ثاقب نثار دور میں ماتحت عدلیہ پر توجہ نہیں دی گئی – سینئر وکلا
کراچی؍ اسلام آباد (رپورٹ:فرحان راجپوت؍ نمائندہ امت )سینئر وکلا نے کہا ہے کہ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار کا دور مجموعی طور پر بہتر تھا ،تاہم اس دوران ماتحت عدالتوں پر توجہ نہیں دی گئی۔سابق چیف جسٹس کوسیاسی مقدمات سے دور رہ کر نچلی عدالتوں میں لاکھوں لوگوں کے مسائل کے حل پر توجہ دینی چا ہئے تھی ۔زیادہ از خود نوٹس لینے اور سیاسی مقدمات اٹھانے سےعدلیہ کے اختیارات سے تجاوزکا تاثر پیدا ہوا۔ حکومتی نااہلی و کمزور پہلوؤں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو جوڈیشل ایکٹوازم پر مجبور کیا۔ ’’امت ‘‘سے گفتگو میں بیرسٹر خواجہ نوید احمد نے کہا کہ ثاقب نثار نے بہت سارے قابل تحسین اقدام کیے۔ یہ جوڈیشل افسر کا کام نہیں کہ اسپتالوں کے دورے کرے ،تاہم انہوں نے اسکولوں کی فیسیں کم کرنے کے احکامات جاری کیے۔کراچی میں پانی کے مسئلہ حل کیا۔ زیادہ از خود نوٹس لئے گئے جن کی ضرورت نہیں تھی۔سابق جسٹس ریٹائرڈ شہاب سرکی نے کہا کہ نئے چیف جسٹس نے کہہ دیا ہے کہ وہ از خود نوٹس کا استعمال زیادہ نہیں کریں گے ۔اس سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ثاقب نثار نے زیادہ از خود نوٹس لئے ۔عوام ثاقب نثار سے خوش تھے۔ ان کا دور مجموعی طور پر اچھا تھا ،لیکن انہوں نے انتظامی اموریعنی نچلی عدالتوں کو درست نہیں کیا ،جہاں لوگوں کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔امید ہےنئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ عدالتی نظام کو درست کریں گے۔سندھ ہائی کورٹ بار کے صدر محمد عاقل کا کہنا ہے کہ از خود نوٹس کا آغازسابق چیف جسٹس افتخار چوہدری دور سے شروع ہوا تو ثاقب نثار نے اس کی انتہا کر دی ۔اس سے یہ تاثر ابھرا کہ میاں ثاقب نثار خبروں میں رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔مختلف اداروں کے سربراہان کو ٹف ٹائم دینے سے اختیارات سے تجاوز کا تاثر بھی ابھرا۔ اسپتالوں کے دورے جوڈیشل افسرکا کام نہیں تھا ۔نچلی عدالتوں میں مسائل کےحل پر توجہ نہیں دی گئی ۔سندھ بار کونسل کے وائس چیئرمین صلاح الدین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ وکلا کو از خود نوٹس کے اختیار پر اعتراض نہیں ،لیکن یہ طے ہونا چائیے کہ ریاستی کاموں میں مداخلت نہیں ہونی چائیے، کسی عمل سے ریاستی کام رکا تو نتائج ریاست کو بھگتنے پڑتے ہیں۔میں نہیں سمجھتا کہ ثاقب نثار کے دور میں کوئی نمایاں کام ہوئے البتہ اخباروں میں خبریں لگ رہی تھیں۔نچلی عدالتوں میں معاملات ٹھیک نہیں کئے گئے ۔ ان کے دور میں عدالتی و انتظامی معاملات پر بڑا فرق نہیں پڑا۔سپریم کورٹ بار کے سابق صدر بیرسٹرعلی ظفر نے ’’امت ‘‘سے گفتگو میں کہاکہ سابق چیف جسٹس نے اپنی طرف سے کافی کوشش کی تھی کہ حکومت معاملات حل نہ ہونے پر وہ ایسانہ ہونےپر انہوں نے خود ہی عوامی مسائل کے حل کابیڑہ اٹھالیا ۔عدالتی احکامات پر بھی پیش رفت نہ ہونے پر انہوں نے دورے شروع کیے ۔ جسٹس ریٹائرڈ فیاض احمدنے کہاکہ ثاقب نثار بہت نرم طبیعت کے مالک ہیں۔عوامی مسائل دیکھتے ہوئےوہ خود ایکشن لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔جسٹس ریٹائرڈ کلیم اللہ نے کہاکہ ثاقب نثار نے کوئی نیاکام نہیں کیاہے انہوں نے وہی کیاہے جو پہلے کے چیف جسٹس صاحبان کرتے رہے۔افتخار چوہدری نے ان معاملات کواتناآگے بڑھایا کہ کوئی بھی جج اسےنظراندازنہیں کرسکتا۔سپریم کورٹ بار کے صدرامان اللہ کنرانی نے کہاکہ ثاقب نثار نےجو اقدامات کئے وہ اتنے خوش آئند نہیں لیکن از خود نوٹس کے تحت انسانی حقوق پر کام قابل تحسین ہے۔ثاقب نثار نے نیک نیتی سے اقدامات کئے ،لیکن اس دوران قانون کی خلاف ورزیاں بھی ہو ئی ہوں گی۔وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل کامران مرتضیٰ نے کہاکہ ثاقب نثار غیر روایتی چیف جسٹس تھے ۔مجھےسرکاری اداروں پر ان کے چھاپوں پر اعتراض تھا۔انہوں نے جوکام کیے ان سے ساتھی جج بھی متفق نہیں تھے ۔وہ کام کئے جو ان کے ذمہ نہیں تھے ۔چیف جسٹس اپنے ادارے کوچھوڑ کردوسروں کے معاملات میں خود کوملوث کرے گاتو اس کے ادارے کی کارکردگی بھی متاثرہوئی ہوگی ۔شاہدعلی ایڈووکیٹ نے کہاکہ ثاقب نثار نے پانی اور دودھ کے معاملات پر اچھے فیصلے دیے۔سرکار ی اور نجی اسپتالوں کوبھی اپناقبلہ درست کرناپڑا۔زیڈاے بھٹہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ ثاقب نثار دور میں بعض معاملات میں کمی نظرآئی توکئی معاملات میں بہتری بھی دکھائی دی ۔احسان اللہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ ثاقب نثار نے پہلے میڈیا کا سہارا نہیں لیاپھر ایسا سہارا لیا میڈیا کا ہی دیوالیہ نکال دیا۔واصف ایڈووکیٹ نے کہاکہ مفاد عامہ میں عدالت کو دیا گیا اختیار سیاستدانوں کو برا لگتاہے تو وہ قانو ن سازی کرکے اس میں ترمیم کیوں نہیں کرتے۔بیناروحی ایڈووکیٹ نے کہاکہ ثاقب نثار ان کے آئیڈیل تھے۔حکومت کی غلطیا ں کہاں اور کون دیکھے گا۔جب حکومت ہی مداوا نہ کرے توعوام کہاں جائیں گے اور کس سے فریادکریں گے۔انہوں نے جوکچھ بھی کیا بہت اچھاکیا۔