عمران خان
کالعدم تنظیموں نے کراچی کی فیکٹریوں سے بھتہ وصولی شروع کردی ہے۔ لیاری گینگ وار کے بچ جانے والے گروپوں کے کارندے شاہ لطیف ٹاون میں نیٹ ورک فعال کر چکے، جہاں سے ماہانہ لاکھوں روپے بھتہ وصول کیا جا رہا ہے۔ سالاری اور ذکری گروپ میں کالعدم بی ایل اے کے دہشت گرد بھی شامل ہیں۔ ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹائون کی حدود میں کالعدم تنظیموں کا نیٹ ورک فعال ہونا شروع ہوگیا ہے۔ سالاری گروپ اور ذکری گروپ کے کارندے ٹیکسٹائل اور گارمنٹس فیکٹریوں سے ویسٹیج کے ٹھیکے لینے والوں سے فی گاڑی ایک لاکھ روپے کی وصولی کر رہے ہیں۔ دونوں گروپوں میں کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی کے کارندے شامل ہیں جن کے ذریعے جمع ہونے والے لاکھوں روپے کا فنڈ کالعدم تنظیموں کے نیٹ ورک کو فراہم کیا جارہا ہے۔ ملیر کے علاقوں پیر گوٹھ اور کھوئی گوٹھ کے اطراف میں کئی مکانوں میں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کارکن قیام کرتے ہیں اور یہاں پر ان کے باغیانہ گانے بھی روز بجائے جاتے ہیں۔
پولیس ذرائع کے بقول شاہ لطیف ٹائون کے علاقے کھوئی گوٹھ کے قریب میمن فائونڈیشن کمپائونڈ کے اندر قائم 6 صنعتی یونٹوں کے مالکان نے جرائم پیشہ عناصر سے بچنے کیلئے اپنی فیکٹریوں سے روزانہ کی بنیاد پر خام مال اور ویسٹیج کو فروخت کرنے کے ٹھیکے ان گروپوں کے کارندوں کی مرضی کے مطابق دینے شروع کردیئے ہیں۔ اس نیٹ ورک میں ان فیکٹریوں میں کام کرنے والے بعض افراد سرگرم کردار ادا کررہے ہیں، جن میں ملک ندیم جمیل، جرشید گل شیر خان، محمد ندیم عرف مولوی ساجد کمال، ناصر سالاری شامل ہیں۔ یہ افراد ویسٹیج خریدنے والے ٹھیکداروں کو فی گاڑی ایک لاکھ روپے کمیشن دینے پر کمپنیوں سے ٹھیکہ دلواتے ہیں۔ ذکری گروپ کیلئے بھتے کی رقم دو پارٹنر سلیم اور جہانزیب وصول کرتے ہیں اور ان کے ساتھ سلیم اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ جبکہ فیکٹری میں رستم اور انور دونوں اندر آنے والے ٹھیکیداروں کو ڈیل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کمال نامی شخص فیکٹریوں کے مالکان اور منیجرز سے معاملات طے کرتا ہے۔ یہ شخص خود بھی ایک فیکٹری کا ملازم ہے۔ یہ تمام افراد فیکٹریوں کے اطراف کے علاقوں میں رہائش پذیر ہیں اور حکم کی تعمیل نہ کرنے والے فیکٹری مالکان اور منیجرز کو ہراساں کرکے اپنی بات ماننے پر مجبور کرتے ہیں۔ ذرائع کے بقول دو برسوں سے یہ نیٹ ورک کامیابی سے چل رہا ہے اور ماہانہ 50 لاکھ سے سے زائد کی رقم ایران کے علاقے چاہ بہار میں موجود شریف سالاری کو منتقل کی جاتی ہے۔ جبکہ اتنی ہی رقم ملیر کے علاقوں میں سرگرم کارندے آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔ اسی رقم میں سے کالعدم تنظیم کے معاملات چلانے کیلئے فنڈ مختص کیا جاتا ہے۔ ملیر اور اولڈ سٹی ایریا کے علاقہ شیر شاہ میں کام کرنے والے ویسٹیج کے ٹھکیدار ان فیکٹریوں سے شہزور گاڑیاں بھر کر اسے ری سائیکلنگ کیلئے لے کر جاتے ہیں۔
پولیس ذرائع کے بقول گینگ وار کے رحمن ڈکیت اور ارشد پپو کے دور میں ملیر کے گوٹھوں اور مضافاتی آبادیوں میں ان کے دو کمانڈر سہیل ڈاڈا اور فاروق ذکری نے مضبوط نیٹ ورک قائم کیا ہوا تھا، جس کے تحت ملیر اور بن قاسم کے علاقوں میں فیکٹریوں سے دکانداروں سے بھاری بھتہ وصول کیا جاتا تھا۔ سہیل ڈاڈا کا نیٹ ورک ملیر میمن گوٹھ، بکرا پیڑھی سے لے کر نیشنل ہائی وے کے اطراف میں شاہ لطیف ٹائون تک پھیلا ہوا تھا۔ جبکہ اس سے آگے بن قاسم اور اسٹیل ٹائون کے علاقوں میں ریڑھی گوٹھ تک ذکری گروپ کا اثر رسوخ زیادہ تھا جو کہ ارشد پپو کیلئے کام کرتا تھا۔ تاہم 2013ء میں رینجرز اور پولیس کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف شروع کئے گئے آپریشن کے بعد ان علاقوں میں بھتہ خوری اور اغواء کاری کا نیٹ ورک محدود ہونا شروع ہوگیا تھا۔ تاہم ان گروپوں کے ذریعے ان کا روایتی کام یعنی منشیات فروشی اور جرائم کے اڈے چلائے جانے کا سلسلہ چھپ چھپا کے جاری رہا۔ اس دوران دونوں گروپوں کے سرکردہ کمانڈر جن میں سہیل ڈاڈا وغیرہ شامل تھے، مقابلوں میں ہلاک کردیئے گئے۔ پولیس ذرائع کے مطابق حالیہ دو برسوں میں ان عناصر نے دوبارہ سے سر اٹھانا شروع کردیا ہے، جس میں زیادہ تر کردار بلوچستان میں سرگرم کالعدم تنظیموں کے ان کارکنوں اور کمانڈروں کا ہے، جو کہ بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے باعث فرار ہوکر کراچی میں بلدیہ اور حب کے علاوہ ملیر کی ان آبادیوں میں روپوش ہوئے جہاں پر بلوچ آبادیاں قائم ہیں اور یہاں پر گینگ وار سے منسلک غیر فعال نیٹ ورک کو ایک بار پھر سے متحرک کرنا شروع کردیا گیا۔
پولیس ذرائع کے بقول ان عناصر کے دوبارہ فعال ہونے کے اثرات زیادہ اس وقت محسوس ہونا شروع ہوئے جب یکے بعد دیگرے ملیر کے علاقوں میں دہشت گردی کے اسی نوعیت کے واقعات رونما ہونے لگے، جو کہ 2013ء سے قبل ہو رہے تھے۔ ان میں ڈیڑھ برس کے دوران قائم آباد میں ہونے والے دو بڑے بم دھماکے شامل ہیں جس میں بھاری جانی اور مالی نقصان ہوا تھا۔ اس کے علاوہ اسی علاقے میں ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑانے اور چینی انجینئرز کی گاڑی پر دھماکے کی کارروائیاں بھی کی گئیں۔
ذرائع کے بقول اس وقت فیکٹریوں سے ٹھیکے لینے والے گروپ کے کارندوں کو شریف سالاری کی سربراہی میں چلایا جا رہا ہے جوکہ ایران کے علاقے چاہ بہار میں موجود ہے اور اس کا اس کے بعض عزیز رشتے داروں سمیت ملیر کے علاقوں میں آنا جا رہتا ہے۔ تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بچنے کیلئے شریف سالاری ایران میں ہی انڈر گرائونڈ رہنے کو ترجیح دے رہا ہے جبکہ ذکری گروپ کو چلانے والے افراد میں جہانزیب، پرویز اور جہانگیر نامی افراد شامل ہیں۔ پولیس ذرائع کے بقول ایک ہفتہ قبل اس نیٹ ورک کے حوالے سے دہشت گردی میں ملوث ہونے کی اطلاعات قانون نافذ کرنے والے اداروں تک پہنچی جس کے بعد ایک آپریشن میں اس نیٹ ورک کے تین اہم افراد کو حراست میں لیا گیا جن کے قبضے سے تین اوان بم بر آمد کئے گئے۔ جہانگیر، پرویز اور جہانزیب جن کے خلاف اسٹیل ٹائون تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا اور ان سے تفتیش میں ان کے پورے نیٹ ورک اور دیگر ساتھیوں کے حوالے سے بھی معلومات حاصل کی گئیں۔ ان ملزمان کے خلاف مقدمہ الزام نمبر 18/2019انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات 7 اے ٹی اے اور دیگر دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں ایس ایچ او اسٹیل ٹائون رائو رفیق نے ’’امت‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ملزمان ملیر کے علاقے ریڑھی گوٹھ کے رہائشی ہیں اور ذکری ہیں۔ انسپکٹر رائو رفیق کا مزید کہنا تھا کہ ملزمان کے قبضے سے تین بم اور دیگر اشیاء برآمد ہوئی ہیں اور ان سے مزید تفتیش کی جا رہی ہے۔
Prev Post