تحریک انصاف کی بیساکھی سے ق لیگ سیاست میں فعال

0

لاہور(رپورٹ/نجم الحسن عارف) چوہدری پرویز الٰہی اسپیکر پنجاب اسمبلی بن کر پنجاب میں تحریک انصاف کی بیساکھی سے اپنی نیم مردہ مسلم لیگ (ق) کو ایک مرتبہ پھر زندہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ انہیں توقع ہے کہ بطور وزیراعلیٰ جن دو شعبوں تعلیم اور صحت میں انہوں نے نئے معیار قائم کئے تھے ان میں ان کی رہنمائی اور تجربے سے بھی نئی حکومت استفادہ کرے گی۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق چوہدری برادران سمجھتے ہیں کہ پچھلے دس برسوں کے دوران ان کی سیاست کامیاب نہیں رہی ہے۔ اس لیے پی ٹی آئی کی لہر کے ساتھ شامل ہو کر اپنی ٹوٹ کر بکھر جانے والی مسلم لیگ (ق) کو نئے سرے سے اکٹھا کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ اس لیے مسلم لیگ (ق) ایک مرتبہ پھر مین اسٹریم سیاست کا نہ صرف حصہ بن جائے گی بلکہ سیاست میں ایک مرتبہ پھر اپنی جگہ بنا سکے گی۔ دوسری جانب یہ بھی امکان نظرانداز نہیں کیا جارہا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کے قریبی ارکان اسمبلی خواہ ان کا تعلق قومی اسمبلی سے ہو یا صوبائی اسمبلی سے انہیں بھی پی ٹی آئی ضرور ’’اکاموڈیٹ‘‘ کرے گی۔ چوہدری برادران کی بنی گالہ میں عمران خان کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے اگلے ہی روز چوہدری پرویز الٰہی کے ذاتی وفادار سیکریٹری صوبائی اسمبلی پنجاب محمد خان بھٹی کو ساڑھے نو سال بعد اسمبلی میں واپس بلا لیا گیا ہے انہیں موجودہ اسپیکر رانا اقبال نے رخصت پر بھیج دیا تھا۔ تاہم انہیں اس دوران 21گریڈ کی تنخواہ متواتر ملتی رہی، اب رانا اقبال نے خود ہی محمد خان بھٹی کی رخصت ختم کر دی۔ لیکن مسلم لیگ (ق) کے ذرائع نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے اس امر کا بھی کھلا اظہار کیا کہ سیاسی جماعتوں کا اولین مقصد اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔ اس لیے اس امکان کو بالکل نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ پنجاب حکومت میں بھی ق لیگ کے پاس ایک آدھ وزارت آئے اور مرکز میں بھی حسین الٰہی کو متحرک رہنے کے لیے وزارت نہیں تو پارلیمنٹ کی کسی اہم مجلس قائمہ کی سربراہی دے دی جائے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی 6فروری 1997سے اکتوبر 1999تک پنجاب میں اسپیکر کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں ان کے لیے اب کی بار پھر اسپیکر شپ کا تجربہ بڑا دلچسپ رہے گا۔ وہ اسمبلی کے سینئر موسٹ ارکان میں سے ہوں گے۔ اور ان کے سامنے 70فیصد نوجوان ارکان اسمبلی یا نئے چہرے ہوں گے۔ اس لیے انہیں ایوان میں ساتھ لے کر چلنا مشکل نہ ہو گا۔لیکن چوہدری برادران کے لیے سب سے اہم ہدف مسلم لیگ (ق) اور چوہدری برادران کی سیاست کو ایک مرتبہ پھر پورے پنجاب میں زندہ کرنا ہو گا۔ اس لیے پی ٹی آئی کی نسبتاً کمزور صوبائی حکومت چوہدری برادران کے لیے بہترین سیاسی موقع ہو گا۔ دوسری جانب آزاد ارکان کی پے در پے بنی گالہ میں عمران خان سے ہونے والی ملاقاتوں اور چوہدری برادران کے بظاہر غیر مشروط طور پر پی ٹی آئی کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالنے کا اعلان نون لیگ کی اعلیٰ ترین قیادت کے لیے خوشگوار نہیں ہے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق واحد آزاد رکن جگنو محسن نے اب تک میاں شہباز شریف سے ملاقات کی ہے لیکن وہ بھی اپنی حمایت کا نون لیگ کو ’’بلینک چیک‘‘ نہیں دیا ہے ۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نجم سیٹھی کے پی سی بی میں نسبتاً محفوظ مستقبل کے لیے بھی جگنو محسن نے اپنی کھلی حمایت کا اعلان نون لیگ کے لیے کرنے سے گریزکر رہی ہیں۔ ان حالات میں میاں نواز شریف نے گزشتہ روز ملاقات کے لیے آنے والے پارٹی رہنمائوں کو سیاسی و جمہوری اصولوں کے ساتھ رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے بین السطور یہی کہا ہے کہ پنجاب میں حکومت سازی پر جمہوری جدوجہد کے اصولوں کو قربان نہ کیا جائے بلکہ جمہوری اصولوں کے لیے آواز بلند کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج پر فوکس کیا جائے۔ ان ذرائع کے مطابق ایک بڑی سیاسی جماعت ہونے کے ناطے مسلم لیگ نون پنجاب میں حکومت سازی کے لیے آخر وقت تک کوششیں جاری رکھے گی اور ہو سکتا ہے کہ اسمبلی میں پہلے اسپیکر اور بعدازاں قائد ایوان کے انتخاب کے موقع پر اپنے حامی آزاد ارکان کو بروئے کار لانے کی کوشش کرے جو بظاہر تو پی ٹی آئی کی طرف جارہے ہیں لیکن اندر سے ان میں سے کئی کے دل اب بھی ن لیگ کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ تاہم مسلم لیگ (ن) نے اس کے باوجود پنجاب میں اپوزیشن کرنے کی تیاری بھی شروع کر دی ہے۔ اس سلسلے میں حمزہ شہباز شریف کو مستقبل کا قائد حزب اختلاف سمجھا جارہا ہے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) نے اعلیٰ لیگی قیادت کی ہدایت پر اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا تو حمزہ شہباز شریف بطور اپوزیشن لیڈر خواجہ سعد رفیق اور رانا مشہود احمد کی خصوصی معاونت حاصل ہو گی اور حکومت کو ایسا ٹف ٹائم دیا جائے گا کہ ماضی میں اس کی مثال نہ ملتی ہو گی۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت آزاد ارکان صوبائی اسمبلی کو اپنے ساتھ ملانے کے تمام تر دعوئوں کے باوجود ابھی تک پنجاب کے لیے قائد ایوان کا فیصلہ نہیں کر سکی ہے۔ بلکہ ہر آنے والے دن پی ٹی آئی کے ایک نئے رکن کا نام وزارت اعلیٰ کے لیے سامنے آرہا ہے۔ ذرائع نے دعویٰ کیا کہ ن لیگ حکومت سازی کے لیے آخری وقت تک لڑنے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن ایک تجربہ کار اور بالغ نظر سیاسی جماعت کے طور پر اپنے پتے سامنے لانے کو مناسب نہیں سمجھتی ہے جب پنجاب اسمبلی کا ایوان سجے گا تو ہم اپنی قوت سامنے لائیں گے اور ہر جمہوری فیصلے کو قبول کریں گے لیکن پنجاب سے اب پی ٹی آئی کو بھاگنے نہیں دیں گے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More