امت رپورٹ
وفاقی کابینہ نے ابھی تک جنرل (ر) راحیل شریف کو اسلامی عسکری اتحاد کی سربراہی کیلئے این او سی جاری نہیں کیا ہے۔ جبکہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی ڈیڈ لائن میں دو روز رہ گئے ہیں۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 15 دسمبر 2018ء کو فیصلہ دیا تھا کہ غیر ملک میں یا بیرون ملک ملازمت کیلئے وفاقی کابینہ اور وفاقی حکومت سے این او سی حاصل کرنا ضروری ہے۔ عدالت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ کابینہ ایک ماہ میں فیصلہ کرے کہ کیا کرنا ہے۔ اگر کابینہ نے دی گئی مدت میں این او سی جاری کرنے کا فیصلہ نہ کیا تو جنرل (ر) راحیل شریف اسلامی ممالک کی فوج کی سربراہی سے سبکدوش سمجھے جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق اس حوالے سے تحریک انصاف کی حکومت نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ جبکہ تحریک انصاف اپوزیشن میں رہتے ہوئے جنرل (ر) راحیل شریف کی سعودیہ تعیناتی کی مخالفت کرتی رہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جنرل (ر) راحیل کو این او سی جاری نہ کرنے پر حکومت اور مقتدر حلقوں میں محاذ آرائی کا خدشہ ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے سعودی عرب میں اسلامی عسکری اتحاد کے سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف کے بیرون ملک ملازمت کے این او سی کو غیر قانونی قرار دے کر اس کی درستگی کے لئے وفاقی حکومت کو ایک ماہ کی مہلت دیتے ہوئے قرار دیا تھا کہ مقررہ مدت کے اندر قانون کے مطابق این او سی جاری نہ ہونے کی صورت میں جنرل (ر) راحیل شریف اپنی موجودہ غیر ملکی ملازمت سے سبکدوش تصور کئے جائیں گے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار، جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل بنچ نے یہ حکم ججوں اور سرکاری و عدالتی ملازمین کی دُہری شہریت کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے جاری کیا تھا۔ فاضل بنچ نے 52 صفحات پر مشتمل اپنے اس فیصلے میں آئین، شہریت، سرکاری ملازمت اور نیشنل ڈیٹا بیس سمیت مختلف قوانین کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد قرار دیا ہے کہ کئی معاملات ایسے ہیں جن کی عدالتی تشریح کے ذریعے دادرسی ممکن نہیں ہے، جب تک کہ پارلیمنٹ ان پر قانون سازی نہ کرے۔ عدالت نے جنرل (ر) راحیل شریف کے حوالے سے قرار دیا ہے کہ ان کا این او سی قانون کے مطابق نہیں ہے۔ انہیں بیرون ملک ملازمت کے لئے جی ایچ کیو اور وزرات دفاع نے این او سی جاری کیا تھا۔ جبکہ قانون کے تحت سابق سرکاری ملازم کو صرف وفاقی حکومت این او سی جاری کرسکتی ہے۔ اس این او سی کے بغیر کوئی سابق سرکاری ملازم کسی غیر ملکی حکومت یا ایجنسی کی ملازمت نہیں کرسکتا۔ جبکہ عدالت قرار دے چکی ہے کہ حکومت سے مراد وفاقی کابینہ ہے۔ اٹارنی جنرل نے اس معاملے کا جائزہ لینے کیلئے عدالت سے مہلت طلب کی تھی۔ اب سیکرٹری دفاع کو حکومت سے این او سی کی بابت ایک ماہ کی مہلت دی جاتی ہے۔ اگر مقررہ مدت کے اندر قانون کے مطابق این او سی جاری نہیں کیا جاتا تو جنرل (ر) راحیل شریف بیرونی ملازمت سے سبکدوش تصور کئے جائیں گے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق ابھی تک حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق جنرل (ر) راحیل شریف کو این او سی دینے یا نہ دینے کے حوالے سے کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا ہے۔ واضح رہے کہ تحریک انصاف حکومت میں آنے سے قبل جنرل (ر) راحیل شریف کی جانب اسلامی عسکری اتحاد کی سربراہی سنبھالنے کی مخالف تھی اور اس پر پارلیمنٹ میں احتجاج بھی کیا تھا۔ قانونی ماہرین کے مطابق اگر وفاقی کابینہ نے جنرل (ر) راحیل شریف کو این او سی نہ دیا تو وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اسلامی فوج کی سربراہی سے سبکدوش تصور ہوں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالت کا تحریری فیصلہ 15 دسمبر کو منظر عام پر آیا تھا اور اسی دن سے لاگو تصور ہوگا۔ اس طرح اب صرف دو دن باقی ہیں۔ جن میں اگر وفاقی کابینہ یا حکومت نے کوئی فیصلہ نہ کیا تو جنرل (ر) راحیل سپریم کورٹ حکم کے مطابق بیرون ملک ملازمت سے سبکدوش تصور ہونگے۔
باوثوق ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ تحریک انصاف کی حکومت اس معاملے کو بہت ہلکا لے رہی ہے اور جنرل (ر) راحیل شریف کیلئے این او سی کے معاملے پر واضح جواب نہیں دے رہی۔ جبکہ یہ معاملہ حکومت کے گلے کا ہار بن سکتا ہے ۔ ذرائع کے مطابق تحریک انصاف حکومت اس لئے اس معاملے پر خاموش ہے کہ وہ پہلے ہی یوٹرن کے حوالے سے عوامی رائے عامہ میں مذاق اور طنز کا نشانہ بن رہی ہے اور اب اس معاملے پر بھی اس کو ویسی ہی صورتحال کا سامنا ہوسکتا ہے۔ تاہم ذرائع کے مطابق یہ اتنا آسان نہیں ہوگا اور تحریک انصاف کی حکومت کیلئے مقتدر حلقوں کی مخالفت مشکلات کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ اشو بڑے اختلافات کا بھی سبب بن سکتا ہے۔ ’’امت‘‘ نے اس صورتحال پر حکومتی ترجمان کا موقف حاصل کرنے کیلئے رابطہ کیا تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
٭٭٭٭٭