حج بھی متوسط طبقے کی پہنچ سے دور کرنے کی تیاری

0

امت رپورٹ
حکومت نے حج بھی متوسط طبقے کی پہنچ سے دور کرنے کی تیاری کرلی ہے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری اور متعلقہ وفاقی سیکریٹری نے قریباً ایک ماہ قبل حج کی تیاریوں کے سلسلے میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کا مقصد حجاج کرام کی آمد و روانگی، رہائش اور کھانے سمیت دیگر سہولیات کا جائزہ لینا تھا اور یہ تعین کرنا تھا کہ نئی حج پالیسی 2019ء کے تحت اس بار حج پیکیج کے سرکاری ریٹ کیا رکھے جائیں۔ وفاقی وزارت مذہبی امور کے معتبر ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ دورہ سعودیہ اور وہاں حجاج کرام کو سہولیات فراہم کرنے کے ذمہ دار ادارے موسسہ ادلہ اہلیہ سے فیڈ بیک لینے کے بعد وزارت مذہبی امور نے اس برس سرکاری حج کے لیے 4 لاکھ 37 ہزار روپے کا Proposal (تجویز) تیار کیا ہے۔ اس بارے میں کہا جارہا ہے کہ ڈالر اور ریال کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے نتیجے میں رہائش، کھانا، ٹرانسپورٹ سمیت دیگر سہولتیں مہنگی ہو گئی ہیں، لہٰذا سرکاری اسکیم کے تحت حج کرنے والوں پر یہ بوجھ ڈالنا مجبوری ہے۔ گزشتہ برس سرکاری حج کا پیکیج دو لاکھ 80 ہزار روپے تھا، یوں اس بار فی حاجی پر ایک لاکھ57 ہزار روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ تاہم ذرائع کے بقول یہ پروپوزل وزیراعظم کے سامنے رکھنے کے بعد 35 سے 40 ہزار روپے سبسڈی کی سفارش کی جائے گی۔ اگر یہ سفارش منظور کر لی جاتی ہے تو پھر بھی سرکاری کوٹے پر حج کرنے کے خواہش مند عازمین کو سوا لاکھ روپے کے قریب اضافی رقم دینا ہوگی۔ ذرائع کے مطابق اس پروپوزل کی سمری وزارت مذہبی امور نے 10 جنوری کے کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کے سامنے رکھنی تھی۔ تاہم پیکیج کے ریٹ پر حتمی اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے تاخیر ہو گئی اور اب کابینہ کے اگلے اجلاس میں حج پالیسی 2019ء پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ اجلاس 18 جنوری کو متوقع ہے۔
گزشتہ برس پاکستان کو تقریباً ایک لاکھ 78 ہزار حاجیوں کا کوٹہ ملا تھا۔ اس بار سعودی عرب نے کوٹے میں 5 ہزار حاجیوں کا اضافہ کر دیا ہے۔ یوں 2019ء میں پاکستان کے ایک لاکھ 83 ہزار کے قریب عازمین، فریضہ حج ادا کریں گے۔ ان میں سے 60 فیصد کوٹہ سرکاری اسکیم کے تحت حج کرنے والوں کے لیے ہو گا جبکہ 40 فیصد کوٹہ پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کے حصے میں آئے گا۔ ذرائع کے بقول سرکاری اسکیم کے تحت حج کرنا بڑے جوکھم کا کام ہے۔ لہٰذا ان مشکلات سے بچنے کے خواہش مند عازمین پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کا رخ کرتے ہیں۔ اس بار ان عازمین کے لیے بھی بری خبر یہ ہے کہ پرائیویٹ ٹور آپریٹرز سرکاری حج پیکیج سے دوگنا اضافہ کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ ہر برس حج کوٹہ حاصل کرنے والے ایک ٹریول ایجنسی کے ذمہ دار نے بتایا کہ گزشتہ سال پرائیویٹ حج کوٹے پر فریضے کی ادائیگی کے لیے سعودیہ جانے والوں کو اوسطاً فی کس 5 لاکھ 20 ہزار سے 6 لاکھ 75 ہزار روپے دینا پڑے تھے۔ اس بار یہ پیکیج سات سے ساڑھے سات لاکھ روپے تک جانے کا امکان ہے۔ ذمہ دار کے مطابق کیونکہ پرائیویٹ ٹور آپریٹرز سہولیات کی فراہمی کے لحاظ سے اپنے ریٹ خود طے کرتے ہیں، لہٰذا ہر ایک کا پیکیج مختلف ہوتا ہے۔ گزشتہ برس چند چھوٹے شہروں کے ٹور آپریٹرز نے ساڑھے چار لاکھ کا پیکیج بھی دیا تھا، تاہم یہ 5 سے 10 پرسنٹ کا معاملہ ہے۔ بڑے شہروں میں ریٹ ہمیشہ ہائی ہوتے ہیں۔ ذمے دار کے مطابق کراچی میں دو چار ایسے پرائیویٹ ٹور آپریٹرز بھی ہیں جو ہر برس گولڈن پیکیج متعارف کراتے ہیں۔ اس کا ریٹ گزشتہ برس 25 لاکھ فی حاجی تھا۔ اس بار یہ پیکیج 30 لاکھ روپے تک پہنچنے کا امکان ہے۔ زیادہ تر کاروباری اور امیر طبقہ اس گولڈن پیکیج کے تحت حج کرتا ہے کیونکہ یہ مہنگا حج کرنے والے عازم کو شاہی خاندان کے فرد جیسی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ حیران کن طور پر ہر بار اس مہنگے ترین پیکیج کی بکنگ ایک برس پہلے ہو جاتی ہے۔ ذمہ دار کے بقول گولڈن پیکیج کے عازمین حج کی شناخت کو الگ رکھنے کے لیے نہ صرف ان کے خیمے بھی سنہری ہوتے ہیں بلکہ انہیں جن برتنوں میں کھانا دیا جاتا ہے ان کا رنگ بھی گولڈن ہوتا ہے۔ ان عازمین حج کو سعودی عرب کے سب سے مہنگے ’’رائل کلاک ٹاور مکہ‘‘ میں رہائش فراہم کی جاتی ہے۔ یہ ہوٹل مسجدالحرام کی حدود میں شامل ہے اور مسجدالحرام کے مرکزی مقام سے صرف 100 میٹر یعنی دو منٹ کی پیدل مسافت پر ہے۔ اسی طرح غار حرا بھی چند منٹ کی واکنگ پر ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ 76 منزلہ لگژری ہوٹل کے ہر کمرے سے خانہ کعبہ، مسجدالحرام اور پورے شہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ کلاک ٹاور ہوٹل مسجدالحرام کی حدود میں آتا ہے، بعض عازمین کمرے میں بھی نمازیں ادا کر لیتے ہیں کہ ان نمازوں کی ادائیگی مسجدالحرام میں ہی تصور کی جاتی ہے۔ ایک پرائیویٹ ٹور آپریٹر نے بتایا کہ دنیا کی بلند ترین عمارتوں میں شامل ’’کلاک ٹاور ہوٹل‘‘ کی 76 ویں منزل پر نصب بڑا گھڑیال اور پھر چھت پر لگا چاند ستارہ اس کی خصوصی شناخت ہے۔ اس چاند ستارے کے اندر بھی عازمین کے لیے چند کمرے بنائے گئے ہیں۔ تاہم ان کے ریٹ ہوٹل کے دیگر کمروں کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ہیں۔ ہوٹل کے عام کمروں میں بھی فٹنس سینٹر اور بھاپ سے غسل کرنے والے باتھ روم سمیت شاہی محلات جیسی دیگر سہولیات موجود ہیں۔
وفاقی وزارت مذہبی امور کے ذرائع نے بتایا کہ حج اور عمرہ سیزن میں پرائیویٹ ٹور آپریٹرز اتنی کمائی کر لیتے ہیں کہ پورا سال کا خرچہ نکل آئے، کیونکہ ریٹ یہ اپنی مرضی سے نکالتے ہیں۔ ذرائع کے بقول پچھلے چند برس سے پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کی کوشش رہی ہے کہ ان کا کوٹہ 40 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کر دیا جائے۔ اس کے لیے یہ عدالت بھی گئے لیکن کامیابی نہ مل سکی۔ پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کو کم سے کم 100 اور زیادہ سے زیادہ 500 عازمین حج کا کوٹہ ملتا ہے۔ اگر 100 افراد کا کوٹہ لینے والے کی مثال کو سامنے رکھ لیا جائے تو تمام تر اخراجات نکال کر اسے فی کس ایک لاکھ روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔ یوں وہ ہر برس حج کے موقع پر ایک کروڑ روپے آرام سے کما لیتا ہے جبکہ 500 کا کوٹہ لینے والوں کی کمائی کا تناسب 5 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ ماہ رمضان اور بارہ ربیع الاول میں ان ٹور آپریٹرز کے لیے عمرہ سیزن کمائی کا ذریعہ بنتا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ حج پالیسی 2019ء میں تاخیر اور 10 جنوری کے کابینہ اجلاس میں پیش نہ کئے جانے کا ایک سبب وہ اضافی ذمہ داریاں بھی ہیں، جو دیگر منسٹریوں کی طرح وزارت مذہبی امور کو بھی بھگتنی پڑ رہی ہیں۔ یہ ذمہ داریاں ہر پندرہ روز کی کارکردگی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کرنے سے متعلق ہیں۔ کیونکہ وزارت کو پہلی بار یہ تجربہ کرنا پڑ رہا ہے، لہٰذا متعلقہ لوگوں کو سخت دقت کا سامنا ہے۔ ذرائع کے مطابق حج، زکوٰۃ، زیارت، ڈویلپمنٹ، جوڈیشل اور منارٹیز سمیت وزارت حج کے پچاس سے زائد سیکشن ہیں۔ پندرہ روزہ کارکردگی کی رپورٹ ہر سیکشن کا ایس او (سیکشن افسر) مرتب کرتا ہے۔ پھر یہ رپورٹس ڈپٹی سیکریٹری کے پاس جاتی ہیں۔ ڈپٹی سیکریٹری ان رپورٹس کی اسٹڈی کرتا ہے اور اگر اس میں کوئی تبدیلی یا اضافہ کرنا ہو تو کر دیتا ہے، ورنہ دستخط کر کے جوائنٹ سیکریٹری کو فارورڈ کر دیتا ہے۔ جوائنٹ سیکریٹری کے زیرمطالعہ ہونے کے بعد رپورٹ وزارت کے وفاقی سیکریٹری کے پاس پہنچتی ہے۔ قریباً پچاس سے زائد صفحات پر مشتمل کمبائن رپورٹ کا وفاقی سیکریٹری بغور مطالعہ کرتا ہے اور فائنل کر کے وفاقی وزیر کے حوالے کر دیتا ہے۔ اس طویل عمل کے بعد وفاقی وزیر اس رپورٹ کو کابینہ میں پیش کرتا ہے اور اس پر وزیراعظم کو بریفنگ بھی دیتا ہے۔ اس سارے پروسس میں شریک وفاقی وزارت مذہبی امور کے ایک ملازم کے بقول چونکہ منسٹری میں یہ پریکٹس پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی لہٰذا سب اس کو اضافی بوجھ سمجھ رہے ہیں اور اس میں ٹائم بھی بہت خرچ ہورہا ہے، جس سے دیگر کام متاثر ہورہے ہیں۔ ملازم کے بقول اگرچہ بیشتر وزیروں کو شکایت ہے کہ بیوروکریسی ان سے تعاون نہیں کررہی تاہم وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری کو یہ ایڈوانٹیج حاصل ہے کہ انہیں اپنی وزارت کے لیے وفاقی سیکریٹری بھی ہم خیال ملے ہیں، جو عمران خان کے ’’تبدیلی‘‘ کے وژن سے بہت متاثر ہیں اور منسٹری کے سارے نظام میں چینج لانا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ وفاقی سیکریٹری مذہبی امور میاں محمد مشتاق احمد ہیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More