عمران خان
ایم کیو ایم منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات میں ایف آئی اے نے 4 ارب سے زائد منی لانڈرنگ کے ثبوت حاصل کرلئے۔ آئندہ سماعت اہم ہے، جس میں شواہد پر مشتمل رپورٹ کے ساتھ ہی اہم گرفتاریوں کا بھی امکان ہے۔ تحقیقات میں خدمت خلق فائونڈیشن کا وسیع مواد اور معلومات سامنے آنے کے بعد اس پر جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم یعنی جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ کیونکہ اب اس پیچیدہ اور وسیع کیس پر تحقیقات دو تفتیشی افسران کے بس کی بات نہیں رہی۔ ذرائع کے بقول ایف آئی اے نے خدمت خلق فائونڈیشن کے اثاثوں کی تحقیقات میں مزید 10 جائیدادوں کا ریکارڈ حاصل کرلیا ہے، جس کے بعد خدمت خلق فائونڈیشن کے اثاثے 46 سے بڑھ کر 56 ہوچکے ہیں۔ جبکہ مجموعی طور پر خدمت خلق فائونڈیشن کے نام پر 176 گاڑیوں کی موجودگی کا ریکارڈ بھی مل چکا ہے، جس کی ویری فیکیشن کیلئے ایف آئی اے کے کائونٹر ٹیررازم ونگ کی جانب سے ان گاڑیوں کے کوائف پر مشتمل لیٹر صوبائی محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے موٹر رجسٹریشن کو ارسال کر کے ان کا مکمل ریکارڈ طلب کرلیا گیا ہے۔ ذرائع کے بقول کئی کے کے ایف کے نام پر کئی لگژری گاڑیاں فروخت کی جاچکی ہیں اور کئی گاڑیاں ایم کیو ایم کے رہنمائوں کے استعمال میں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی متحدہ کے کئی رہنمائوں نے خدمت خلق فائونڈیشن کی جائیدادوں پر عمارتیں اور بنگلے تعمیر کرکے ان میں نہ صرف رہائش اختیار کر رکھی ہے، بلکہ کرائے کی مد میں ان کی آمدنی بھی خود ہی حاصل کر رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ایف آئی اے نے تحقیقات میں خدمت خلق فائونڈیشن کی سندھ ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں رجسٹریشن کا ریکارڈ بھی حاصل کرلیا ہے۔ جس میں انکشاف ہوا ہے کہ خدمت خلق فائونڈیشن سندھ ویلفیئر ڈپارٹمنٹ میں خدمت خلق کمیٹی کے نام سے رجسٹرڈ ہے۔ تاہم اس کو ایم کیو ایم کے رہنمائوں نے سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ سے جاری ایک لیٹر میں رفاہی ادارہ ظاہر کرکے خدمت خلق فائونڈیشن کے نام سے این او سی حاصل کی تھی۔ اس لیٹر میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی جانب سے این او سی جاری کرتے ہوئے لکھا گیا تھا کہ خدمت خلق فائونڈیشن ایک رجسٹرڈ ادارہ ہے، جو فنڈز کے نام پر صدقات، خیرات، کھالیں اور چندہ وغیرہ جمع کرسکتا ہے اور اس کو اجازت حاصل ہے۔ اس پر سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ خدمت خلق فائونڈیشن کے حاصل کردہ ریکاررڈ میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ سندھ ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں اسے خدمت خلق کمیٹی کے نام سے رجسٹرڈ کرانے کے بعد اسے جو نمبر الاٹ کیا گیا اسی نمبر پر اس کو خدمت خلق فائونڈیشن کے نام سے سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور ایف بی آر میں بھی چلایا جاتا رہا۔ جبکہ کے کے ایف، فائونڈیشن کے نام سے کہیں رجسٹرڈ ہی نہیں تھی۔ اس کے لئے اسے خدمت خلق فائونڈیشن کے نام سے ریونیو افسران کی مدد سے ضلعی سطح پر رجسٹرڈ کرایا گیا، جس کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ تاہم سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ اور ریونیو میں خدمت خلق کمیٹی کو خدمت خلق فائونڈیشن ظاہر کرکے لیٹر حاصل کرنے کے بعد انہی دستاویزات پر اسے رفاہی ادارہ ظاہر کرکے اس کے بینک اکائونٹس بھی کھلوائے گئے۔ یہی بینک اکائونٹس بعد ازاں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیلئے استعمال کئے جاتے رہے۔
ایم کیو ایم لندن منی لانڈرنگ کیس پر تحقیقات ایف آئی اے کے کائونٹر ٹیررازم ونگ اسلام آباد میں منتقل کردی گئی تھی۔ تاہم ڈیڑھ برس تک ان تحقیقات میں کوئی اہم پیش رفت نہ ہونے کے بعد یہ تحقیقات اب دوبارہ ایف آئی اے کے کائونٹر ٹیررازم ونگ کراچی کے آفس میں عملی طور پر شروع کی گئی ہیں، جس میں گزشتہ 20 دنوں میں اہم پیش رفت سامنے آرہی ہے۔ ذرائع کے بقول اسلام آباد میں موجود افسران کراچی کی صورتحال اور ایم کیو ایم و خدمت خلق فائونڈیشن کی نوعیت اور کام سے اس قدر واقف نہیں تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اسلام آباد کے افسران اس کیس پر تحقیقات میں پیش رفت کرنے میں ناکام رہے۔ ایک ماہ قبل جب یہی تحقیقات عملی طور پر کراچی منتقل ہوئیں تو ایف آئی اے کائونٹر ٹیررازم ونگ کی ٹیم نے خدمت خلق فائونڈیشن کیخلاف تحقیقات پر اپنی توجہ مرکوز کردی تھی۔ کیونکہ دو برس قبل جب پاکستانی نژاد تاجر سرفراز مرچنٹ کی تحریری درخواست پر ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کراچی میں بانی متحدہ کے علاوہ ایم کیو ایم کے دیگر 6 رہنمائوں پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کیا تھا تو اس وقت بھی اس مقدمے میں منی لانڈرنگ کیلئے رقوم کی غیر قانونی منتقلی خدمت خلق فائونڈیشن کے ذریعے ظاہر کی گئی تھی۔ تاہم بعد ازاں تحقیقات میں کے کے ایف کے بجائے ایم کیو ایم کے رہنمائوں کو نوٹس ارسال کرکے ان کے بیانات لینے تک ہی معاملہ محدود رکھا گیا۔ ذرائع کے بقول ایک ماہ قبل جب تحقیقاتی ٹیم نے ایک بار پھر کے کے ایف کے آفس پر چھاپہ مار کر مزید ریکارڈ حاصل کیا تو کیس میں نئی جان آئی اور اس چھاپے میں کے کے ایف کے کمپیوٹرز کی ہارڈز ڈسک بھی قبضے میں لی گئیں، تاکہ فارنسک تحقیقات میں ڈیلیٹ شدہ ریکارڈ بھی سامنے لایا جاسکے۔ اس کے ساتھ ہی کے کے ایف کے اثاثوں کی چھان بین بھی شروع کی گئی۔
ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ روز ایف آئی اے کے مختلف سرکلز سے 4 مزید تفتیشی افسران کو ٹرانسفر کرکے انہیں ایف آئی اے کائونٹر ٹیررازم ونگ میں تعینات کر دیا گیا ہے، تاکہ یہاں پر افرادی قوت بڑھا کر ہر تفتیشی افسر کو کے کے ایف اور متحدہ رہنمائوں کے 10،10 بینک اکائونٹس اور جائیدادوں کی علیحدہ علیحدہ تحقیقات سونپی جا سکے۔ کیونکہ کیس جلد ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ ذرائع کے بقول حالیہ دنوں میں ہونے والی تحقیقات میں ایف آئی اے کی ٹیم 4 ارب روپے سے زائد کی منی لانڈرنگ کے شواہد حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے، جس کی رپورٹ آئندہ سماعت پر انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کی جائے گی۔ جس میں ایک اہم گرفتاری کا بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ منی لانڈرنگ کے یہ شواہد جن ایم کیو ایم شخصیات کے حوالے سے ہیں، ان میں خواجہ سہیل منصور، ارشد ووہرا، بابر غوری، سینیٹر احمد علی اور ریحان منصور شامل ہیں۔ ذرائع کے بقول اب تک کی تحقیقات میں یہ بھی سامنے آگیا ہے کہ ایم کیو ایم کے بعض رہنمائوں نے ملتان کے علاوہ لاہور میں موجود کے کے ایف کی دو جائیدادوں کو فروخت کردیا ہے، جس کی تفصیلات حاصل کرنے کیلئے ایف آئی اے نے ڈپٹی کمشنر لاہور کو خط لکھ کر تفصیلات طلب کرلی ہیں۔ اس کے علاوہ کے کے ایف کی ملکیت میں مزید 10 جائیدادوں کے سامنے آنے کے بعد ایف آئی اے نے کراچی کے ڈی سی ملیر کو اور کے ڈی اے لینڈ منیجمنٹ ڈپارٹمنٹ کو مزید تین لیٹر ارسال کر دیئے ہیں، جن میں گلستان جو ہر کے علاقے میں خدمت خلق فائونڈیشن کیلئے قبضہ کردہ ایس ٹی کے تین پلاٹ بھی شال ہیں۔ جہاں کچھ عرصہ قبل تک شادی ہال تعمیر کئے گئے تھے۔ تاہم ان کی آمدنی خدمت خلق فائونڈیشن کے بجائے بعض متحدہ رہنما اور کارکنان اپنی جیبوں میں ڈال رہے تھے۔ اب تک 18 ایسے متحدہ رہنمائوں اور عہدیداروں کو سراغ لگایا جاچکا ہے، جو کئی برسوں سے خدمت خلق فائونڈیشن کے نام پر حاصل کردہ جائیدادوں اور گاڑیوں پر مزے لوٹتے رہے۔ انہوں نے کروڑوں روپے خدمت خلق فائونڈیشن کے نام پر بٹورے اور اب تک ان جائیدادوں اور بنگلوں میں رہائش اختیار کر رکھی ہے۔
Prev Post