لوائی – انور مجید کو بچانے کے ہتھکنڈوں سے صوبائی افسران مشکلات کا شکار

0

کراچی (اسٹاف رپورٹر) سندھ کے محکمہ جیل خانہ جات کے حکام سیاسی خوشنودی کیلئے چیف جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ تک منی لانڈرنگ و جعلی اکاؤنٹس کیس کے ملزمان حسین لوائی و عبدالغنی مجید کو اڈیالہ جیل راولپنڈی واپس نہ بھیجنے کیلئے سرگرم ہو گئے ہیں۔ محکمہ داخلہ سندھ سے اجازت لئے بغیر عبدالغنی مجید کو دانتوں کے علاج کیلئے اسپتال لے جانے کی اطلاعات ہیں۔ حسین لوائی اور انور مجید کو بچانے کے ہتھکنڈوں سے صوبائی افسران مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے پیش نظر محکمہ داخلہ سندھ کے حکام نے اعلیٰ شخصیت کے اثرورسوخ کے تحت ہونے والی کوششوں سے خود کو الگ رکھنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ مسئلہ نہ ہونے کے باوجود ملزموں کو واپس راولپنڈی بھیجنے کے لئے سفری اخراجات کا بندوبست نہ ہونے کا بھی بہانہ بنایا جاتا ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ منی لانڈرنگ اور جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں گرفتار سمٹ بینک کے سابق صدر حسین لوائی اور اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید کے بیٹے عبدالغنی عرف اے جی مجید کو 7 جنوری کو بینکنگ کورٹ کراچی میں سماعت کیلئے پیشی کی وجہ سے2 روز قبل ہی اڈیالہ جیل راولپنڈی سے کراچی لا کر ملیر جیل منتقل کیا گیا تھا۔ سندھ میں جیل خانہ جات انتظام پر حاوی افسران کی بااثر لابی نے مختلف بہانے بنا کر انہیں تاحال اڈیالہ جیل راولپنڈی میں واپس نہیں بھیجا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں 17 جنوری کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ تک انہیں اڈیالہ جیل واپس نہ بھیجنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے متحرک بااثر لابی سمجھتی ہے کہ موجودہ چیف جسٹس کے جانے کے بعد ان کیلئے ریلیف کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ قانونی ماہرین نے اس تاثر کی نفی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا، کیونکہ یہ عدالتی معاملہ ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ آئی جی جیل خانہ جات نے جمعہ کے روز صوبائی محکمہ داخلہ کو ایک خط بھیجا، جس کا مقصد یہ تھا کہ حسین لوائی کو قومی ادارہ امراض قلب (این آئی سی وی ڈی) اور عبدالغنی مجید کو دانتوں کے اسپتال التمش لے جایا جائے۔ اس ضمن میں جیل حکام نے مؤقف اختیار کیا کہ حسین لوائی کو دل کی تکلیف ہے اور اے جی مجید کے دانتوں سے خون آرہا ہے۔ ذرائع کا کہنا کہ سیاسی دباؤ پر جیل حکام کی جانب سے خط تو لکھ دیا گیا، تاہم محکمہ داخلہ کے اعلیٰ افسران نے ممکنہ عدالتی گرفت سے بچنے کیلئے خط وصول ہی نہیں کیا، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جن طبی بنیادوں کو استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ زیادہ مضبوط نہیں۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے حکم پر تشکیل دیئے گئے میڈیکل بورڈ کی جانب سے کئے گئے طبعی معائنے کے دوران حسین لوائی کی انجیو گرافی بھی کی گئی تھی، جو کلیئر آئی تھی۔ امراض قلب کے ماہر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انجو گرافی کلیئر آنے پر کسی بھی مریض کو کم مدت میں دل کی بڑی تکلیف نہیں ہوسکتی، تاہم ایک دو برس گزرنے پر کوئی بڑی تکلیف لاحق ہو سکتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ طبعی بنیاد پر حسین لوائی کو این آئی سی وی ڈی میں داخل کرانے کا کوئی جواز نہیں، اس سلسلے میں اگر ڈاکٹر کچھ نہ کرے گا تو پھر اس پر بھی انگلیاں اٹھ سکتی ہیں، جبکہ دانتوں کے مرض کا معاملہ اکثر زیادہ سنگین نہیں ہوتا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حسین لوائی کو این آئی سی وی ڈی منتقل کرنے کے پیچھے اصل بات یہ ہے کہ وہ وہاں زیر علاج انور مجید سے ملاقات کر کے اب تک کی تفتیش میں پیشرفت سے آگاہ کریں اور ایک دوسرے کی مشاورت سے کیس کے متعلق حکمت عملی بنائیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں ملزمان کو کراچی کی بینکنگ کورٹ میں سماعت کے موقع پیشی کے لئے کئی بار اڈیالہ جیل سے لایا جاچکا ہے۔ دونوں ملزمان کو جب اڈیالہ جیل راولپنڈی سے کراچی لانے کا معاملہ ہو تو کورٹ پولیس کے اسکواڈ، ملزمان کے ہوائی جہاز کے ٹکٹ کی رقم کا بندوست ایسے ہو جاتا ہے کہ کسی کو پتا ہی نہیں لگتا۔ ملزموں کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل واپس بھیجنے کا معاملہ آنے پر سفری اخراجات کے لئے رقم کا بندوست دشوار ہو جاتا ہے۔ حسین لوائی اور عبدالغنی مجید کو اڈیالہ جیل راولپنڈی منتقل کرنے کے معاملے پر اس مرتبہ بھی ملیر جیل کراچی کے سپرنٹنڈنٹ کہتے ہیں کہ ان کے پاس فنڈز نہیں۔ ملزمان کو واپس بھیجنے کیلئے عدالت ٹکٹوں کا خود بندوبست کرے۔ پولیس حکام کہتے ہیں کہ انہیں فنڈز فراہم کئے جائیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ معاملہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ شخصیت کے جڑے ہونے کے باعث سندھ انتظامیہ اور بعض اعلیٰ صوبائی حکام کے لئے کڑا امتحان بنا ہوا ہے، کیونکہ یہ عدالتی معاملہ بھی ہے۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ داخلہ سندھ کے اجازت نامے کے بغیر بھی عبدالغنی مجید کو دانتوں کے اسپتال میں معائنے کے لئے لے جایا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق متعلقہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی قیدی کو شدید بیماری کی صورت میں معائنے کے لئے اسپتال بھیج سکتے ہیں اور اس اختیار کا بھرپور فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں مؤقف جاننے کے لئے قائم مقام آئی جی جیل خانہ جات قاضی نذیر سے رابطے کی کوشش کی گئی، لیکن فون بند ہونے کے باعث بات چیت نہ ہوسکی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More