ایس اے اعظمی
امریکی صدر جارج بش کی نفرت انگیز پالیسیوں پر کاربند تحقیقاتی ایجنسی ایف بی آئی کی نا منصفانہ کارروائیوں نے بے گناہ پاکستانی نوجوان کی زندگی برباد کر دی۔ ایف بی آئی کے مسلم دشمن رویے، امریکی مخبر کی غلط رپورٹ سمیت وکیل صفائی کی نااہلی کے باعث بے گناہ حامد حیات کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا تھا۔ امریکی مسلمانوں کی تنظیم ’’کیئر‘‘ کے ڈائریکٹر باسم الکرہ نے تصدیق کی ہے کہ 14 برس سے ’’جرم بے گناہی‘‘ میں قید پاکستانی نوجوان حامد حیات کے حق میں گزشتہ روز امریکی جج ڈیبراہ نے نظر ثانی کا فیصلہ لکھ کر اس کی رہائی کیلئے آواز بلند کی ہے، جو ’’کیئر‘‘ کی واضح کامیابی ہے۔ اپنے فیصلے میں جج نے فوری رہائی کی سفارش کرتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ امریکا میں پیدا ہونے والا حامد حیات بالکل بے گناہ تھا، لیکن ایف بی آئی کی غلط حکمت عملی اور وکیل صفائی کی نااہلی نے کیس کو اس قدر الجھا دیا کہ حامد حیات کے بارے میں امریکی جج اس بات سے متاثر ہوا کہ اس پر ممکنہ دہشت گردی کا الزام درست ہے۔ حالانکہ عدالتی کارروائی کے دوران حامد حیات کے آئینی حقوق پامال کئے گئے تھے۔ تازہ ترین اطلاعات کے تحت ایسٹرن ڈسٹرکٹ آف کیلی فورنیا کے موجودہ یو ایس اٹارنی میگ گریگر اسکاٹ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ حامد حیات کی بے گناہی سے متعلق وفاقی جج ڈیبراہ بارنس کی سفارشات اور تحریری رولنگ کو ان کا آفس دیکھ رہا ہے۔ امریکی جریدے ’’اسکرمانتوبی‘‘ کے مطابق فینکس جیل میں بے گناہ قید رکھے جانے والے حامد حیات کی ہمشیرہ مس حیات نے بتایا ہے کہ ان کا بھائی روزِ اول سے ہی بے گناہ تھا۔ اس کا باریش ہونا، نماز کیلئے باقاعدگی سے مسجد جانا اور پھر شادی کی خاطر پاکستان جانا اس کا گناہ بن گیا۔ اس مقدمے سے پوری فیملی بری طرح متاثر ہوئی۔ ایف بی آئی اور اس کے مخبر نے غلط رپورٹ میں حامد حیات کو القاعدہ کا رکن اور جہادی قرار دیا اور اس کو 39 برس قید کی سزا سنائی گئی۔ لیکن چونکہ اس کا ممکنہ جرم پہلی بار سرزد ہوا تھا، اس لئے اس کو 24 برس کیلئے جیل میں بھیجا گیا۔ اسی کیس میں امریکی نظام انصاف کے سقم کے باعث حامد حیات کے بوڑھے والد عمر حیات کو بھی میٹریل سپورٹ کا مجرم ٹھہرایا گیا، لیکن جیوری کے اراکین کے آپسی اختلافات کے سبب ان کو جیل نہیں بھیجا گیا۔ امریکی میڈیا نے بتایا ہے کہ حامد حیات کی بے گناہی کو ثابت کرنے کیلئے امریکی مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور قانونی مدد کیلئے متحرک تنظیم ’’کیئر‘‘ کا بہت بڑا کردار ہے، جس نے حامد کے والد کی درخواست پر امریکی وفاقی جج ڈیبراہ بارنس کو یہ کیس باریک بینی سے ریویو کیلئے بھیجا، جس پر ڈیبراہ نے اس کیس کو قانونی نکات کی رُو سے چیک کیا تو اس میں ایف بی آئی کی غلط حکمت عملی، دھونس دھمکی، مخبر کی غلط رپورٹوں، وکیل صفائی کی نا اہلی اور نا تجربہ کاری کا بڑا دخل پایا۔ حامد حیات کے وکیل نے وفاقی جج ڈیبراہ بارنس کے روبرو ان پاکستانی گواہوں کی گواہی بھی پیش کیا جنہوں نے ثابت کیا کہ حامد حیات 2003ء سے 2005ء کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کی ٹریننگ نہیں، بلکہ شادی کیلئے آئے تھے اور اس سلسلے میں متعدد ویڈیوز اور تصاویر اور گواہوں کے بیانات سے اس دعوے کی تصدیق ہوئی کہ حامد شادی کی خاطر پاکستانی شہری اور دیہی علاقوں میں موجود تھے۔ حامد حیات کی فیملی اور پاکستان میں موجود اس کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکی ایف بی آئی نے مشتبہ افراد کی نگرانی اور جاسوسی کیلئے لاکھوں ڈالرز خرچ کر کے امریکا بھر میں مساجد اور مسلمانوں کے اطراف مخبروں کا جال بچھایا تھا، جنہوں نے بناوٹی رپورٹیں پیش کرکے مساجد میں نماز کی ادائیگی کیلئے آنیوالے مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیا اور ان کے پاکستان سمیت آبائی ممالک کے سفر کو جہادی ٹریننگ سے جوڑ دیا جیساکہ حامد حیات کا کیس تھا۔ حامد اگر چہ کہ پاکستانی والدین کی امریکا میں پیدا ہونے والی اولاد تھے لیکن وہ اپنی برادری میں شادی کیلئے پاکستان کا سفر کرنے کیلئے 2003ء میں امریکا سے روانہ ہوئے اور یہی سفر ایف بی آئی ایجنٹ کیلئے ایک موقع بن گیا اور اس ایجنٹ نے امریکا میں بیٹھے بیٹھے اندازہ لگالیا کہ حامد حیات پاکستان شادی کیلئے نہیں بلکہ دہشت گردی کی ٹریننگ کیلئے گئے تھے۔ اگرچہ گرفتاری کے بعد حامد حیات کے والد سمیت ’’اسکرمانتوبی‘‘ کی مسجد کے نمازیوں نے حامد کی بے گناہی کی قسمیں کھائیں، لیکن ایف بی آئی کے ایجنٹس نے اپنے مخبر کی بات/ رپورٹ پر بھروسہ کیا، جس کو مخبری کیلئے ایف بی آئی کی جانب سے ڈھائی لاکھ ڈالرز کی خطیر رقم کی ادائیگی کی گئی تھی۔ یو ایس مجسٹریٹس جج ڈیبرا ہ بارنس نے جیل میں قید حامد حیات کوصریحاً بے گناہ قرار دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ حامد حیات اور اس کے والد کے اعترافی بیانات اور اس کی ویڈیوز ایف بی آئی کی جانب سے ڈالے جانے والے دبائو کا نتیجہ تھے، کیونکہ انہیں ’’تعاون‘‘ نہ کرنے کی پاداش میں مزید مقدمات میں پھنسانے کی دھمکیاں دی گئی تھیں، جبکہ نظام انصاف کا سقم یہ تھا کہ جس خاتون وکیل کو حامد حیات کی پیروی کیلئے مقرر کیا گیا تھا اس نے کبھی بھی جیوری یا عدالت میں کوئی کیس لڑا ہی نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ حامد حیات کو مجرم ٹھہرانے میں معاون ثابت ہوئی۔ اپنی مشکلات کے آغاز کے وقت نوجوان حامد حیات چیری اور اسٹرابیریز کے باغات میں کام کر رہے تھے جبکہ ان کے معمر والد عمر حیات مقامی قصبہ میں آئس کریم بیچا کرتے تھے۔ امریکی جج ڈیبراہ بارنس نے اپنی جانب سے اس کیس کی مکمل اسٹڈی کی ہے اور وہ اس نتیجہ پر پہنچی ہیں کہ حامد حیات اور اس کے والد عمر حیات بے گناہ تھے اور ان پر پاکستان جاکر دہشت گردی کے کیمپوں میں جہادی ٹریننگ لینے اور امریکا میں دہشت گردی کی وارداتوں کی پلاننگ کے تمام تر الزامات اور شواہد بناوٹی تھے۔ امریکی میڈیا کے مطابق خاتون جج ڈیبراہ بارنس نے اگر چہ کہ حامد حیات کو بے گناہ قرار دیا ہے اور اس کے کیس کا فیصلہ دینے والے جج گارلینڈ ای بروئیل جونیئر سے نظر ثانی کی درخواست کرکے اپنے 116 صفحات پر مشتمل ’’ریویو‘‘ کو بھجوایا ہے لیکن ایک بے گناہ پاکستانی نژاد امریکی نوجوان حامد حیات کی زندگی کے 14 برس برباد کرنے اور ان کی فیملی کیلئے انتہائی اذیت ناک لمحات پیدا کرنے کی ذمہ دار امریکی ایجنسی FBI کے افسران کیخلاف تعزیری یا تادیبی کارروائی کی کوئی سفارش نہیں کی گئی ہے اور نا ہی اس پورے منظر نامہ میں اس امریکی مخبر کی کوئی سرزنش کی گئی ہے کہ جس کی جھوٹی رپورٹ پر بے گناہ حامد حیات کو جیل کی سزا سنائی گئی۔ حامد حیات کی وکیل وسمہ مجددی نے ایک انٹرویو میں تسلیم کیا ہے کہ ان کا روز اول سے موقف یہی تھا کہ میرا موکل حامد حیات اور اس کے والد عمر حیات بے گناہ ہیں، وہ دہشت گرد نہیں ہوسکتے، ان کیخلاف کوئی ثبوت نہیں ملے اور ایف بی آئی نے جو ثبوت ان کیخلاف اعترافی ویڈیوز کی شکل میں پیش کیا وہ بھی دھونس اور دبائو کا نتیجہ تھا۔
Next Post