دلگیر کی تخلیقی صلاحیتوں کے سوتے دوبارہ پھوٹ پڑے تھے

0

ترتیب و پیشکش
ڈاکٹر فرمان فتحپوری
قمر زمانی کو چھبیس جنوری کو لکھے گئے طویل خط میں دلگیر مزید لکھتے ہیں:
زہے نصیب کہ آپ مجھے منائیں۔ لیکن میں آپ سے روٹھا ہی کب تھا، خفا ہی کب تھا۔ ہاں اپنی جان سے بیزار اور اپنے جی سے آزردہ ضرور تھا اور چاہتا تھا، آہ! کس قدر چاہتا تھا کہ تم پر، ہاں تم پر نثار ہو جائوں، فدا ہو جائوں اور جس قدر جلد ممکن ہو قید ہستی اور قید غم دونوں سے ایک ساتھ آزاد۔ لیکن باور فرمایئے کہ آپ کا غم اس قدر عزیز، اتنا پیارا تھا کہ اسے کسی عنوان چھوڑنے کو جی نہ چاہا۔ یہ اگر مونس تنہائی نہ ہوتا تو جانبری معلوم۔
’’تمہیں منانا آتا ہے‘‘۔ اس قدرت پر قربان۔ کاش اس کا موقع ملے…
’’ناز کھینچوں بجائے حسرت ناز‘‘
یہ آپ کے سمجھنے کی بات نہیں ہے۔
’’حضور‘‘ اس تخاطب پر نثار، لیکن غلام کہنا زیادہ مناسب ہوتا۔ کیا اس کا فخر کبھی مجھے حاصل ہو سکتا ہے۔ آئندہ مجھے اپنا غلام ہی لکھا کریں۔ بخدا جی اٹھوں گا۔
آپ مطمئن ہیں؟ میں نے ’’ان سے‘‘ کوئی ایسی بات نہیں کہی، جو موجب افشائے راز ہو:
کبھی ہم راز حسن و عشق کو افشا نہیں کرتے
ادھر جایا تو کرتے ہیں مگر دیکھا نہیں کرتے
ہاں میری پریشان حالی نے زبان حال سے کچھ کہہ دیا ہو تو اس کا ذمہ دار کون ہے، یقینا میں نہیں۔ عشق میں رسوائی نہ ہو تو لطف نہیں…
’’اس میں کیا عشق کی عزت تھی کہ رسوا نہ ہوا‘‘
کیا بتائوں بریلی میں تین راتیں کس طرح گزاریں…
’’آپ سنئے گا تو پچھتایئے گا‘‘
خیر اس ذکر کو جانے دیجئے۔
’’مجھ سے ضبط و تحمل سیکھئے‘‘۔ اس مشفقانہ نصیحت کا ممنون ہوں اور کبھی صحبت نصیب ہوئی تو ضرور سیکھنے کی کوشش کروں گا، ورنہ حالت ہے…
چارۂ دل سوائے صبر نہیں
سو وہ تیرے سوا نہیں ہوتا
ہائے ہم کم بخت عشاق کے یہاں سب کچھ ہے، مگر نہیں ہے تو ضبط و تحمل۔ یہ نسائیت کا حصہ ہے جو صرف آپ کے لیے مخصوص ہے۔ خدا مبارک کرے یہاں تو یہ تمنا ہے…
خراب حال وفا کو خراب رہنے دے
’’پیاری‘‘ (قمر زمانی کی ملازمہ) میرے لیے ہر موقعہ پر بلائے جان ثابت ہوئی۔ دلی میں بیمار تھی بریلی میں غائب:
خدا بھلا کرے آزار دینے والوں کا
آپ مجھے کوسیئے، میری قسمت کو رویئے، میری بربادی کا ماتم کیجئے…
تیرے دشمن دل دکھائیں تیرے دشمن غم کریں
میری حالت دیکھ کر تو کیوں پریشان ہو گیا
’’میری قسم (اس قسم پر مر گیا) سچ سچ کہنا، کیا آپ (تو لکھنا تھا) واقعی آئے تھے، یہ سب سچ سہی، مگر مجھے خدا جانے کیوں یقین نہیں آتا‘‘۔
’’ہائے اللہ کتنے ارمان تھے‘‘۔
یہ فقرے محبت کی جان ہیں۔ اف محبت میں کس قدر پیاری بدگمانیاں ہوتی ہیں اور یہ بھی اسی قسم کی ایک بدگمانی ہے کہ میرے آنے کا یقین نہیں، سچ کہا ہے…
عشق است و ہزار بدگمانی
’’ہائے اللہ، کتنے ارمان تھے‘‘۔
ارے معاذاللہ۔
آپ کی قسم کھاتے ہوئے ڈرتا ہوں۔ لرزتا ہوں۔ ورنہ کہہ دیتا کہ ’’آپ کی قسم‘‘ اس نشتر پر بے اختیار جان دینے کو جی چاہتا ہے۔ ہائے رکھ رکھائو اتنا تو ہو۔ ایک چھوٹا سا فقرہ اور عطر زندگی۔ آپ نے سارے خط میں جوانی کا زور دکھایا ہے (اکثر جگہ) آپ کی نزاکت خیالی میری آنکھوں سے آنسو بن کر ٹپکی (خدا جانے کیا بات ہے آپ کی تحریر سے دل پر چوٹ لگتی ہے) اور اس فقرے میں تو آپ نے بڑے بڑے نازک خیالوں کا ست کھینچ لیا۔
آپ کے نشتروں کا سوائے اس کے کہ دل میں رکھ لے اور کوئی جواب نہیں ہو سکتا۔ لیکن سوال یہ ہے…
کیا یہ ارمان کبھی پورے ہوں گے۔
خود ہی جواب عرض کرتا ہوں:
سہارا ڈھونڈتا ہوں زندگی کا
جو تم چاہو تو کچھ مشکل نہیں ہے
کیا اجین جاتے ہوئے آگرہ میں ملنا ممکن نہیں ہے۔
پھر یہی کہوں گا ’’جو تم چاہو تو کچھ مشکل نہیں ہے۔‘‘
’’جہاں ممکن ہوا آپ سے ملوں گی، لو اب تو من جائو‘‘۔ کیا عرض کروں اس فقرے نے مجھ پر کیا ستم ڈھایا، ہائے ظالم…
ڈال کر باہیں گلے میں کر دیا پانی مجھےسچ یہ ہے کہ آپ کا ہر فقرہ ریویو کے لیے مستقل عنوان چاہتا ہے اور میں لطف کو قائم رکھنا چاہتا ہوں، اس لیے جستہ جستہ داد دیتا رہوں گا۔
’’تکلیف‘‘ کی بھی ایک ہی کہی۔ میری ساری راحتیں اور تمام خوشیاں آپ کی اس آرزو پر نثار کہ نقاد آپ کے مطالعہ میں رہے۔ لیکن میں اس کی مطلا و مذہب جلدیں (جو خاص اہتمام سے آپ ہی کے لیے تیار کرائی ہیں) بھیجوں گا نہیں، خود اپنے کانپتے ہوئے پرشوق ہاتھوں سے نذر کروں گا۔ (خدا وہ دن جلد لائے، آمین)
یہ میری تمنا ہے اور مجھے یقین ہے کہ اسے آپ کو منظور کرنے میں عذر نہ ہو گا، ہاں ارشاد ہو تو اپنی زندگی کی تصویر آپ کا غم غلط کرنے کے لیے بذریعہ رجسٹری بھیج دوں، شاید لطف دے۔
یہاں تک تو آپ کے خط کا جواب ہوا۔ اب میری ایک بات کا آپ بھی تسکین بخش جواب دے کر جلا لیجئے اور وہ یہ ہے کہ جب آپ کو سب خطوط 5 جنوری کو مل گئے تھے تو ان کے جواب 18 جنوری کو مل گئے تھے تو ان کا جواب 18 جنوری کو کیوں لکھا۔ کیا یہ خیال نہ تھا کہ کوئی تنگ آکر جان دے دے گا، ہاں نہ تھا۔
اچھا اب کے جواب جلد نہ دینا، خاموش ہو رہنا اور پھر تمہاری جان سے دور:
’’ہم دکھا دیں گے کہ یوں مرتے ہیں ’’مرنے والے‘‘۔
بریلی کی شب ہائے دلگیر میں چند موزوں نالے دل سے نکل گئے تھے۔ دیکھنے کی فرصت ہو اور جی بھی چاہے تو بھیج دوں۔
دو نالے دل چاہے تو ابھی سن لو، آہ…
ہر بات پہ روتا ہے ہر بات پہ کڑھتا ہے
یہ دل بھی عجب دل ہے یہ جی بھی عجب جی ہے
آج کل یہی حالت ہے، باور نہ آئے تو آکر دیکھ لو۔
دوسرا نالہ شاید نہ سنا جائے، خیر دل تھام کے عرض کرتا ہوں:
دم جس پر نکلتا ہے دل جس پہ تصدق ہے
وہ شکل بھی آنکھوں سے اب تک نہیں دیکھی ہے
کیا نالۂ دلگیر کی داد آپ سے چاہوں؟
’’دل گیر دلنواز کی دلگرفتہ‘‘
ہائے ترکیب الفاظ ہی تو ہے، یہ معلوم ہوتا ہے کوئی دل میں چٹکیاں لے رہا ہے۔ میں ان خوب صورت اور جچے تلے الفاظ کو اگر اس طرح ترکیب دے سکتا تو سچ کہتا ہوں، تین بوتلوں سے کم کا نشہ نہ ہوتا۔
ہے یہ کہ:
’’لکھ جاتی ہیں جو آپ کوئی لکھ نہیں سکتا‘‘
آخر میں ہذیانات محبت کی باادب معافی چاہتا ہوں اور تمنائے قدمبوسی کے ساتھ رخصت ہوتا ہوں۔ اچھا خدا حافظ فی امان اللہ۔ جلدی یاد فرمایئے گا اور مفصل ورنہ یقین کیجئے مر جائوں گا۔
صرف تمہارا
’’دل گرفتہ ’’دل‘‘۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More