قسط نمبر 19
ترتیب و پیشکش/ ڈاکٹر فرمان فتحپوری
قمر زمانی بیگم کون ہیں؟ کیا ہیں؟ اور ان کی اہمیت کیا ہے؟ ان سوالوں کے مفصل جوابات آپ کو اس تحریر کے مطالعہ سے خود معلوم ہوجائیں گے۔ ابتداً اتنا ضرور کہنا ہے کہ اِن کے اور اُن کے معاشقے کی جو داستان یہاں بیان کی جارہی ہے۔ وہ فرضی نہیں حقیقی ہے۔ من گھڑت نہیں سچا واقعہ ہے۔ محض ایک رنگین و رومان پرور کہانی نہیں، ادبی تاریخ کا ایک دلکش باب ہے۔ معمولی اشخاص کی زندگی کی تفصیل نہیں، علم و ادب کی غیر معمولی شخصیتوں کا مرقع ہے۔ سنی سنائی باتوں کا مصنوعی مجموعہ نہیں، خطوط کی صورت میں ایک خاص عہد کی ادبی دستاویز ہے۔ جس کے منتخب حصے قارئین امت کی نذر ہیں۔
دلگیر اپنے نامے میں آگے چل کر لکھتے ہیں:
آہ کوئی تدبیر ایسی نہیں کہ ہم ہمیشہ کیلئے، مدت العمر نہ چھوٹنے کیلئے، کبھی نہ بچھڑنے کیلئے ایک دوسرے سے مل جائیں۔ اس سوال کے جواب پر میری موت اور حیات منحصر ہے۔ خدا کیلئے سوچ سمجھ کر دینا اور وہ بات لکھنا جو حقیقتاً تمہارے دل میں ہو…
ہائے اللہ کس قدر حسرت ہے کہ آپ کے سفر کے پروگرام میں کبھی غریب و بے بس آگرہ شامل نہیں ہوتا۔
پیاری! کیا میں دریافت کرسکتا ہوں کہ بریلی میں وجہ اطمینان کیا ہے، پیاری! کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ دہلی یا لکھنو جانے کا ارادہ کس لئے ہے، تمہیں میری جان کی قسم سچ سچ بتادو اپنے حالات کچھ تو لکھو کہ اطمینان ہو۔ میں کوئی مناسب حال مشورے دے سکوں۔ کچھ کام آسکوں۔ ہمارا ہی جنازہ نکلتے دیکھو جو، اب نہ بتائو۔
اپنا بنایا ہے تو پھر اپنا ہی بنالو اور راز دل کہہ دو۔ کیا ہمارا اعتبار نہیں، نقاد قیامت کا نمونہ بن کر آپ کے سامنے انشاء اللہ تعالیٰ جلد حاضر ہوگا، لیکن ٹھکرا نہ دینا، غریب مرجائے گا۔ بلاک میں آپ کا خط ’’پری‘‘ معلوم ہوگا، دیکھئے گا۔
اپنی سیمیں کلائیوں کی قسم، بجنے والی چوڑیوں کی قسم، ہیرا تراش انگلیوں کی قسم، اس جذبات میں ڈوبے ہوئے خط کا جواب فوراً دینا کہ نقاد کی اشاعت سے پہلے مجھے مل جائے۔ ورنہ انتظار میں پاگل ہوجائوں گا۔ دوسرا خط نقاد کی اشاعت کے بعد…
ہاں خوب یاد آیا، یہ لکھنا تو بھول ہی گیا کہ خط کے رنگ نے مار ڈالا۔ اُف یہ گلابی چھینٹے؎
اپنی قمر کا
’’دلگیر‘‘
دلگیر کا یہ خط قمر زمانی کے خط مرقومہ 25 مارچ کا نہیں بلکہ 25 مارچ سے پہلے لکھے ہوئے کسی خط کا ہے۔ لیکن قمر زمانی کے اس خط کی نقل مسودہ میں نہیں ہے۔ قمر زمانی اس کی نقل رکھنا بھول گئیں یا پھر ضائع ہوگیا۔ یہ خیال اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ دلگیر نے قمر زمانی کے خط مرقومہ 25 مارچ کا جواب الگ سے 28 مارچ کو دیا ہے اور دلگیر کے خط مرقومہ 24 مارچ کی رسید قمر زمانی نے اپنے اگلے خط میں دی ہے۔
دلگیر کا خط مرقومہ 28 مارچ دیکھئے:
28 مارچ 17ء
آپ کا محبت نامہ 25 مارچ کا لکھا ہوا آج مجھے ملا ہے۔ اس سے قبل 24 مارچ کو ایک خط اور لکھ چکا ہوں۔ خدا جانے وہ بھی آپ کو ملا یا نہیں، مگر اب مل کے کیا ہوگا…
اس خط کے آخری فقرے پڑھ کر دل پر بجلی گر پڑی اور میں اس قابل نہ رہ گیا کہ آپ کی کسی بات کا برا بھلا جواب دے سکوں۔
آپ کو میری قسم انکار نہ کیجئے، خدا مبارک کرے۔
میں بد نصیب رہ کر بھی زندگی کاٹ دوں گا آپ اس کا غم نہ کریں بے کس نقاد کے مرجانے کا البتہ افسوس ہوگا۔ خیر اپنے ساتھ اسے بھی صبر کرلوں گا۔
حسرت نصیب ’’دلگیر‘‘
دلگیر کے اس خط سے ان کی جس بے دلی اور مایوسی کا اظہار ہوتا ہے وہ اس سے پہلے کے خطوط میں کہیں نظر نہیں آتا۔ قمر زمانی نے یہ لکھ کر کہ ان کی شادی کے مسئلے پر غور ہورہا ہے، دراصل دلگیر کے دل پر بجلی گرائی تھی اور ان کے بعد ان کی جو حالت ہوئی تھی اس کا اظہار انہوں نے انتہائی حسرت ناک انداز میں کیا ہے۔ قمر زمانی نے ان کی اس حسرت ناکی اور مایوسی کو محسوس کرلیا اور اس خیال سے کہ مبادا دلگیر سے معاشقانہ خط و کتابت کا سلسلہ ختم ہوجائے۔ انہوں نے فوراً دلگیر کے خط کا جواب دیا اور اس میں ان کی دلجوئی کا سامان مہیا کیا۔ قمر زمانی کا خط دیکھئے! بریلی یکم اپریل 17ء
24 مارچ اور 28 دونوں تاریخ کے نامہ ہائے محبت موصول ہوئے۔ پہلے عذر تاخیر قبول کیجئے اور پھر اس بات پر اظہار تاسف کہ آپ نے بھی کسی قدر کمزور دل پایا ہے۔ دیکھئے خدا کیلئے ایسا نہ کیجئے کہ میری ہمت ٹوٹ جائے آپ کو آخر اس سے بحث ہی کیا ہے میں پچھتاتی ہوں کہ کیوں لکھا، آپ اطمینان رکھیں سوائے آپ کے اور کسی کی نہیں ہوسکتی۔ میں آپ کو یہ خبر خوش سناتی ہوں کہ وہ جھگڑا طے ہوگیا اور بالکل میری مرضی پر چھوڑ دیا گیا۔ پھر آپ خود فرمائیے کہ میری مرضی کیا ہوسکتی ہے۔ آپ ذرا سی بات میں مایوس ہوگئے۔ ابھی تو زندگی پڑی ہے اور خدا جانے کیا کیا برداشت کرنا ہے۔ ذرا مرد بنے رہیئے۔ مجھ کو تو آپ پر بڑا اعتماد ہے۔ اگلے خط میں مضمون کا انتظار کیجئے۔ نقاد کا سخت انتظار ہے۔
صرف آپ کی ’’قمر‘‘
قمرزمانی کے اس خط نے اپنا پورا کام کیا۔ دلگیر اس خط کو پڑھ کر نہال ہوگئے۔ ان کی طبیعت میں پھر نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوگیا اور انہوں نے قمر زمانی کو بلاتاخیر ایک محبت بھرا طویل خط اس طور پر لکھا:
7 اپریل 17ء
راحت جان دلگیر
ہائے کیا بتائوں کس عالم اضطراب و یاس میں آپ کا مسیحا نامہ ملا۔ سچ یہ ہے کہ آپ کو مارنا بھی آتا ہے اور جلانا بھی۔ مارتے ہیں، انہیں نظروں سے جلا دیتے ہیں۔
خدا تمہیں سلامت رکھے اور ایسی ایسی بے حقیقت جانیں تمہارے حسن دشوار پر قربان ہوتی رہیں۔
عذر تاخیر قبول نہیں ہوسکتا۔
آہ جب مجھ ناشاد کی زندگی ہی یکسر تخیر و تاسف ہو تو پھر آپ اظہار تاسف نہ کریں تو مجھے تعجب ہو۔ مجھے اس امر کا عجز کے ساتھ اعتراف ہے کہ ع؎
غم کھانے میں بودا دل ناکام بہت ہے
لیکن حیرت ہے کہ آپ اپنی نسائیت پر جان دیتی ہیں مگر میرے کمزور ناتواں دل کی قدر نہیں کرتیں کیا اس میں شان نسائیت نہیں۔
یہ خوب کہا۔ ’’آپ کو اس سے کیا بحث‘‘
مجھے اس سے بحث نہیں تو اب اور کسے ہوسکتی ہے۔ اب قمر (جان دلگیر) سوائے میرے کسی کی نہیں ہوسکتی اللہ اللہ یہ نصیب۔
ادھر آئو لے لوں بلائیں تمہاری۔
اللہ اکبر! کدھر سجدہ کروں کہ ’’میرا معاملہ بالکل آپ کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا۔؎
بریں مژدہ گر جاں فشا نم رداست
کہ ایں مژدہ آرائشِ جانِ ماست
پھر آپ کی مرضی کب پوری ہوگی؟
جب تک ہم نہ ملائیں اس طرح کہ کوئی دنیاوی قوت ہمیں ایک دوسرے سے جدا نہ کرسکے، علیحدہ نہ کرسکے۔ اپنی بدبختی اور شوریدہ طالعی سے ہر وقت مذاق کا کھٹکا ہے اور اک معمولی بات بھی مصیبت (اور وہ تو ذرا سی بات نہ تھی اس کے فیصلہ پر تو میری زندگی کا دارومدار تھا) لیکن ایک دفعہ مل جانے کے بعد میرے لئے ہر مصیبت راحت اور ہر تکلیف مسرت ہوگی۔ اس وقت آپ کو صحیح اندازہ ہوگا کہ میں کتنا مرد ہوں۔
یہیں تک لکھنے پایا تھا کہ ایک کبوتر کا جوڑا میرے کمرے (دفتر نقاد) میں چلا آیا اور نر کی مستانہ خوش فعلیوں نے مجھے بے ساختہ اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ مجھے دلگیر و افسردہ ہونا پڑا۔ جب یہ خیال آیا کہ میں تنہا ہوں اور مستی پر آن (کبوتر) کی طرح خوش مستی میں کسی کے سامنے اظہار محبت کرنے سے مجبورع؎
حیف ایسی زندگی پر تم کہیں اور ہم کہیں
اف اس ظالم متوالے سے (جب اپنے اظہار تعشق کے آگے اتنی بھی فرصت نہیں کہ دیکھے اس کی ان مستی میں ڈوبی ہوئی حرکتوں کو۔ کوئی مجبور دلگیر حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا ہے اور تباہ ہوا جارہا ہے) خدا سمجھے جس کم بخت میرے مردہ حسیات کو بیدار کردیا ٹھنڈے جذبات میں آگ لگادی۔
افسردہ داعیات شباب میں روح پھونک دی۔
آہ مجھ سے یہ عالم لطف و حسرت یہ بے تابانہ اظہار شوق و محبت یہ بے حجابانہ انداز مواصلت زیادہ دیر تک نہ دیکھا گیا اور میں نے اس محرک جذبات و مصور حیات کو اڑا دیا، لیکن نور جہاں کی طرح نہیں۔
آپ مجھ سے کوسوں دور تک لیکن سحرکاری تخیل دیکھئے کس قدر قریب ہے۔ میں جواب اور مضمون کا بے صبری و شوق کے ساتھ منتظر ہوں۔ آپ نقاد کا انتظار کیجئے جو 11-10 تک انشاء اللہ تعالیٰ شائع ہوجائے گا۔
پرچہ تیار ہے صرف بمبئی سے بلاک چھپ کر آنے کا انتظار ہے۔ آج پھر تار دیا ہے۔ خدا کیلئے مختصر خط نہ لکھا کیجئے۔ یہ مجھ پر ایسا ظلم جو کسی طرح برداشت نہیں ہوسکتا۔آخر میرے شوق کی کچھ تو رعایت ہونی چاہئے۔
’’گل نہیں تو گل کی نگہت ہی سہی‘‘
آپ کی طرح لکھنا نہیں آتا ورنہ خدا جانے کیا لکھتا۔
جان نثار ’’دلگیر‘‘
(جاری ہے)
Prev Post
Next Post