قسط نمبر 238
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
میں نے ایک بار پھر اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ بشن دیپ نے کہا ’’بھائی بہادر سنگھ، وہاں کے سکھ بھائیوکو بتائو کہ ہندوستان میں کتنے منظم انداز میں ہماری قوم کو برباد کیا جارہا ہے۔ سرکار کے ساتھ ساتھ ہندو عوام کی جانب سے بھی ہمیں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ پنجاب میں زیادہ تر سرکاری عہدوں پر ہندو اکثریت قابض ہے۔ فوج میں بھرتی اب میرٹ کے بجائے آبادی کے لحاظ سے ہورہی ہے۔ کسی زمانے میںہندوستانی فوج میں چالیس فی صدسکھ ہوتے تھے، اب ان کی تعداد منظم طریقے سے گھٹائی جارہی ہے۔ یہی نہیں، اپنے دھرم پر ہمیں شرمندہ کرنے کے لیے ہندوؤں نے سکھوں کے بارے میںذلیل کرنے والے لطیفے بنانا شروع کردیے ہیں۔ ہندوستان کے باقی علاقوں میں موقع ملتے ہی ہندو معصوم سکھوں پر حملے کرتے ہیں۔‘‘
میں نے بہت احتیاط سے الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا ’’میں نے سنا کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ظلم کیا جارہا ہے؟‘‘
بشن دیپ نے افسوس بھرے لہجے میں کہا ’’ہاں، وہ بے چارے بھی اپنی ہی دھرتی پر ظالموں کی غلامی کرنے پر مجبور ہیں۔ ہم لوگوں کو سونا اگلتی دھرتی کی وجہ سے کم از کم پیٹ بھرنے کے مسئلے کا تو سامنا تو نہیں ہے، ان بے چاروں کے پاس تو روزگار اور نوکری نام کی کوئی چیز بھی نہیں ہے۔ سری نگر جیسے بڑے شہر والے تو پھر بھی اچھی حالت میں ہیں، دور دراز علاقوں والے مسلمان تو دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔‘‘
میں نے ایک بار پھر محتاط الفاظ کا انتخاب کرتے ہوئے کہا ’’لیکن میں نے سنا تھا کہ بہت ہی کم وسائل کے باوجود کشمیر والوں نے آزادی کے لیے ہتھیار اٹھالیے ہیں اور ہندوستانی فوج کو کافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔‘‘
بشن دیپ نے کہا ’’ہاں، یہ تو ماننا پڑے گا کہ کشمیری بہت بہادر قوم ہیں، وہاں کے حریت پسند نوجوان مرنے سے نہیں ڈرتے۔‘‘
میں نے بظاہر معصوم لہجے میں پوچھا ’’کیا وہ ہم سکھوں سے بھی زیادہ بہادر ہیں؟ کیاہمارے نوجوان جی دار نہیں ہیں!‘‘
بشن دیپ کچھ چونکا اور پھر جوشیلے لہجے میں کہا ’’کیسی بات کررہے ہو بہادر سنگھ بھائی؟ سکھ تو واہگرو کا شیر ہوتا ہے۔ اسی لیے تو ہمیں سنگھ کا خطاب ملا ہے۔ ہم سے زیادہ بہادر کون سی قوم ہوسکتی ہے؟‘‘
میں نے بدستور معصومیت بھرے لہجے میں کہا ’’لیکن یہاں تو مجھے کوئی ہتھیار بند جدوجہد کرتا نظر نہیں آتا۔ شاید اس لیے کہ ہمارے پیٹ بھرے ہوئے ہیں۔ جان لڑانے کو دل نہیں کرتا، یاشاید کشمیریوں کی طرح آزادی ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں ہے۔‘‘
مجھے بشن دیپ کے چہرے پر چند لمحوں کے لیے ناگواری کے آثار نظر آئے لیکن پھر اس کے تاثرات ہموار ہوگئے۔ بالآخر تھکے تھکے لہجے میں بولا ’’بھائی تمھاری بات سچ ہے، اسی لیے ہم جیسے پیٹ بھروں کو کڑوی بھی لگے گی۔ جو تم نے کہا، کچھ ایسی صورتِ حال ہے۔ ہمارے کچھ نوجوانوں نے ہتھیار اٹھا رکھے ہیں، لیکن ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے اور انھیں اپنوں کی طرف سے ہی مخالفت کا سامنا ہے۔ لیکن نہرو سرکار نے سکھ مت کو ہندو دھرم کا ہی ایک فرقہ قرار دے کر جو شعلہ بھڑکایا ہے، مجھے لگتاہے اس کی تپش بہت جلد سکھ قوم کے بہت سے نوجوانوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کردے گی۔‘‘
اپنی باتوں کا حسب منشا نتیجہ برآمد ہوتے دیکھ کر میں نے دل ہی دل میں خوش ہوتے ہوئے بظاہر سرسری لہجے میں کہا ’’میرا خیال ہے آپ کو بھی تو ایسے سکھ نوجوانوں کی مددکرنی چاہیے جو اپنی قوم کے لیے سر ہتھیلی پر رکھ کر جدوجہد کررہے ہیں۔‘‘
میری بات سن کر وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگیا اور پھر دھیمے لہجے میں بولا ’’اب آپ سے کیا پردہ بہادر بھائی، امردیپ بھائی اور میرے، دونوں کے خالصتان تحریک کے سرگرم لوگوں سے رابطے ہوتے رہتے ہیں اور ہم اپنے پتا جی سے چوری چھپے، اپنی بساط کے مطابق ان سے مالی تعاون بھی کرتے رہتے ہیں۔‘‘
میں نے یک دم خوش ہوتے ہوئے کہا ’’مجھے آپ دونوں بھائیوںسے یہی امید تھی بشن دیپ بھائیا۔ اب میں آپ سے درخواست کرسکتا ہوں کہ اگر ہوسکے تو خالصتان تحریک کے لیے ہتھیار بند کسی متحرک لیڈر سے میری ملاقات کرادیں۔ میں چاہتا ہوں کہ انگلینڈ سے ان کے لیے باقاعدگی سے مالی مدد بھیجنے کا کوئی سلسلہ شروع کرسکوں۔‘‘
بشن دیپ نے کہا ’’مجھے اپنی قوم کے لیے تمھاری تڑپ جان کر بہت خوشی ہوئی۔ لیکن تمھیں خالصتان تحریک کے لیے مالی مدد بھیجنے کے لیے یہاں کے کسی لیڈر سے ملاقات کا خطرہ مول لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ تقریباً تمام مغربی ملکوں میں خالصتان تحریک کے لیے چندہ جمع کرنے کا منظم نظام قائم ہوچکا ہے۔ میں پوچھ کر تمھارے علاقے کے کرتا دھرتا کی تفصیلات تمھیں بتا دوں گا۔ تم اس سے مل لینا، تمھارا کام ہوجائے گا۔‘‘
میں نے کہا ’’بالکل ٹھیک ہے، لیکن میرے خیال میں اگر خالصتان تحریک کے لیے ہتھیار بند جدوجہد کرنے والے ہمارے بھائی اگر کشمیرمیں آزادی کے لیے لڑنے والوں سے اتحاد کرلیں تو ایک دوسرے کے بہت کام آسکتے ہیں۔ آپ کا خیال ہے؟‘‘
اس نے جوش بھرے لہجے میں کہا ’’آپ کی یہ تجویز تو بہت اچھی ہے۔ دونوں علاقے آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ ایک دوسرے کے لوگوں کو پناہ دے سکتے ہیں۔ مل کر ظالم ہندو سرکار کے خلاف کارروائیاں کرسکتے ہیں۔‘‘
میں نے کہا ’’بالکل ٹھیک۔ میں آپ سے اسی مقصد کے لیے خالصتان تحریک کے ساتھیوں سے ملاقات کا کہہ رہا تھا۔ دراصل بات یہ ہے کہ میں ہندو سرکار کے مظالم کی ستائی ان دونوں قوموں کو ایک دوسرے سے جوڑنے میں ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہوں۔‘‘
میری بات سن کر بشن دیپ چونکا۔ اس نے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا۔ میں نے دھیمے لہجے میں کہا ’’دراصل پٹیالے میں قیام کے دوران میں میری ایک کشمیری نوجوان سے دوستی ہوگئی تھی، اسی دوران میں اتفاق سے مجھے پتا چل گیا کہ وہ کشمیر میں جاری آزادی کی جدوجہد کرنے والے ایک مضبوط گروپ کا سربراہ ہے۔ میں چاہتا تو اسے باآسانی گرفتار کراسکتا تھا۔ لیکن اس نے میرے ساتھ کوئی برائی نہیں کی تھی، بلکہ کئی طرح سے احسان ہی کیا ہے، اس لیے میں نے اس کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے گریز کیا۔‘‘
میرے خاموش ہونے پر بشن دیپ نے تجسس بھرے لہجے میں پوچھا ’’پھر کیا ہوا بہادر سنگھ بھائی؟‘‘
میں نے کہا ’’میں نے اسے صاف صاف بتادیا کہ میں اس کی حقیقت سے واقف ہوچکا ہوں اور اگر اس نے احتیاط نہ کی تو مزید لوگ بھی اسے پہچان سکتے ہیں اور وہ مصیبت میں گرفتار ہوسکتا ہے۔‘‘ (جاری ہے)
Prev Post