محمد قاسم
افغانستان میں امریکی قبضے کے دوران اعلیٰ فوجی حکام، شمالی اتحاد کے اہم رہنمائوں، اراکین پارلیمان اور این ڈی ایس کے اہم عہدیداروں کی جانب سے قیمتی زمینوں پر قبضوں کا انکشاف ہوا ہے۔ جبکہ حزب اسلامی اور طالبان کا کوئی رہنما قبضوں میں ملوث نہیں۔ ’’امت‘‘ کو ملنے والی دستاویزات کے مطابق امریکی قبضے کے دوران افغانستان میں اربوں ڈالرز کی سرکاری اراضی اور عام لوگوں کی قیمتی زمینوں پر جمعیت اسلامی اور شمالی اتحاد کے رہنمائوں، این ڈی ایس کے افسران، فوجی جرنیلوں اور اراکین پارلیمان نے قبضہ کیا۔ قبضہ کرنے والوں میں سابق گورنر بلخ عطا محمد نور، سابق وزیر دفاع مارشل فہیم کے بھائی حسین فہیم، سابق صدر حامد کرزئی کے بھائی محمود کرزئی، موجودہ صدر کے کزن عصمت غنی، رکن پارلیمنٹ ملا تری خیل، کابل سے رکن پارلیمان کبیر زنجبار، اللہ گل مجاہد، ملا عزت عاطف، استاد سیاف کے بھائی ممتاز آغا، سابق کمانڈر نصراللہ قریشی،کابل سے رکن پارلیمنٹ امان اللہ، کمانڈر زلمے طوفان، شرکت کاروان کے سربراہ حاجی حفیظ، کابل کے نائب پولیس چیف جاوید مجاہد، نجیب اللہ کابلی، جان احمد، سابق گورنر پروان بصیر سالنگی، سابق پولیس چیف جنرل ایوب سالنگی، حاجی خان ہوتک، حاجی ظاہر قدیر، سید حامد گیلانی، استاد عبدالحلیم، حاجی آغا لالی نائب گورنر قندھار، بلخ کے گورنر حاجی اسحاق راہگزر، نائب صدر جنرل دوستم، صدر اشرف غنی کے مشیر جمعہ خان ہمدرد، سابق جہادی رہنما استاد سیاف، سابق گورنر ہرات اسماعیل خان، ملا تہرام کل، قاضی قدیر، تخار سے رکن پارلیمنٹ اکرام الدین، بدخشاں سے خاتون رکن فوزیہ کوفی، قندھار سے رکن پارلیمان حامد زئی لالی، سابق گورنر ہلمند ملا شیر محمد، کمانڈر گل حیدر، جنرل دین محمد جرأت، کمانڈر میر عالم خان، حاجی آغا گل، فتح اللہ قیس یاری، کمانڈر اختر ابراہیم، حاجی پائندہ خان، افغان فوج کے جنرل مجید روزی، شاکر کاردار، احمد شاہ مسعود کے بھائی مولوی مسعود اور سابق نائب صدر ضیا مسعود، ڈاکٹر فضل اللہ مجددی، ننگرہار سے رکن پارلیمنٹ میرویس سیاسینی، کمانڈر حضرت علی، خالد پشتون، گل آغا شیرزئی وزیر سرحدات، مصالحتی کمیشن کے سربراہ استاد کریم خلیلی کے بھائی نبی خلیلی، کمانڈر محمد خالد، حزب وحدت کے سربراہ استاد محقق، این ڈی ایس کے سابق نائب سربراہ حکیم نورزئی، زلمے مجددی، قیص حسن، عبد الستار خواصی، اقبال صافی، جنرل ضرار احمد، سید دائود ہاشمی، گلاب مینگل کے بھائی نواب مینگل، کمانڈر قلم، کمانڈر چمن، خلیل ہوتک، حمید اللہ طوخی، ثمین اللہ ثمین، جنرل دائود، امر لطیف ابراہیمی، سینیٹ کے چیئرمین فضل ہادی مسلم یار، سابق گورنر ہرات آصف رحیمی، مصالحتی کمیشن کے جنرل سیکرٹری اکرم خپلواک، امان اللہ، وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی کے بھائی جلال الدین ربانی، افغان فوج کے جنرل مصطفی اندرابی، سابق پولیس چیف کابل جنرل بابا جان، انور خان، جنرل قاسمی، حاجی نذیر احمد زئی، حاجی ابراہیم، حاجی احمد شاہ رمضان، حاجی پیر بخش، حاجی جنت گل، سابق مشیر سلامتی امور حنیف اتمر، سابق وزیر داخلہ علی احمد جلالی، سابق وزیر دفاع اور افغان آرمی چیف بسم اللہ خان محمدی، حبیب اللہ افغان، شکریہ عیسیٰ خیل، نائب وزیر دفاع جنرل ہلال الدین ہلال، جنرل صالم اسحاق، فضل کریم عماق، گورنر قندھار طوریالی ویسا، لیاقت بابکرخیل، عبید اللہ بارکزئی، معلم میر ولی، کریم براوی، سابق افغان سفیر برائے پاکستان عمر زاخیلوال، افغان صدر کے مشیر برائے مذاکرات عبدالسلام رحیمی، حاجی الماس مشاور، کمانڈر بشیر قانک، سابق وزیر حج و اوقاف صدیق چکری، سابق افغان طالبان رہنما ملا عبد السلام راکٹی، میر داد نجرابی، حمید ہلمندی، حاجی صادق، کمانڈر آصف شاہراہ، حاجی خالد، حاجی انور خان، انور جگدلگ، سابق گورنر قندوز گل بادشاہ، افغان فوج کے جنرل قسیم، جنگل باغ، جنرل فضل الدین عیار، حاجی سیمع اللہ ربانی، جنرل جمیل جنبش، سابق آرمی چیف جنرل قدم شاہ، جنرل سبحان، جنرل سخی، سید حسین انوری، جنر ل گل کریم، حاجی منجی کوچی، حاجی نوروز، احمد وحیدی، پرویز درانی اور سید اسحاق گیلانی شامل ہیں۔
دستاویزات کے مطابق ان افراد نے امریکی قبضے کے دوران مختلف عہدوں پر رہتے ہوئے دارالحکومت کابل سمیت اہم صوبوں میں کمرشل زمینوں پر قبضے کرکے طالبان کے نام پر لوگوں کو ان کی جائیدادوں سے بے دخل کیا۔ افغان تحقیقاتی کمیشن نے سرکاری و نجی اراضی پر قبضہ کرنے والوں کی یہ فہرست افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور الیکشن کمیشن کو ارسال کردی ہے۔ جبکہ اٹارنی جنرل کو ان افراد کیخلاف مقدمات چلانے کی درخواست کی گئی ہے۔ اگر مذکورہ افراد پر قبضوں کے الزامات ثابت ہو گئے تو انہیں اپنے عہدوں سے مستعفی ہونا پڑے گا۔ جبکہ وہ اہم رہنما جو صدارتی الیکشن لڑنا چاہتے ہیں وہ نااہل ہو جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق افغان تحقیقاتی کمیشن اور امریکی اداروں کی بھرپور کوششوں کے باوجود حزب اسلامی کے سربراہ گل بدین حکمت یار اور ان کے ساتھیوں سمیت طالبان کے پانچ سالہ دور میں مختلف عہدوں پر رہنے والے طالبان ارکان کیخلاف زمینوں پر قبضوں میں ملوث ہونے کے کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں۔ امریکی اور افغان تحقیقاتی اداروں کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ طالبان اور حزب اسلامی نے عام لوگوں کی زمینوں پر قبضے کرنے والوں کیخلاف کارروائی کی اور لوگوں کو ان کی اراضی واپس دلوائی۔ خصوصاً طالبان نے اپنے دور حکومت میں سینکڑوں افراد کو ان کی زمینوں کے قبضے واپس کرائے۔ ذرائع کے بقول یہ تحقیقاتی کمیشن ان شکایات کے بعد قائم کیا گیا تھا کہ حکومت مظلوم عوام کی دادرسی کیلئے کوئی اقدامات نہیں کررہی ہے، جس کی وجہ سے عوام نے طالبان کی عدالتوں سے رجوع کرنا شروع کردیا ہے۔ جبکہ طالبان عدالتوں کی جانب سے اراضی پر قبضہ کرنے والے بعض فوجی افسران اور ان کے خاندان کے افراد کو نوٹس بھی دیئے گئے تھے۔ جس کے بعد افغان حکومت اور امریکیوں نے اس حوالے سے تحقیقات کا فیصلہ کیا۔ افغان فوج کے اہم جرنیل کابل میں قیمتی زمینوں پر قبضے میں ملوث نکلے، جس پر افغان حکومت نے انہیں قبضے چھوڑنے کیلئے کہا۔ تاہم ان طاقتور ترین افراد نے قبضے چھوڑنے سے انکار کردیا ہے۔ ذرائع کے مطابق شمالی اتحاد کے جنرل قاسم فہیم کے بھائیوں اور احمد شاہ مسعود کے بھائیوں نے کرزئی دور حکومت میں کابل میں پشتونوں کی قیمتی زمینوں پر قبضے کئے۔ جبکہ جنرل دوستم اور ان کے قریبی لوگوں نے بلخ میں پشتون کوٹ، فیض آباد، فاریاب اور دیگر علاقوں میں پشتونوں کو طالبان سے تعلق کا الزام لگاکر ان کی قیمتی زمینوں سے بیدخل کردیا تھا، جبکہ افغان حکومت اور امریکی حکام اس قبضہ مافیا کی پشت پناہی کررہی تھی۔ تاہم اب امریکہ اور افغان حکومت کو احساس ہوا ہے کہ افغان طالبان کا عوام میں اثرورسوخ بڑھ رہا ہے، جس کی بنیادی وجہ طالبان کی جانب سے شرعی عدالتوں کا قیام ہے، جہاں لوگ اپنی زمینوں کے معاملات اور دیگر تنازعات کے حل کیلئے رجوع کررہے ہیں۔ طالبان نے زمینوں پر قبضوں کے فیصلے کرنے کیلئے عدالتی کمیشن تشکیل دیا ہے۔ ان عدالتوں کے قیام سے افغان طالبان کے محاصل میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ کیونکہ کیس دائر کرنے کیلئے عوام کو معمولی فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ ایک ہفتے کے اندر ہر جمعہ کو بیس سے پچاس مقدمات کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ذرائع کے بقول طالبان کی ان عدالتوں کی وجہ سے افغان حکومت کی رٹ کمزور ہوتی جارہی ہے۔