جامع مسجد راولپنڈی مجاہدین آزادی کی میزبان بھی رہی

0

دوسری و آخری قسط
احمد خلیل جازم
قدیم جامع مسجد راولپنڈی کے امام مولانا محمد اقبال رضوی کا مزید کہنا تھا کہ ’’مسجد کی تعمیر مسجد اقصیٰ کی طرز پر ہے۔ یعنی مسجد اقصیٰ کے نقشے کو سامنے رکھ کر اسے تعمیر کیا گیا۔ اس کے اندر جو نقش و نگار بنائے گئے ہیں وہ مغلیہ طرز پر ہیں۔ جبکہ اندر جو آیات، اشعار اور دیگر نام لکھے ہوئے ہیں وہ خط کوفی میں ہیں۔ یہاں مسجد کے صحن اور گیلریوں کو ملا کر اندازہ لگایا جائے تو دس ہزار سے زائد نمازیوں کی گنجائش ہے۔ رمضان المبارک میں جمعہ کے روز نہ صرف صحن اور گیلریوں میںلوگ ہوتے ہیں، بلکہ مسجد کے سامنے جو سڑک گزر رہی ہے اس پر بھی لوگوں کا ازدحام ہوتا ہے۔ راولپنڈی میں بارہ ربیع الاول کاجلوس یہاں سے شروع ہوتا ہے اور پھر یہیں آکر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ سب سے بڑا اجتماع اسی مسجد میں ہوتا ہے۔ اس مسجد میں دوبار بیت اللہ شریف کے امام تشریف لاچکے ہیں۔ ایک بار مسجد نبوی کے امام صاحب بھی آچکے ہیں۔ اسی طرح فلسطین کی ایک مسجد کے امام صاحب بھی یہاں تشریف لاچکے ہیں۔‘‘ مسجد کی تعمیر کے حوالے سے مولانا کا بتانا تھا کہ ’’دال مسور کو ابلتے پانی میں ڈال کر گرم کیا جاتا اور جب وہ لیس دار بن جاتی تو اس میںچونا ملایا جاتا اور پھر بھٹوں سے اینٹوں کی گیری (اینٹوں کا چورا وغیرہ) منگوایا جاتا جسے، اینٹوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے سمیت ملا دیا جاتا۔ بعد ازاں اسی میٹریل کو دو اطراف لکڑی کے پھٹے رکھ کر دیواروں کی بھرائی کی جاتی، یوں دیواروں سمیت مسجد میں ایک بھی ثابت اینٹ کا استعمال نہیں ہوا۔ مسجد کی دیواروں کی موٹائی البتہ چار فٹ ہے جو کہ تمام اسی مسالے سے بنائی گئی ہے۔ البتہ جو بڑے پلر، بیم کھڑے کیے گئے ہیں ان میں سریے کا استعمال کیا گیا ہے۔‘‘ مسجد کی زمین کس نے فراہم کی تھی اور یہ ٹوٹل زمین کتنی ہے؟ اس سوال پر مولانا کا کہنا تھا کہ ’’یہ کم و بیش سترہ کنال پر مشتمل ہے اور ٹوٹل رقبہ آٹھ ایکٹر پر محیط ہے، جس میں مسجد کے باہر دکانیں وغیرہ بھی شامل ہیں۔ زمین کی فراہمی کے لیے آپ کو بتاتا چلوں کہ ایک بڑا خاندان تھا جو سبونڑیاں (صابن) والے کے نام سے شہرت رکھتا تھا۔ اب تو وہ لوگ دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں، ان کے صابن کے کارخانے تھے۔ وہ لوگوں کو فی سبیل اللہ صابن بھی دیا کرتے تھے۔ نہ صرف اس مسجد کی جگہ انہوں نے دی بلکہ عیدگاہ اور قبرستان کیلئے جگہ بھی مختص کی۔ جب مسجد تعمیر ہوگئی تو یہاں سب سے پہلے امام مسجدمولانا مولابخش متعین ہوئے۔ انہوں نے اٹھارہ برس یہاں خطابت کے فرائض انجام دئیے۔ ان کے بعد مولانا بہائو الحق قاسمی، جو دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل تھے۔ انہوں نے امامت فرمائی، اس کے بعد مولانا زین العابدین صاحب خطیب رہے۔ ان کے بعد کچھ عرصہ کیلئے عزیز الدین صاحب خطیب رہے۔ ان کے بعد مولانا عارف اللہ شاہ قادری خطیب رہے، آپ کا تعلق میرٹھ سے تھا۔ آپ کافی عرصہ مسجد میں خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ بعد ازاں قیام پاکستان کے بعد 1964ء میں مسجد محکمہ اوقاف کے پاس آگئی اور یہاں مولانا فیض علی فیضی خطیب مقرر ہوئے جو 32 برس یہاں خطیب رہے۔ بعد میںآنے والے خطیبوں کا اوقاف کے ریکارڈ پر تمام احوال موجود ہے۔ البتہ پاکستان بننے سے قبل کہیں امام حضرات کا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ مسجد کی تعمیر کے بعد یہاں سے ایک سالک نام کا رسالہ بھی نکالا جاتا رہا جو عارف اللہ شاہ شائع کراتے رہے، جن میں مختلف فتاویٰ وغیرہ درج ہوتے تھے اور نامور علمائے کرام کی تحریریں شائع ہوتی۔ رہی بات حافظ عبدالکریم اور پیر مہر علی شاہ والی کہ اس کا سنگ بنیاد دونوں میں سے کس نے رکھا تو اس حوالے سے عرض ہے کہ پیر مہر علی شاہ نے صرف سنگ بنیاد رکھا۔ البتہ حافظ صاحب نے اس کی تعمیر میں ضرور حصہ لیا اور ان کی نگرانی میں یہ کام ہوا۔ اس میں کوئی ایسی کنٹرورسی نہیں ہے، دونوں شخصیات ہمارے لیے بہت قابل احترام ہیں۔ لیکن چونکہ تاریخی معاملہ ہے، اس لیے اسے درست ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے ایک اور اہم بات آپ سے کرتا چلوں کہ جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت مسجد کی کمیٹی بہت متحرک تھی، جو ہندو اور سکھ یہاں سے ہندوستان چلے گئے تھے، ان کے گھروںکی چابیاں سرکاری طور پرمسجد کمیٹی کے سپرد کی گئیں ۔جو مسلمان بھارت سے ہجرت کرکے آتے، ا ن لٹے پٹے مہاجرین کو مسجد کمیٹی اور خطیب چابیاں دیتے اور وہ ان گھروں میں بحال ہوتے رہے۔‘‘ حالیہ خطیب مولانا محمد اقبال کا مزید بتانا تھا کہ ’’قیام پاکستان کے وقت مجاہدین کے لیے اس مسجد کا کردار بہت اہم رہا۔ مسجد کے ساتھ ایک کھلے گرائونڈ میں کیمپ لگایا گیا یہ گرائونڈ بعد ازاں مجاہد گرائونڈ کے نام سے جانا جاتارہا۔ وہاں پر مجاہدین آکر ٹھہرتے تھے اور ان مجاہدین کے قیام وطعام کی ذمہ داری اور دیگر تمام اخراجات مسجد کی کمیٹی کے سپرد کیے جاتے تھے۔ کمیٹی ہر حال میں ان اخراجات کو پورا کرتی، یہاں سے ان مجاہدین کو کشمیر اور دیگر علاقوں میں بھجوایا جاتا تھا، جہاں جہاں مسلمانوں کو ضرورت ہوتی یہاں سے ان مجاہدین کو مسلمانوں کی داد رسی کے لیے بھجوایا جاتا تھا۔ قیام پاکستا ن کے بعد بھی یہ مجاہد گرائونڈ کے نام سے معروف رہا، اب اس جگہ اوقاف پلازہ بنا دیا گیا ہے۔‘‘
مولانا محمد اقبال نے تاریخی واقعات بیان کیے اور مسجد کی تعمیر سے لے کر حال تک حالات و واقعات بتائے، چونکہ محکمہ اوقاف کے اس ریجن کا سب سے بڑا مرکز یہی مسجد کہلاتی ہے۔ اس لیے جہلم، چکوال، اٹک اور پنڈی اسی کے زیر نگرانی ہیں۔ یہیں سے تمام فتویٰ کی سرکاری طور پر تصدیق کی جاتی ہے۔ اسی دوران ایک عیسائی نوجوان سسکتھ روڈ سے دو لوگوں کے ہمراہ آیا اور جسے مسلمان ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا۔ مولانا نے بتایا کہ ’’اس سرٹیفکیٹ سے ہی اس نوجوان کا شناختی کارڈ تبدیل ہوگا، اور یہ سرٹیفکیٹ دیگر قانونی پیچیدگیوں میں معاون ثابت ہوگا۔‘‘ تاریخی طور پر مسجد کی تعمیر کے حوالے سے عزیز ملک اپنی کتاب راول دیس میں تفصیل بیان کرتے ہیں جس میں سے کچھ اہم نکات پیش خدمت ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ’’بیسویں صدی کے آغاز میں ہی مسلمانوں میں جماعتی شعور نے کروٹ لی اور ایک مرکزی جامع مسجد کی تعمیر کا خیال آیا۔ شہر اور چھائونی میں یوں تو سو کے قریب چھوٹی بڑی مساجد موجود تھیں، لیکن مرکزی جامع مسجد کی کمی بہت بڑی محرومی تھی۔ آخر مسلمانوں نے مرکزی جامع مسجد کے لیے موجودہ جگہ حاصل کی، یہاں ان دنوں گہراگڑھا ہوتا تھا برسات کے دنوں میں عقبی نالے کا پانی اچھل کر گڑھے میں آگرتا۔ گڑھے کے عقب میں ہندئووں کا مندر تھا، وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس سے متصل مسجد بنے۔ چنانچہ مخالفت شروع ہوگئی۔ آس پاس تمام جائیدادیں سکھو ںکی تھیں وہ بھی ہمنوا بن گئے۔ لیکن میاں قطب الدین اور میاں نبی بخش دو مقتدر مسلمان شہر میں ایسے تھے جنہیں ہندو تو کیا انگریز کی بھی پروا نہیں تھی۔ انہوں نے تعمیر مسجد پر کمر باندھی۔ مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا، بنیادیں اٹھانے کے بعدگڑھے کو جو نو (9) فٹ گہرا تھا برابر کیا گیا، یہ 1903ء کا واقعہ ہے۔ مسجد کی تعمیر کے لیے چندہ کی فراہمی انتہائی دشوار مرحلہ تھا، تعمیر کمیٹی تشکیل ہوئی۔ قاضی سراج الدین بیرسٹر مرحوم اور دوسرے اکابرین شہر کی کوششوں سے پنجاب گیر پیمانے پر اپیل ہوئی اور اس کا خاطر خواہ نتیجہ نکلا۔ پشاور کے کریم بخش سیٹھی مرحوم نے ایک لاکھ روپیہ تعمیر فنڈ میں دیا، کہتے ہیں یہ رقم صرف برآمدہ کی تعمیرمیں صرف ہوئی۔ لیکن نادار مسلمانوں کے اس شہر میںجس جوش و خروش سے متوسط اور نچلے طبقے کے لوگوں نے مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا وہ قومی تاریخ کا درخشاں باب اور ملی احساس کی معراج ہے۔ جگہ جگہ سربمہر صندوق رکھوائے گئے، چھوٹے چھوٹے بچے اپنا جیب خرچ ان میں ڈال دیتے۔ مستورات چھلے انگوٹھیاں چپکے سے چھوڑ دیتیں۔ جمعرات کو تعمیر کمیٹی کے دفتر میں ہر گھر سے آٹے کی ایک ایک تھیلی آتی، سنا ہے مضافات سے لوگ لکڑیاں اور اپلے لاد کر لاتے اور تعمیر فنڈ میں جمع کراتے۔ رات کے وقت پردہ نشین خواتین تعمیر میں اپنے بھائیوں کا ہاتھ بٹانے کے لیے آتیں۔ موضع قاضیاں تحصیل گوجر خان کے ایک ریٹائرڈ تحصیل دار قاضی گوہر دین مرحوم مسجد کی تعمیر کے سلسلے میں والہانہ ذوق و شوق کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور سانجھ سویرے دو تین رضاکاروںکو لے کر نکلتے۔ شہر اور صدر کے علاقے میں مسلمانوں کے گھروں پر دستک دیتے اور غیرت دلا دلا کر چندہ اور آٹا اکٹھا کرتے۔ مسجد کے معماروں میں عبدالعزیز فطرت کے والدجناب غلام نبی کامل بھی شامل تھے۔‘‘
مسجد کا فن تعمیر دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا کہ مسلمانوںنے کس جوش و خروش کے ساتھ اس میںحصہ لیا ہوگا۔ آج اس ملی ورثہ کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ محکمہ اوقاف اس کی تزئین و آرائش پر تو ضرور توجہ دے رہا ہے لیکن اتنی بڑی مسجد کی تزئین و آرائش کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے ورنہ یہ ورثہ اپنا حسن کھو دے گا۔
کانگریس، ترنمول کانگریس، سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی سمیت جنوبی ہند کی متعدد جماعتوں نے الیکشن کمیشن کی الیکٹرونک ووٹرز مشینوں کی اہلیت پر سنجیدہ سوالات اُٹھائے تھے، جس میں یہ دعویٰ بھی پایہ ثبوت کو پہنچ چکا تھا کہ الیکشن کے روز الیکٹرونک ووٹرز مشین میں کسی بھی امیدوار کے انتخابی نشان پر انگلی رکھنے پر ووٹ صرف بی جے پی کے انتخابی نشان ’’کنول کے پھول‘‘ کو جاتا تھا۔ لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کی جیب کی گھڑی بن جانے والے الیکشن کمیشن آف انڈیا نے یہ کہہ کر جان چھڑالی تھی کہ ایسا خلل صرف چند مشینوں میں پایا گیا تھا، جس کو انتخابی عمل سے ہٹا لیا گیا ہے۔ مودی کی جھوٹی جیت کا بھانڈا پھوڑنے کیلئے لندن میں پریس کانفرنس کرنے والے سید شجاع بھارت میں الیکٹرونک ووٹرز مشین بنانے والے سرکاری ادارے ’’الیکٹرونک کارپوریشن آف انڈیا لمیٹڈ‘‘ کے سابق اعلیٰ افسر ہیں۔ 2014ء کے الیکشن کے فوری بعد انہوں نے الیکٹرونک ووٹر مشینوں میں ’’ملٹری گریڈ ہارڈ ویئرز‘‘ کی تنصیب اور اس کا کنٹرول بھارتیہ جنتا پارٹی کو دیئے جانے پر اعلیٰ کمانڈ سے احتجاج کیا تو ان کو جان سے مارنے کی سازشیں کی گئیں، جس سے پریشان ہوکر وہ امریکہ فرار ہوگئے۔ جہاں انہوں نے سیاسی پناہ کی درخواست دے کر پہلے اپنی جان کی حفاظت یقینی بنائی اور گزشتہ ماہ جب سید شجاع کو امریکہ میں سیاسی پناہ مل گئی تو انہوں نے لندن آکر پریس کانفرنس میں 2014ء کے الیکشن میں بی جے پی کی فتح کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ باضمیر سابق سرکاری افسر سید شجاع کی جانب سے اس انکشاف کے بعد ترنمول کانگریس کی سربراہ اور ریاست بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنر جی نے شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب پتا چلا کہ بیلٹ پیپر کی جگہ مودی حکومت ہر ریاستی الیکشن میں الیکٹرونک ووٹر مشین کوکیوں ترجیح دے رہی تھی۔ اس ضمن میں ممتابنر جی نے سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن سے فوری ایکشن کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اگلے عام انتخابات میں ووٹر مشینوں کے بجائے بیلٹ کا طریقہ کار اپنایا جائے۔ جبکہ سماج وادی پارٹی کے سربراہ ایکھلیش یادیو سمیت دلتوں کی نمائندہ جماعت بہوجن سماج پارٹی کی مایا وتی نے بھی اس سلسلے میں عدالتی انکوائری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جمہوری نظام بچانے کیلئے تحقیقات کی جائیں۔
ادھر ممبئی میں ایک دھماکہ خیز پریس کانفرنس میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقتول رہنما گوپی ناتھ منڈے کے بھتیجے اور نیشنلسٹ پارٹی کے رہنما دھنان جے منڈے نے کہا ہے کہ مودی حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان کے چچا کے پراسرار قتل کی تحقیقات کرائے۔ انہوں نے بھارتی انٹیلی جنس ’’را‘‘ سمیت سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ سے بھی مطالبہ کیا کہ گوپی ناتھ منڈے کی ہلاکت کو اول روز سے قتل کہا جارہا ہے، جس کی تحقیقات بہت ضروری ہیں۔ واضح رہے کہ ’’امت‘‘ نے آٹھ جون 2014ء کو اپنی اشاعت میں بھارتی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے بتایا تھا کہ گوپی ناتھ منڈے ایک مقبول رہنما تھے۔ لیکن ان کو نچلی ذات کے سبب قتل کردیا گیا۔ اس حوالے سے لندن میں کی جانے والی پریس کانفرنس میں بھارتی آئی ٹی ایکسپرٹ سید شجا ع نے مزید تفصیلات دی ہیں کہ گوپی ناتھ منڈے الیکٹرونک ووٹنگ مشین کی بابت تمام راز جان چکے تھے اور شیوسینا کے دوستوں کے ساتھ اس معاملے پر گفتگو کرنے والے تھے کہ ان کو ایک پراسرار حادثے میں ٹھکانے لگا دیا گیا۔ لندن میں انٹرنیشنل پریس ایسوسی ایشن اور انڈین جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے تعاون سے کی جانے والی دھماکا خیز پریس کانفرنس میں سید شجاع نے بھارتی الیکشن کمیشن کو یہ بھی چیلنج کیا ہے کہ وہ جب چاہیں یہ دکھا سکتے ہیں کہ بھارت میں تیار کی جانے والی الیکٹرونک ووٹرز مشینوں کو ہیک کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ ان کو ڈیزائن ہی دو نمبر الیکشن کیلئے کیا گیا ہے۔ سید شجاع نے بتایا ہے کہ بھارتی میڈیا بکائو مال ہے، جس نے ان کی باتوں کو اہمیت نہیں دی۔ تاہم جب ان کی جان کے لالے پڑ گئے تو انہوں نے امریکہ آکر سیاسی پناہ کی درخواست دی اور امریکی حکام کے طلب کرنے پر انہوں نے الیکٹرونک ووٹرز مشینوں کی ہیکنگ کی معلومات اور ثبوت و شواہد فراہم کئے، جس کی بنیاد پر ان کو سیاسی پناہ دی گئی ہے۔ سید شجاع نے بتایا ہے کہ اب عام آدمی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، سماج وادی پارٹی اور کانگریس سمیت تمام پارٹیاں متفق ہیں کہ آئندہ الیکشن مینوئل بیلٹ طریقہ کار پر ہونا چاہئے، کیونکہ اس میں دھاندلی چیک کی جاسکتی ہے، لیکن الیکٹرونک ووٹرز مشینوں میں کوئی جانچ نہیں کرسکتا۔ سید شجاع نے بتایا کہ جب انہوں نے الیکٹرونک ووٹنگ مشینوں کا جائزہ لیا تو انکشاف ہوا کہ ان میں ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر دونوں میں رد و بدل کیا گیا تھا، جس کا بھارتیہ جنتا پارٹی کو اچھی طرح علم تھا کیونکہ بی جے پی ہر قیمت پر 2014ء کا الیکشن جیتنا چاہتی تھی۔ بی جے پی کی اعلیٰ قیادت نے
اُتر پردیش، مدھیہ پردیش، گجرات، راجستھان، دہلی اور چھتیس گڑھ میں منظم انداز میں الیکٹرونک مشینوں کو اپنے ہیکرز کی مدد سے ہیک کیا اور ان ریاستوں کی تقریباً 200 نشستوں پر ڈاکہ مار کر جھوٹی فتح حاصل کی تھی۔ ادھر سید شجاع کے سنگین انکشاف پر وزیراعظم مودی بالکل خاموش ہیں۔ لیکن الیکشن کمیشن سید شجاع کو کروڑوں ہرجانے کا نوٹس بھیجنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ واضح رہے کہ لندن کی یہ پریس کانفرنس انڈین جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے تحت منعقد کرائی گئی تھی جس میں بتایا گیا ہے کہ مقتول بھارتی صحافی گوری لنکیش الیکٹرونک ووٹرز مشینوں کے بارے میں ایک مفصل رپورٹ تیار کر رہی تھیں اور یہ بات بھارتی حکومت اور الیکشن کمیشن کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ انہوں نے ووٹرز مشینوں کے بارے میں ایک سوال کی عرضی آر ٹی آئی کے تحت جمع کرائی تھی، جس میں انہوں نے معلوم کیا تھا کہ الیکشن کمیشن بتائے کہ الیکٹرونک ووٹرز مشینوں کا کیبل اور سافٹ ویئر کون سی کمپنی بناتی ہے۔ لیکن ان کی جانب سے عرضی جمع کراتے ہی ان کو قتل کرا دیا گیا۔ واضح رہے کہ گوری لنکیش کے قتل کا مرکزی کردار بی جے پی اور آر ایس ایس کے مقامی عہدیدار ہیں اور گرفتار کئے جاچکے ہیں۔ آئی ٹی ایکسپرٹ سید شجاع نے بتایا ہے کہ الیکٹرونک ووٹرز مشینوں کی ہیکنگ کے عمل میں مودی کے قریبی دوست مکیش انبانی کی ریلائنس کمپنی کا کردار ہے، جس نے بی جے پی کو لو فریکوئنسی لنک دے کر ہیکنگ میں مدد دلوائی تھی، اس کیلئے مختلف ریاستوں می بی جے پی نے 9 مراکز بنائے تھے، جہاں کام کرنے والے افراد دکھاوے کیلئے ڈیٹا انٹری آپریٹرز مقرر کئے گئے تھے۔ لیکن وہ بی جے پی کے ہیکرز تھے، جو الیکشن نتائج اور الیکٹرونک ووٹرز مشینوں کے کام میں چھیڑ چھاڑ کررہے تھے ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More