قسط نمبر 13
ترتیب و پیشکش
ڈاکٹر فرمان فتحپوری
قمر زمانی بیگم کون ہیں؟ کیا ہیں؟ اور ان کی اہمیت کیا ہے؟ ان سوالوں کے مفصل جوابات آپ کو اس تحریر کے مطالعہ سے خود معلوم ہوجائیں گے۔ ابتداً اتنا ضرور کہنا ہے کہ اِن کے اور اُن کے معاشقے کی جو داستان یہاں بیان کی جارہی ہے۔ وہ فرضی نہیں حقیقی ہے۔ من گھڑت نہیں سچا واقعہ ہے۔ محض ایک رنگین و رومان پرور کہانی نہیں، ادبی تاریخ کا ایک دلکش باب ہے۔ معمولی اشخاص کی زندگی کی تفصیل نہیں، علم و ادب کی غیر معمولی شخصیتوں کا مرقع ہے۔ سنی سنائی باتوں کا مصنوعی مجموعہ نہیں، خطوط کی صورت میں ایک خاص عہد کی ادبی دستاویز ہے۔ جس کے منتخب حصے قارئین امت کی نذر ہیں۔
علامہ نیاز فتح پوری عرف قمر زمانی بیگم نے عاشقانہ خطوط کے ذریعے دلگیر کو اکسانے اور نقاد کو دوبارہ جاری کرانے کے لیے جو چال چلی تھی، وہ کامیاب ہو رہی تھی۔ چنانچہ قمر زمانی نے دلگیر کا خط ملتے ہی انہیں کچھ اور چھوٹ دی۔ دلگیر نے اپنے خط میں ’’نقاد‘‘ کے دوبارہ اجرا کے لیے یہ شرط لگائی تھی کہ قمر زمانی ’’نقاد‘‘ کی جوائنٹ ایڈیٹر بن جائیں اور پہلے پرچے کے لیے افتتاحیہ مضمون لکھ کر بھیجیں۔ موصوفہ نے دلگیر کی یہ شرطیں بھی مان لیں اور دلگیر کی نفسیات کا اندازہ کر کے جلد ہی ان کے خط کا جواب لکھ بھیجا۔ یہ خط اگرچہ مختصر ہے، لیکن بہت کارگر ہے۔ خط دیکھئے:
بریلی 3 مارچ
آزوئے بیدلان
’’جان قمر‘‘ بننے کے لیے اس قدر اضطراب آخر کیوں۔ اس القاب کا مستحق اب سوائے آپ کے اور کون ہو سکتا ہے۔ لیکن ڈرتی ہوں کہ میری بدبختی کا اثر کہیں آپ کی زندگی پر نہ پڑے۔ شکر ہے آج اس محبت کا اقرار کر لیا۔ جس کے کچھ بجھے ہوئے جذبات میرے اوپر صرف ہو رہے ہیں۔ میں چل بسی تو آپ کی پرشوق نگاہیں کسی اور کو ڈھونڈیں گی۔ آخر اس محبت میں کیا دھرا ہے۔ کیوں آپ میری مٹی خراب کرتے ہیں۔ آپ کو کیا ہے اور کوئی سہی، آہ۔
مجھے یہ سن کر نہایت مسرت ہوئی کہ آپ محض میری خاطر سے نقاد کی اشاعت کی زحمت گوارا فرما رہے ہیں۔ کس طرح شکریہ ادا کروں۔ آپ انعام طلب کرتے ہیں۔ مجھ غریب کے پاس کیا ہے۔ ایک دل تھا۔ سو وہ کب کا خون ہو کر آنکھوں سے بہہ گیا۔
آپ افتتاحیہ مضمون مجھ سے مانگتے ہیں۔ لیجئے حاضر ہے۔ خدا جانے آپ اپنے ناظرین سے میری معرفی کس طرح کرائیں گے۔
نقاد کے پرچوں کا میں شکریہ ادا نہیں کرتی۔ باقی پرچے بھی تلاش کیجئے۔ مضامین اور بھی لکھ رہی ہوں۔
آپ کی
(ق۔ز)
قمر زمانی نے دلگیر کے اصرار پر مذکورہ بالا خط کے ساتھ نقاد کے پہلے پرچے کے لیے جو مضمون بطور افتتاحیہ منسلک کیا تھا، وہ ’’نقاد‘‘ میں بطور اداریہ شائع ہو چکا ہے۔ اس افتتاحیہ کو بھی دیکھتے چلیے :
’’نقاد کی زندگی کا دوسرا دور‘‘۔
اور
میں!!
جب کوئی عزیز یا محبوب اپنے سے جدا ہو جاتا ہے تو رنج اس بات کا نہیں ہوتا کہ وہ جدا ہو گیا۔ بلکہ تکلیف کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ خدا جانے کب ملے۔ اگر ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ اس قدر مدت کے بعد وہ ضرور مل جائے گا تو یقینا ہماری تکلیفیں بہت کچھ گھٹ جائیں۔
موت کا صدمہ اسی خیال سے سخت صدمہ کہلاتا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے پھر کبھی نہ ملنے کے لیے ہماری چیز کو ہم سے چھین لیتا ہے۔ ذرا تنہائی میں کبھی اس پر غور کیجئے۔ کیسی سخت وحشت ہوتی ہے۔ چونکہ موت نام ہے ایک ابدی جدائی کا۔ ایسی مفارقت کا جس کی کوئی حد نہیں۔ ایسے قفل سکوت کا جو کبھی نہیں ٹوٹ سکتا۔ اس لیے آدمی جتنا بھی تڑپے کم ہے۔ ان عاشقوں سے پوچھو کہ اگر ان کے محبوب کسی طرح پھر زندہ ہو کر دنیا میں آجائیں تو وہ کیا کچھ نہ کریں۔ مائوں سے دریافت کرو اگر ان کے لال جن کو خون جگر پلا پلا کر پالا تھا، پھر ان کی خالی گود میں آجائیں تو ان کی کیا حالت ہو۔ اس حالت کے سامنے دیوانگی تو ہوش میں داخل ہے۔
ہم کبھی ذرا فارغ ہو کر بیٹھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ ’’کیوں جی اگر فلاں شخص کسی طرح زندہ ہو کر پھر ہمیں مل جائے تو کیا ہو‘‘ یہ جانتے ہیں کہ نہیں ملے گا۔ یہ یقین ہے کہ وہ زندہ نہیں ہو سکتا، لیکن صرف اس خیال کا یہ اثر ہوتا ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے ہم اپنی اس مسرت فکر سے مغلوب ہو جاتے ہیں اور ہماری تمنائیں یہاں تک فریب دینے لگتی ہیں کہ فوراً ذہن قدرت خداوندی کی طرف چلا جاتا ہے کہ ’’اس کے اختیار میں تو سب کچھ ہے، ممکن ہے اس وقت کی دعا بھی ہماری سن لے‘‘۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ خدا نے اپنے قانون کو کبھی نہیں توڑا اور میں آئندہ کے لیے بھی یہی حکم لگا دیتی، اگر نقاد کی زندگی کا معجزہ میرے سامنے نہ ہوتا۔
نقاد فنا ہو چکا تھا، مٹ چکا تھا، کون کہہ سکتا تھا کہ وہ پھر زندہ ہو جائے گا۔ کس کو یقین تھا کہ پھر اس کی صورت ہمیں نظر آئے گی۔ اس کے مسیحا کی کس کو خبر تھی لیکن نہیں،
اے نقاد!
نہ تجھے کسی نے زندہ کیا اور نہ کسی کی مسیحائی نے اثر کیا۔ تو اپنے حیات کے لیے خود اپنی خاکستر کو کام میں لایا اور اب ہمارے سامنے اس طرح نغمہ زن ہے…
سچ بتا تو موسیقار تو نہیں
مجھ کو جس قدر محبت نقاد سے تھی، اس کا علم صرف حضرت دلگیر کو ہو سکتا ہے، یا پھر مجھے، اگر خود اپنی الفت کے اندازہ کر لینے کا سلیقہ مجھ میں ہو اور اسی پر قیاس اس صدمہ کا کرلیجئے جو نقاد کے بند ہونے سے مجھ کو پہنچ سکتا تھا۔ میں غالباً اس کے اظہار پر مجبور نہیں کی جا سکتی کہ مجھے نقاد سے کیوں محبت تھی اور اس کے لیے میں کیوں اس قدر بے تاب تھی۔ لیکن آپ بغیر وجہ سنے کیوں نہ یقین کر لیں کہ مجھے اس سے الفت تھی اور میں اس کے لیے بے قرار بھی تھی۔
اس دور سکوت میں کیا کیا ہوا۔ کس طرح گزری، اس کو دلگیر سے سنئے، اگر وہ سنا سکیں اور مناسب سمجھیں۔ میں تو صرف حال کو دیکھتی ہوں کہ اب وہ پھر ہماری آغوش میں ہے۔ خدا کرے مآل بھی نیک ہو۔
ناظرین نقاد کو غالباً یہ معلوم کر کے سخت حیرت ہوگی کہ اب اس کی ترتیب و تہذیب میں میرا ہاتھ بھی شامل ہے، گو دماغ نہیں۔ لیکن کیا عرض کروں، جناب دلگیر کے اصرار سے میرے انکار کو مغلوب ہونا ہی پڑا اور سچ تو یہ ہے کہ میں اس مغلوبی سے ناخوش بھی نہیں ہوں۔ ہندوستان کے حلقہ علم و ادب میں اگر محض عورت ہونا ہی سنگین جرم نہ ہوتا، شاید آپ مجھ سے اس قدر اجنبی نہ ہوتے اور اس قدر صرف میرے نام کا اظہار ہی کافی ہوتا۔ مگر اپنے ہاں کی سوسائٹی اور اصول معاشرت کی مخالفت کرنا تنہا ایک جان ناتواں کا کام نہ تھا، خاموش رہی۔ لیکن اب جبکہ میں نسبتاً آزاد ہوں، ان بندشوں کو قطع کرتی ہوں اور آپ کے سامنے اس حیثیت سے آنا چاہتی ہوں، جس حیثیت سے مجھ کو اس سے قبل آجانا چاہئے تھا۔
میں سمجھتی ہوں کہ اس وقت قدرتاً آپ کے دل میں یہ سوال پیدا ہو رہے ہوں گے کہ ’’یہ کون ہے؟ کیا ہے؟‘‘ اور شاید میں جواب یہی دے دیتی اگر مجھے یہ یقین ہوتا کہ سوسائٹی کی اخلاقی حالت اس قدر بلند ہو گئی ہے کہ وہ عورت کی ہر بات سننے کے لیے اپنے اندر کافی احساس ان ذمہ داریوں کا پاتے ہیں، صرف جن کا احساس ہی ان دونوں طبقوں میں حد فاصل قائم کر سکتا ہے۔ میں اگر نقاد کی ترتیب میں حصہ لیتی ہوں تو اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ مجھے مرد بننا بھی پسند ہے۔ آپ کو اپنی جنس کی قدر ہو یا نہ ہو، مگر میں تو اپنی نسائیت پر جان دیتی ہوں اور اس لیے اگر آپ کے سوالات کو تشنہ رکھتی ہوں تو یہ میری فطرت ہے۔ خواہ آپ کی بے قراری میں اس سے اضافہ ہو یا سکون۔
اس قدر تمہید کے ساتھ اب میں اس باب کا افتتاح کرتی ہوں جو نقاد کی دوسری زندگی کا عنوان ہے اور التجا کرتی ہوں کہ خدا کے لیے اب اس کو فنا نہ ہونے دیجئے گا۔ کہ اب اس میں ایک نسوانی عزت بھی شامل ہے، جس کی توہین شاید آپ کو گوارا نہ ہو۔ اس خطاب میں خریداران نقاد بھی شامل ہیں، جن کی کوشش پر اس کی زندگی کا ایک حد تک انحصار ہے اور مضامین نگار بھی، جن کی اعانت پر اس کا حسن منحصر ہے۔
’’قمر زمانی‘‘ (جاری ہے)
Prev Post
Next Post