جھنگ کے شہری علاقوں میں مخالفت وقاص اکرم کو لے ڈوبی
جھنگ( احمد خلیل جازم )قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 115 میں شیخ وقاص اکرم کی نشست سیوریج کے پانی میں ڈوب گئی،سب سے بڑامسئلہ حل نہ ہونے کے باعث شہری حلقوں میں مخالفت شکست کا سبب بن گئی۔جھنگ کے لوگوں کا خیال ہے کہ شیخ وقاص اکرم نے گزشتہ 5 سال حلقے میں روابط نہیں رکھے ، یہی وجہ ہے کہ عوام نے ان سے اس مرتبہ بھرپور حساب لیا اور وہ ہار گئے۔ شیخ وقاص اکرم گزشتہ پندرہ برس سے اس سیٹ پر جیت رہے تھے لیکن اس بار وہ غلام بی بی بھروانہ سے ہار گئے۔مبصرین نے الیکشن سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ خود 2مرتبہ ایم این اے منتخب ہوئے اور ایک بار وفاقی وزیر بھی بنےجبکہ پچھلے عام انتخابات میں ان کے والد ایم این اے منتخب ہوئے لیکن اس کے باوجود جھنگ کے عوام کی قسمت نہ بدل سکی، شیخ وقاص شہر کیلئےکوئی بھی میگا پراجیکٹ لانے میں ناکام رہے،شیخ وقاص کے چھوٹے بھائی نواز اکرم چیئرمین بلدیہ بھی رہے لیکن اس کے باوجود شہر سیوریج کے پانی میں ڈوبا ہوا ہے جس کے باعث شہری حلقوں میں ان کی مخالفت پائی جا رہی ہے اور یہی مخالفت حالیہ الیکشن میں ان کی شکست کا باعث بنی۔ 60ہزار کے لگ بھگ ووٹ لینے والے شیخ وقاص اکرم آزاد حیثیت میں91 ہزار ووٹوں سے پی ٹی آئی کی غلام بی بی بھروانہ سے شکست کھا گئے، یہاں ایک اور فیکٹر سیدہ صغریٰ امام کا بھی ہے جو عابدہ حسین کی بیٹی اور شاہ جیونہ خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، ان کے مریدین بھی خاصی تعداد میں موجود ہیں لیکن وہ 21ہزار ووٹ لے سکی ۔عوام کا کہنا ہے کہ شیخ اکرم کی سیاست2002 ءمیں مشرف دور میں شروع ہوئی تھی، چونکہ شیخ وقاص کے بڑے بنیادی طور پر ٹرانسپورٹرز رہے اور اب وہ اسی کاروبار سے منسلک ہیں، اس لیے ضلعی سیاست میں شیخ کے والد شیخ اکرم اور چچا شیخ نواز ہمیشہ سرگرم عمل رہے ،یہ خاندان 80اور 90 کی دہائی میں ایک اور شیخ گروپ کے مقابلے میں ضلعی سیاست کرتا رہا، بعد میں دوسرے شیخ گروپ کے ایک ایم پی اے شیخ اقبال قتل ہوگئے، چنانچہ ان کا راستہ روکنے کے لیے وہاں مذہبی جماعتوںکو سیاست میں دوسرے گروپ نے شامل کیا،پھر شیخ وقاص منظر پر آئے۔اس مرتبہ گزشتہ دور حکومت میں نواز لیگ کے ساتھ رہنے والے شیخ وقاص اکرم نے ن لیگ کا ٹکٹ لینے سے انکارکردیا تھا اور آزاد حیثیت میں الیکشن لڑے، حلقے کے عوام نے ان کے اس عمل کو بھی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا۔لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ پندرہ برس میں شیخ وقاص اکرم گروپ خاصہ متحرک رہا ہے اور اس نے سیاست میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے،لیکن صرف سیاست ہی کرتے رہے ، عوامی خدمت کو درخور اعتنا نہیں جانا، یہ صرف باتیں کرنا جانتے تھے ، عوام سے ملنا ملانا قطعی نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ حلقے کے عوام نے یہ طے کررکھا تھا کہ ووٹ اسے دیا جائے گا جو شہر کے مسائل حل کرئے گا اسے ووٹ دیں گے،یوں دیہات سے آئی ہوئی غلام بی بی بھروانہ پر لوگوں نے اعتماد کیا اور انہیں شیخ وقاص کو چھوڑ کر انہیں منتخب کرلیا۔