سدھارتھ شری واستو
برطانیہ میں خود کشی کے واقعات میں 67 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جبکہ برطانوی ماہرین اور والدین نے بچوں کی اموات کا براہ راست ذمہ دار سوشل میڈیا کو قرار دیا ہے۔ ایک برطانوی شہری آئرن رسل نے کہا ہے کہ سماجی میڈیا سائٹ انسٹا گرام اس کی جواں سال بیٹی مولی (molli) کی خود کشی کا ذمہ دار ہے، جس نے اس کیلئے ایسے فوٹو اور مواد مہیا کیا، جس میں خود کشی اور خود کو نقصان پہنچا کر دوسروں کو پیغامات دینے کے اشارے ملتے تھے۔ برطانوی میڈیا سے گفتگو میں مسٹر رسل کا کہنا تھا کہ کچے اذہان کے حامل بچوں کیلئے سوشل میڈیا سائٹس کے استعمال کے قوانین لاگو کئے جانے چاہئیں اور ایسی سہولیات فراہم کرنے والی کمپنیوں کا مواخذہ بھی کیا جانا چاہئے جس کی وجہ سے یورپی ممالک میں نوجوانوں اور بالخصوص نابالغ طلبا و طالبات میں خود کشی کا عنصر تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ مسٹر رسل نے کہا ’’میں اس بارے میں سو فیصد یقین رکھتا ہوں کہ انسٹاگرام کی تصاویر نے میری بیٹی کو خود کشی کی جانب مائل کیا اور یہ نوجوانوں میں خود کو نقصان پہنچانے کے جذبات کو اُجاگر کررہا ہے، جس کی باقاعدہ تحقیقات کی جانی چاہئیں‘‘۔ واضح رہے کہ چودہ برس کی طالبہ مولی نے اپنی خود کشی سے قبل لکھے جانے والے نوٹ میں بھی تسلیم کیا ہے کہ وہ انسٹاگرام کی بعض تصاویر اور جذبات ابھارنے والی پوسٹ سے متاثر ہوئی۔ مولی نے خود کو کمرے میں پھانسی دے کر موت کو گلے لگایا ہے، جس پر عالمی افق پر سوشل سائٹس کے کردار پر بحث ہو رہی ہے۔ مولی کی والدہ کا بھی کہنا ہے کہ سماجی رابطوں کی سائٹس پر بچوں کے وزٹ کو نگاہوں میں رکھا جانا چاہئے۔ کیوں کہ لاکھوں ایسی پوسٹیں موجود ہیں جو ننھے بچوں کے ذہنوں کو منتشر کر رہی ہیں۔ جب مولی نے خود کشی کی اور ہم نے اس کا انسٹا گرام اکائونٹ دیکھا تو ہمیں علم ہوا کہ وہ ایسی تصاویر دیکھتی تھی جو خود کوجسمانی نقصان پہنچانے اور یاسیت کے گڑھے میں گرنے کے حوالے سے تھیں۔ دوسری جانب چودہ سالہ طالبہ مولی کی موت کے بعد انسٹا گرام کی انتظامیہ نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ یورپی بچوں میں خود کشی سے روکنے کیلئے کام کرنے والی تنظیم پاپائرس کے سرگرم رکن جین فلائن کا ماننا ہے کہ سوشل سائٹس بچوں کے ذہنوں پر بہت منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں اور ان پر یاسیت پھیلانے اور بسا اوقات خود کشی پر مائل کرنے کا تصویری مواد بھی فراہم کرتی ہیں۔ یہ معاشرے اور اس میں موجود کچے ذہنوں اور چھوٹی عمروں کیلئے بہت ضرر رساں معاملہ ہے۔ اس سے بچوں کی ذہنی صحت برباد ہو رہی ہے اور نتیجہ ا ن کی خود کشیوں اور اموات کی صورت نکل رہا ہے۔ معروف برطانوی جریدے اینڈی پینڈنٹ نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ انگلینڈ اور ویلز کا جائزہ لیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ 2010ء کی نسبت 2018ء تک نوجوانوں اور نابالغوں میں خود کشی کے واقعات میں 67 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ سماجی اور سماجی سائٹس کے برطانوی ماہرین نے نابالغوں کی اموات کا براہ راست ذمہ دار سوشل میڈیا کو قرار دیا ہے کہ اس میں طلبا و طالبات اور نوجوان اپنی یاسیت اور گھریلو ڈپریشن کے سبب خود کو ناکام عاشق اور انتہائی غمزدہ محسوس کرتے ہیں اور سوشل سائٹس پر پیغامات اور تصاویر سمیت دیگر عناصر کے سبب خود کشی کرلیتے ہیں۔ کئی سماجی ماہرین نے بتایا ہے کہ خود کو دوسروں کی نسبت اچھا اور خوبصورت دکھائی دینے میں ناکام بچے یاسیت اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جبکہ سماجی رابطوں کی سائٹس پر منفی تبصروں نے بھی نوجوانوں اور بچوں میں خود کشی کے رجحانات پیدا کرنے میں مدد دی ہے۔ ڈیلی میل آن لائن کے مطابق برطانوی ہیلتھ سروس نے تصدیق کی ہے کہ سوشل سائٹس پر خود کو نقصان یا جسمانی زخم پہنچانے والی پوسٹوں کے زیر اثر زخمی ہونے والی لڑکیوں کی تعداد مسلسل تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2009ء میں خود کو جسمانی نقصان پہنچانے یا خود کشی کی کوشش کرنے والی لڑکیوں کی تعداد7,327 تھی۔ سال2017ء میں یہ تعداد 13,463 رہی۔ جبکہ اگلے سال خود کشی کی کوشش میں زخمی ہونے والی لڑکیوں کی تعداد 14,876 سے بڑھ گئی ہے۔ ادھر آسٹریلیا سے ملنے والی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ محض دو ہفتے کے مختصر دورانیے میں پانچ لڑکیوں نے خود کشی کی ہے اور اپنی خود کشیوں کا سبب سوشل سائٹس پر مخالف بچوں کے کمنٹس کو قرار دیا ہے۔ اس نئی افتاد کے بارے میں آسٹریلوی حکومت نے ماہرین کے ایک پینل کی مدد طلب کی ہے اور کہا ہے کہ سوشل سائٹس کے خود کش رجحانات کو کم کرنے کیلئے فوری تجاویز دیں۔ آسٹریلوی شہر پرتھ سے تعلق رکھنے والی اور موت کو گلے لگانے والی پانچویں لڑکی روشیل پرایور تھی۔ اس نے فیس بک (facebook) پر مخالف بچوں کے کمنٹس سے پریشان ہوکر خود کشی کی۔ اپنی اس حوالہ سے تحریر میں روشیل نے لکھا کہ ’’اگر میں اس دنیا سے چلی جائوں تو یقینا اچھا ہوگا‘‘۔ آسٹریلوی حکومت نے بچوں میں سماجی رابطوں کی سائٹس کی وجہ سے ہونے والی خود کشیوں کے واقعات کی روک تھام کیلئے www.lifeline.org.au ویب سائٹ لانچ کی ہے اور اس حوالے سے اساتذہ اور والدین کو بچوں کے رویوں پر نظریں رکھنے کیلئے کہا ہے۔ برطانوی ادارے آفس آف نیشنل اسٹیٹکس نے تصدیق کی ہے کہ 2018ء میں 192 کم سن نوجوانوں اور طلبا و طالبات نے خود کشی کرکے اپنی جانیں لے لی ہیں۔ جبکہ 2010ء میں یہی تعداد 110 تھی۔ ماہرین نے نابالغان میں خود کشیوں کے حوالے سے سوشل سائٹس کے کردار کو اہم ترین قرار دیا ہے۔ سوشل سائٹس اور خود کشی کے باہمی تال میل کے تازہ منظر نامہ پر لیبر پارٹی کی شیڈو منسٹر باربرا کیلی نے ایسے واقعات اور بچوں کی ہلاکت کو قومی اسکینڈل قرار دیا ہے، جس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ صرف لندن میں گزشتہ پانچ برسوں میں نوجوانوں میں خود کشی کا تناسب 107 فیصد بڑھ چکا ہے۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے عالمی ادارے یونیسیف نے ایک تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ آئر لینڈ دنیا بھر میں سب سے زیادہ سوشل سائٹس سے منسلک اموات والا ملک بن چکا ہے، جس سے گھبرا کر آئرش حکومت نے متعدد کمپنیوں کے ساتھ ایسے معاہدے کئے ہیں جن میں نوجوانوں کو خود کشی سے بچانے کیلئے ان کی کائونسلنگ کی خاطر متعدد سافٹ ویئر اور ایپلی کیشنز تیار کروائی ہیں۔ ان میں turn2me اور mymind.ie کو ہنگامی طور پر بنوایا گیا ہے، تاکہ بچوں میں خود کشی کے جذبات کو ابھرنے سے روکا جاسکے اور ان کو بتایا جاسکے کہ وہ اکیلے نہیں، پورا معاشرہ ان کے ساتھ کھڑا ہے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post