عمران خان
ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کراچی میں اسمگلنگ اور ٹیکس چوری کے اسکینڈل کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ ایکسپورٹ پروسسنگ زون میں قائم کمپنیوں کو لاعلم رکھ کر ان کے ناموں پر سامان کی درآمد کی این او سی جاری کرکے چھالیہ اسمگل کرائی جاتی رہی ہے۔ اسمگلنگ کیلئے ایک ہی نمبر کے دو دو کنٹینرز استعمال کئے جاتے رہے۔ ایک کنٹینر میں اسمگلنگ کا سامان ایکسپورٹ پروسیسنگ زون سے باہر نکال کر مقامی مارکیٹ میں سپلائی کیا جاتا تھا اور اسی نمبر کے دوسرے کنٹینر میں کباڑ بھر پر اس کو برآمد کرکے خانہ پری کی جاتی تھی۔ اس دھندے کیلئے رجسٹریشن نمبر TLE-027،JT-5103 اور JU1690 کے ٹرالر استعمال کئے جاتے رہے۔ ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کے ذرائع کے مطابق جعلسازی کیلئے قائم کردہ کمپنیوں کے ذریعے گزشتہ 8 برسوں سے یہ دھندا کیا جا رہا تھا اور ریکارڈ کے مطابق ان کمپنیوں کے نام پر اس دوران ایکسپورٹ کے سامان سے لدے ہوئے 85 کنٹینرز کی اسمگلنگ کی گئی۔ حیرت انگیز طور پر سیکورٹی انچارج کی جانب سے ہر کنٹینر کے زون میں داخلے اور باہر نکلنے کی رجسٹر میں انٹری کی جاتی رہی۔ تاہم فزیکلی یہ کنٹینرز نہ تو زون میں آئے اور نہ ہی باہر گئے، بلکہ بندرگاہ سے آنے کے بعد باہر ہی سے دیگر گوداموں میں منتقل کئے جاتے رہے، جہاں سے انہیں مقامی مارکیٹ یعنی ٹیرف ایریا میں سپلائی کیا جاتا رہا۔
ایکسپورٹ پروسسنگ زون اتھارٹی کراچی کے سیکورٹی ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایکسپورٹ پروسسنگ زون میں جی بی گلوبل اور پائیونیر کے نام سے قائم دو کمپنیوں کے حوالے سے 8 برس قبل زون کی انٹیلی جنس سیکورٹی کی جانب سے مشکوک سرگرمیوں اور جعلسازی کی رپورٹ متعلقہ حکام کو دیدی گئی تھی۔ تاہم اس اطلاع پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور یہ کمپنیاں آزادانہ کام کرتی رہیں۔ ذرائع کے بقول متعلقہ افسران نے اس فراڈ سے چشم پوشی کرکے جعل سازوں کو قومی خزانے کو کروڑوں کا نقصان پہنچانے کا بھرپور موقع فراہم کیا ۔
ذرائع کے بقول ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کراچی میں کمپنیوں کے مالکان، منیجرز، ٹھیکیداروں اور کباڑیوں پر مشتمل اسمگلنگ اور ٹیکس چوری کے نیٹ ورک کے خلاف تحقیقات میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ کسٹم اپریزمنٹ ایسٹ کی ٹیم نے دو ہفتے قبل ثبوت اور شواہد سامنے آنے پر ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کے شعبہ فنانس کے 20 گریڈ کے افسر مشتاق لغاری کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کیا۔ کسٹم کے معتبر ذرائع کے مطابق اس اسکینڈل کی تحقیقات میں اہم حقائق کسٹم کے تفتیشی افسران کے سامنے آچکے ہیں، جن کے مطابق ایکسپورٹ پروسیسنگ زون اتھارٹی کراچی میں قائم کردہ کمپنیوں کے نام پر ممنوعہ اشیا کی اسمگلنگ اور ٹیکس چوری کیلئے جعلسازی اور دھوکہ دہی کی تمام حدیں پار کی گئیں۔ اسمگلنگ کا سامان منگوانے کیلئے زون میں قائم ایسی کمپنیوں کے کوائف اور دستاویزات استعمال کئے جاتے رہے جن کے مالکان اور انتظامیہ کو علم ہی نہیں ہوتا تھا کہ ان کی کمپنیوں کے نام پر بیرون ملک سے سامان منگوایا جارہا ہے۔ اس کیلئے ایسی کمپنیوں کے کوائف اور دستاویزات کے علاوہ ایکسپورٹ پروسیسنگ زون اتھارٹی کراچی سے این او سی ادارے کے متعلقہ افسران کو بھاری رشوت دے کر لی جاتی تھی۔ کیونکہ ایکسپورٹ پروسیسنگ زون میں قائم 300 کے لگ بھگ صنعتی یونٹوں میں سے جو بھی کمپنی بیرون ملک سے خام مال منگواتی ہے، اس کو ہر کھیپ کے لئے ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کے شعبہ فیسلی ایشن کے افسران سے این او سی درکار ہوتی ہے۔ اس این او سی پر ہی ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کیلئے آنے والے سامان کے کنٹینرز کو بندرگاہوں سے کلیئرنس ملتی ہے۔
ذرائع کے مطابق یہ اسکینڈل اس وقت سامنے آیا، جب چند ماہ قبل ایکسپورٹ پروسیسنگ زون میں قائم ہیڈز انڈسٹریز نامی کمپنی کی جانب سے حکام کو آگاہ کیا گیا کہ ان کے نا م پر امریکہ سے سے پرانے کپڑوں کی کھیپ منگوائی گئی ہے۔ جبکہ کمپنی کی جانب سے ایسی کسی کھیپ کا آرڈر نہیں دیا گیا تھا۔ جس وقت مذکورہ کمپنی کی انتظامیہ نے حکام کو مطلع کیا، اس وقت اس کھیپ کی جانچ پڑتال جاری تھی اور تین روز بعد ہی اس کو کلیرکیا جانا تھا۔ ذرائع کے بقول اگر کمپنی حکام کو آگاہ نہ کرتی تو کسٹم کے ملوث افسران اسمگلروں کی معاونت کرتے ہوئے کھیپ کلیئر کردیتے۔ تاہم یہ کھیپ پکڑے جانے پر اس میں سے سینکڑوں ٹن مضر صحت چھالیہ برآمد ہوئی، جو لنڈا کے کپڑوں کی آڑ میں اسمگل کی جا رہی تھی۔ اس پر مزید تحقیقات ہوئیں تو معلوم ہوا کہ اس کھیپ کا بل لیڈن دبئی سے شایان نامی شخص نے کراچی کے رہائشی عاکف نامی شخص کے پتے پر بھیجا تھا۔ مزید تحقیقات میں معلوم ہوا کہ عاکف ولد عارف ایک اور ساتھی فہد کے ساتھ ملکر اسمگلنگ کا نیٹ ورک چلا رہا تھا، جس کیلئے انہوں نے ایکسپورٹ پروسیسنگ زون میں جی بی گلوبل اور پائیونیر کے نام سے دو کمپنیاں قائم کر رکھی تھیں۔ ذرائع کے بقول ایکسپورٹ پروسیسنگ زون میں قائم صنعتی یونٹس میں چونکہ ایکسپورٹ کے سامان کی مینوفیکچرنگ ہوتی ہے۔ اس لئے ان کی جانب سے بیرون ملک سے منگوائے گئے خام مال پر انہیں ٹیکس میں چھوٹ ملتی ہے۔ تاہم اس خام مال سے تیار ہونے والا سامان ہر صورت برآمد کرنا ہوتا ہے۔ یہ سامان مقامی مارکیٹ میں فروخت نہیں ہوسکتا۔ اگر ایسا ہو تو یہ اسمگلنگ اور ٹیکس چوری کے زمرے میں آتا ہے۔ ذرائع کے بقول مذکورہ بالا دونوں کمپنیوں کے نام پر بیرون ملک سے خام مال منگوانے کے بعد اس سے تیار اشیا برآمد کرتے وقت ایک ہی نمبر کے دو کنٹینر استعمال کئے جاتے تھے، ایک کنٹینرمیں مس ڈکلریشن کے ذریعے اسمگل کردہ سامان کو بھر کر مقامی مارکیٹ میں سپلائی کردیا جاتا تھا اور دوسرے کنٹینر میں کباڑ بھر کر اس کو کمپنی میں تیار کردہ سامان ظاہر کرکے برآمد کرنے کیلئے روانہ کردیا جاتا تھا۔ کسٹم ذرائع کے مطابق اس پورے معاملے میں ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کے ملوث افسران کا کردار اہم ہوتا تھا۔ کیونکہ اس کا تمام دارومدار زون کی جانب سے جاری کردہ این او سیز پر ہی ہوتا ہے۔ ذرائع کے بقول مذکورہ اسکینڈل سامنے آنے کے بعد ابتدائی طور پر کسٹم ایسٹ کی جس ٹیم کو تحقیقات کی ذمے داری دی گئی تھی، اس ٹیم کی ناکامی کے بعد حالیہ عرصے میں اس پر نئی ٹیم تعینات کی گئی، جس میں اشفاق الرحمن اور ملک ہاشم شامل ہیں۔ انہیں کلکٹر سعید اکرم کی جانب سے ٹاسک دیا گیا، جس کے بعد اہم ملزم مشتاق لغاری کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ اس سے قبل مرکزی ملزم عاکف کو گزشتہ نومبر میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا، جب اس نے کسٹم حکام کو دھوکہ دینے کیلئے دبئی کے دو ٹکٹ بک کروائے، تاکہ گرفتاری پر مامور کسٹم کی ٹیم مایوس ہوکر چلی جائے تو وہ دوسرے ٹکٹ پر دبئی فرار ہوسکے۔ تاہم بروقت معلومات ملنے پر اس کو دھر لیا گیا تھا۔٭