اساتذہ-طلبہ کی شناخت گائون کو تعلیمی اداروں نے بھلادیا
کراچی(رپورٹ: راؤ افنان)سرکاری جامعات و کالجز کی انتظامیہ نےاساتذہ اور طلبہ کی شناخت گاؤن کو بھلا دیا، درس گاہوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ڈریس کوڈ پر عمل درآمد کرانے میں صوبائی حکومت و جامعات انتظامیہ مکمل طور پر ناکام ہے، اکیڈمک ڈریس کوڈ کے تحت گاؤن نہ پہننے والا طالب علم کلاس میں بیٹھ سکتا ہے، نہ ہی اساتذہ کو گاؤن کے بغیر لیکچر کی اجازت ہے، بعض آزاد خیال اساتذہ کی مخالفت پر جامعات و کالج سے آہستہ آہستہ گاؤن کلچر کا خاتمہ ہوگیا اور انتظامیہ تماشا دیکھتی رہی ،جبکہ گاؤن کا استعمال بس کانوکیشن تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سرکاری جامعات و کالجز میں اکیڈمک ڈریس کوڈ پر عمل درآمد کرانے میں صوبائی حکومت و متعلقہ انتظامیہ مکمل طور پر غیر سنجیدہ ہے، سرکاری کالجز میں طلبہ کیلئے یونیفارم تو لازمی ہے، تاہم اساتذہ گاؤن پہننے کی پابندی نہیں کرتے۔ دوسری جانب مشاہدے میں آیا ہے سرکاری جامعات میں گاؤن کلچر کا مکمل طور پر خاتمہ ہو گیا اور گاؤن کا استعمال بس سالانہ تقسیم اسناد کی تقریب تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ سرکاری جامعات میں یکساں ڈریس کوڈ سے متعلق کوئی پالیسی نہیں کہ طلبہ و طالبات جامعات میں کس طرح کپڑے پہن سکتے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ جامعہ کراچی کی کوڈ بک کے باب 5کی دفعہ 29کی شق (M)(1) کے مطابق اکیڈمک کاسٹیوم پہننا لازمی ہے، جو اساتذہ کیلئے سبز جبکہ طلبہ و طالبات کیلئے سیاہ گاؤن سے کی ہے۔ اس متعلق نذیر حسین یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر احمد قادری کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے حکومت سرکاری و نجی جامعات میں طلبا کیا کپڑے پہنیں گے اور کیسے پہنیں گے انہیں پابند نہیں کرتی۔ ان کا کہنا تھا کہ سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں یکساں تعلیمی پالیسی و قانون ہونے چاہیئں اور طلبہ کو ضابطہ اخلاق کے ذریعے واضح کرنا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ مشیر طلبہ امور کا کام ہی یہی ہوتا تھا کہ وہ طلبہ کو تعلیمی اداروں سے معلق کپڑے پہننے کا پابند کرتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے تعلیمی دور میں بلیک گاؤن ہر طا لب علم پر پہننا لازم تھا اور گاؤن نہ پہننے والا طالب علم نہ جماعت میں بیٹھ سکتا تھا اور نہ استاد لیکچر دے سکتا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ گاؤن کلچر ہی تعلیمی اداروں کی شناخت ہے۔ ’’امت ‘‘سے گفتگو کرتے ہوئے جامعہ کراچی کے میں طلبہ یونین کے آخری صدر اور اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر شکیل فاروقی کا کہنا تھا کہ گاؤن کلچر ہی جامعات کی شناخت ہے چاہے وہ طالب علم ہو یا استاد ہو، مگر بدقسمتی سے انتظامی کمزوری کے باعث گاؤن کلچر کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طلبہ یونین کے دور میں جب وہ رہنما تھے تو وہ ایک بار وہ بغیر گاؤن کے کلاس لینے چلے گئے تاہم انہیں کلاس میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ملی ،جبکہ وہ اس وقت ایک لیڈر تھے۔ جامعہ کی رئیسہ کلیہ فنون و سماجی علوم پروفیسر ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ کا کہنا تھا کہ وہ اس متعلق جامعہ انتظامیہ کو درخواست کریں گی کہ گاؤن کو لازم قرار دیا جائے۔ ’’امت ‘‘سے گفتگو کرتے ہوئے سندھ آل پاکستان پروفیسرز اور لیکچررز ایسو سی ایشن کے سابق صدر فیروز صدیقی کا کہنا تھا کہ تمام تعلیمی اداروں میں گاؤن کلچر لازمی ہونا چاہئے، چاہے وہ جامعات ہو یا کالجز ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض کالجز میں اساتذہ آج بھی پابندی سے گاؤن کا استعمال کرتے ہیں، مگر جہاں انتظامیہ کمزور یا غیر سنجیدہ ہے، وہاں گاؤن کلچر کا خاتمہ ہوچکا ہے، اگر کالجز پرنسپل خود گاؤن پہننے کی پابندی کرے تو اساتذہ خود بھی اس پر عمل درآمد کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالب علمی کی دور میں وہ بھی سیاہ گاؤن پہنا کرتے تھے جو طالب علم ہونے کی نشانی ہوا کرتی تھی، جو اب ختم ہو کر رہ گئی ہے۔