پاکستان میں مذاکرات سے طالبان کا انکار

0

اسلام آباد (نمائندہ امت ؍ امت نیوز ؍ مانیٹرنگ ڈیسک)افغان طالبان کی جانب سے پاکستان میں امریکا کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کے اعلان نے شاہ محمود قریشی سے ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کی بات چیت کے چند گھنٹوں بعد ہی امریکی امیدیں دم توڑ گئیں ۔پاکستان نے افغانستان میں امن کی ذمہ داری تنہا اٹھانے کا امریکی مطالبہ مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے ۔امریکا پر دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا گیا ہے کہ واشنگٹن امن کے لئے افغان طالبان کے تحفظات دور کر کے اعتماد کی بحالی کیلئے اقدامات کرے۔افغانستان میں بھارتی مداخلت روکی جائے۔ نئی دہلی کو افغان معاملات میں ٹانگ اڑانے کا موقع دیا گیا تو اس سے امن کوششوں کو دھچکا لگے گا ۔جمعہ کو افغان مفاہمتی عمل کیلئے امریکی صدر کے خصوصی نمائندہ زلمے خلیل زاد نے وفد کے ہمراہ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی سے مذاکرات کئے اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی ۔ تفصیلات کے مطابق افغان مفاہمتی عمل کیلئے امریکی صدر کے خصوصی نمائندہ زلمے خلیل زاد نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ، سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ اور دیگر حکام سے جمعہ کو وزارت خارجہ میں مذاکرات کئے ۔مذاکرات کے بعد بتایا گیا تھا کہ طالبان و امریکہ کے درمیان مذاکرات کا اگلا دور اسلام آباد میں ہو گا ،جس کیلئے10سے زائد طالبان نمائندے پاکستان آئیں گے۔ مذاکرات کیلئے قطر و سعودی عرب کے نمائندوں کو بھی مدعو کیا جانا تھا ۔ اس اعلان پر طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جمعہ کی شام ٹویٹر پر مختصر بیان جاری کر کے پاکستان میں امریکہ سے مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔ترجمان طالبان کے مطابق اسلام آباد میں اس کے نمائندوں اور امریکی نمائندہ زلمے خلیل زاد میں مذاکرات کی اطلاعات میں کوئی صداقت نہیں۔ قبل ازیں امریکی خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے امریکی صدر کی نائب معاون لیزا کرٹس و افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر اسکاٹ ملر کے ہمراہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے مذاکرات کئے۔ جس میں افغان مفاہمتی عمل کے لئے ہونے والی پیشرفت پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔ زلمے خلیل زاد نے امریکا و طالبان میں براہ راست مذاکرات کے انعقاد میں سہولت فراہم کرنے پر پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ امریکی قیادت، افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستانی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔افغان طالبان کسی صورت میں اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں نہ وہ جنگ بندی پر تیار ہیں۔اس لیے مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے پاکستان اپنا کر دار ادا کرے۔ ذرائع کے مطابق طالبان و امریکا کے مذاکرات کی ممکنہ ناکامی کا الزام آنے کے خدشات کے باوجود پاکستان نے اسلام آباد میں طالبان اور امریکامیں مذاکرات کیلئے میزبانی کی یقین دہانی کرائی۔بات چیت کے دوران فیصلہ کیا گیا کہ افغان طالبان کے ڈیڑھ درجن سے زائد رہنماؤں کو اسلام آباد کے دورے کی دعوت دی جائے گی۔امریکا کےساتھ مذاکرات میں قطر دفتر کو بھی شامل کیا جائے گا۔زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ افغانستان میں پاکستان کا اثرورسوخ سب سے زیادہ ہے ،اس لئے افغانستان میں قیام امن کی زیادہ ذمہ داری بھی پاکستان کی بنتی ہے۔اس پر شاہ محمود نے کہا کہ پاکستان ممکن حد تک کوششوں میں مصروف ہے ،لیکن پاکستان تنہا کوئی بھی ذمہ داری نہیں اٹھائے گا ۔افغانستان میں آگ پاکستان نے نہیں لگائی تھی ،لیکن سب سے زیادہ متاثر خود پاکستان ہوا ہے۔ ہم اسی لئے افغانستان کے امن کو اپنا امن سمجھتے ہیں ۔امریکا طالبان کے تحفظات دور کرے اور ایسا ماحول پیدا کرے ،جس سے طالبان کا اعتماد بحال ہو۔وزیر خارجہ نے افغانستان میں بھارت کی مداخلت کا معاملہ بھی اٹھایا اور زلمے خلیل زاد پر واضح کیا کہ افغانستان میں بھارتی مداخلت مسائل کو جنم دے رہی ہے۔اگر بھارت کو افغان امور میں کوئی کر دار دیا گیا تو صورتحال پیچیدہ ہو گی ،جس سے امن کوششوں کو دھچکا بھی لگ سکتا ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکی نمائندہ طالبان سے مسلسل مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ اشرف غنی حکومت سے مذاکرات کریں۔ پاکستان بھی مطالبے کی حمایت کر چکا ہے۔افغان ذرائع ابلاغ کے مطابق طالبان گزشتہ دنوں زلمے خلیل زاد کے کر دار پر بھی شکوک و شبہات ظاہر کر چکے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق افغان طالبان پر دباؤ ڈالنے کے لیے پاکستان نے طالبان کے وزیر مذہبی امور حافظ محب اللہ کو گرفتار کیا تھا ،لیکن پیر کو انہیں ڈرامائی انداز میں رہا کر دیا گیا۔رہنما گرفتار کئے جانے کے باوجود طالبان نے پاکستانی مطالبہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ افغانستان کے پشتو ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ کئی طالبان رہنما اب پاکستان سے چلے گئے ہیں اور انہوں نے اپنے فون نمبرز بند کر کے تمام رابطے منقطع کر دیے ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے طالبان اور امریکا کے درمیان ابوظہبی میں مذاکرات ہوئے تھے ،تاہم سعودی شہر جدہ میں بات چیت سے طالبان نے انکار کر دیا تھا۔جس کا سبب سعودی عرب کا طالبان پر ڈالا گیا دباؤ تھا۔ سعودی عرب و امارات نے طالبان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اشرف غنی حکومت سے بھی بات کریں ،تاہم طالبان نے دباؤ ماننے سے انکار کر دیا تھا ۔امریکی ریڈیو وائس آف امریکانے جمعرات کواپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کیلئے پاکستان بھی کوشش کر رہا ہے۔پاکستانی حکام کی جانب سے امریکا کو بتایا گیا تھا کہ وہ مذاکرات کا انتظام کرا دے گا ،تاہم مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی کی مکمل ذمہ داری فریقین پر ہی ہوگی۔پاکستان کا یہ خدشہ بھی بے سبب نہیں کہ مذاکرات کی ناکامی کا الزام اس کے سر آسکتا ہے ۔2015میں افغان امن کیلئے بھی پاکستان نے مذاکرات کی میزبانی کی تھی ،جسےمری پروسس کا نام دیا گیا ،لیکن بات چیت شروع ہونےسے ایک روز قبل ہی ملا عمر کے انتقال کی خبر لیک کر دی گئی ،جس پر یہ مذاکرات سبوتاژ ہو گئے۔ اس وقت بات چیت کی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو ہی ٹھہرایا گیا تھا۔نئی صورت حال سے لگتا ہے کہ طالبان کسی صورت میں اشرف غنی حکومت کے ساتھ مذاکرات پر تیار نہیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More