی۔ دکاندار شبیر احمد کا کہنا تھا کہ لیمارکیٹ کے تحفظ کیلئے تاجر دن رات پہرہ دے رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More