عمران خان
ڈائریکٹوریٹ آف کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کی اسمگلنگ کے خلاف کارروائیاں ناکام ہونے لگیں۔ ڈائریکٹوریٹ کے افسران نامعلوم وجوہات کی بنا پر کمزور کیس بنا رہے ہیں، جس کی وجہ سے اسمگلنگ میں ملوث کمپنیوں اور ملزمان کو عدالتی کارروائیوں میں فائدہ پہنچ رہا ہے۔ حالیہ کارروائیوں میں کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ڈائریکٹوریٹ کراچی کے افسران کی جانب سے بنائے گئے اسمگلنگ کے کیسوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔ جبکہ ڈائریکٹوریٹ کے افسران کی جانب سے مختلف پورٹس پر روکے گئے 100 سے زائد کنٹینرز کو عدالتوں کی جانب سے چھوڑنے کے احکامات بھی جاری کر دیئے گئے۔ اس کے باجود کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ڈائریکٹوریٹ کراچی کے افسران روایتی روش برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
کسٹم ذرائع کے بقول کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کراچی کے ڈائریکٹر فیاض انور اور ایڈیشنل ڈائریکٹر گردیزی کی ٹیم میں شامل ڈی آئی ٹی افسران کی جانب سے بنائے جانے والے کیسوں میں نامزدکردہ کمپنیوں کے حق میں فیصلے آنے لگے ہیں۔ گزشتہ روز کسٹم کی محکمہ جاتی عدالت کی جانب سے کسٹم انٹیلی جنس کی جانب سے دو ماہ قبل بنائے گئے اسمگلنگ کے ایک کیس کے فیصلے میں کسٹم افسر کی جانب سے نامزدکردہ تمام کمپنیوں کے خلاف کارروائی کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا اور کمپنیوں کے ضبط کردہ سامان کو ریلیز کرنے کے احکامات جاری کر دیئے گئے۔ اس ضمن میں حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق کسٹم حکام نے دو ماہ قبل ایک چھاپے میں ایکسپورٹ پروسسنگ زون میں اسمگلنگ کے الزامات پر چھاپہ مار کر سامان سے لدے کنٹینرز قبضے میں لئے تھے اور اس کیس میں 5 کمپنیوں کو نامزد کیا تھا۔ اس کیس پر کسٹم انٹیلی جنس افسران کا دعویٰ تھا کہ بیرون ملک سے ’’بی او پی پی فلمنگ پیکنگ پیپر‘‘ سبسڈی پر امپورٹ کر کے مقامی اوپن مارکیٹ میں فروخت کرکے مختصر عرصہ میں قومی خزانے کو 15 کروڑ روپے نقصان پہنچایا گیا۔ جس پر مذکورہ نیٹ ورک کیخلاف کارروائی کرتے ہوئے ڈائریکٹوریٹ کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کی ٹیم نے پیپر اسکریپ کی آڑ میں ایکسپورٹ پروسسنگ زون اتھارٹی سے باہر نکلنے والے 4 کنٹینرز ضبط کرلئے۔ ان میں سے ’’بی او پی پی فلمنگ پیپر‘‘ کی بھاری مقدار بر آمد کرنے کے بعد مزید 76 کنٹینرز کا اسمگلنگ کردہ سامان اسماعیل گوڈیل کے گوداموں سے بر آمد کرکے مقدمہ درج کیا گیا۔ ابتدائی تفتیش میں ایکسپورٹ پروسسنگ زون کراچی میں قائم 2 کمپنیوں میسرز یونائٹیڈ انٹر نیشنل انڈسٹریز اور میسرز ماڈرن پلاسٹک کے علاوہ ان کمپنیوں سے سامان خرید کر اوپن مارکیٹ میں فروخت کرنے والی دیگر3 کمپنیوں میسرز عتیق ٹریڈرز، مسیرز یورو پیکنگ اور شان کارپوریشن بھی سامنے آئیں۔
کسٹم انٹیلی جنس کی جانب سے یہ کیس ان اطلاعات پر تیار کیا گیا کہ ایکسپورٹ پروسسنگ زون سے تیار پیپر پروڈکٹس کی مقامی اوپن مارکیٹ میں غیر قانونی ترسیل میں ملوث یہ منظم گروہ طویل عرصے سے پیپر اسکریپ یا ردی کے کباڑ آڑ میں بی اوپی پی فلم، آف سیٹ پیپر، کاربن لیس پیپر کے علاوہ اعلیٰ کوالٹی کے پیپر کو ایکسپورٹ پروسسنگ زون کے قریب ہی لانڈھی میں قائم گودام میں ڈمپ کرنے کے بعد مارکیٹ میں سپلائی کر رہا ہے۔ اس پر ڈائریکٹر کسٹم انٹیلی جنس فیاض انور کی ہدایت پر کارروائی میں ابتدائی طورپر 4 کنٹینرز اور سید عدنان ناصر اور سرفراز نامی 2 افراد حراست میں لئے گئے۔ زیر حراست افراد سے پتہ چلا کہ کھیپ مجموعی طور پر 5 کنٹینرز پر مشتمل تھی، جو عتیق ٹریڈرز اور یورو پیکنگ نامی کمپنیوں نے شان کارپوریشن کے ذریعے کراچی ایکسپورٹ پروسسنگ زون سے یونائیٹڈ انٹر نیشنل انڈسٹریز اور ماڈرن پلاسٹک نامی کمپنیوں سے خریدی تھی۔
تحقیقات میں کسٹم انٹیلی جنس کے دعوے کے مطابق ڈپٹی کلکٹر کسٹم سے امپورٹ کا ریکارڈ حاصل کرنے پر پتہ چلا کہ کھیپ کا پانچواں کنٹینر لانڈھی کے ایک گودام میں خالی کیا گیا تھا۔ عتیق ٹریڈرز کمپنی کے مالک عتیق کے بیان سے بھی نشاندہی کئے جانے پر تفتیشی ٹیم نے پانچویں کنٹینر کیلئے ذکریا گودام پر چھاپہ مارا تو وہاں مزید 6 درجن سے زائد کنٹینرز کا سامان مل گیا۔ مزید تحقیقات میں معلوم ہوا کہ مذکورہ گودام اسماعیل گوڈیل، ذکریا گوڈیل اور عتیق گوڈیل کا ہے، جس کو یہ تینوں اپنی کمپنیوں کا سامان ڈمپ کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ تحقیقات میں یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک بھائی کراچی ایکسپورٹ پروسسنگ زون میں اپنی کمپنی کے نام پر حکومت کی جانب سے ایکسپورٹ پروسسنگ زون میں کام کرنے والی کمپنیوں کو خصوصی سرکاری رعایتی نرخوں پر بیرون ملک سے سامان امپورٹ کرتا ہے۔ جس میں انہیں کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس پر چھو ٹ ملتی ہے۔ تاہم اس کا بڑا حصہ دوسرے بھائی کی کمپنی کو کباڑ کے نام پر فروخت کر کے اوپن مارکیٹ میں فروخت کردیا جاتا ہے۔
حاصل معلومات کے مطابق جب یہ کیس کسٹم انٹیلی جنس کی تمام تر فائلوں کے ساتھ کسٹم کی محکمہ جاتی عدالت میں پیش ہوا تو کسٹم انٹیلی جنس افسران اس کیس میں اسمگلنگ ثابت نہ کر سکے اور کارروائی کے دوران کسٹم انٹیلی جنس کے افسران نے دعویٰ کیا کہ ابھی انہوں نے کمپنیوں اور ان کے سامان سے متعلق مزید دستاویز حاصل کرنی ہیں، جو ان کے پاس نہیں ہیں۔ یعنی کسٹم انٹیلی جنس افسران نے خود تصدیق کر دی کہ انہوں نے کمپنیوں کے خلاف مقدمات ادھوری معلومات اور کاغذات حاصل کئے بغیر ہی بنا ڈالے تھے۔ جب اس کارروائی کے دوران کسٹم انٹیلی جنس افسران کی نااہلی اور کمزور کیس بنانے کا پول کھلنا شروع ہوا تو کسٹم افسران نے ایکسپورٹ پروسسنگ زون کے اندر موجود ان کمپنیوں کے بجلی کے بل پیش کرنا شروع کر دیئے کہ ان کمپنیوں نے امپورٹ کردہ خام مال میں اپنی یونٹوں میں موجود مشینیں چلا کر پروڈکشن نہیں کی تھی۔ جس کا ثبوت یہ بجلی کے بل ہیں، جن میں بل بہت کم آیا ہوا ہے۔ اگر کمپنیوں میں مشینیں چلتیں تو زیادہ بل آتا۔ عجلت میں پیش کردہ یہ ثبوت بھی ناکافی قرار دیئے گئے۔ اسی کارروائی میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ کسٹم انٹیلی جنس افسران نے وزارت صنعت و تجارت کے جس ایس آر او اور اجازت نامے کو بنیاد بنا کر ان کمپنیوں کے خلاف اسمگلنگ کا کیس بنایا تھا، اسی ایس آر او کے تحت ان کمپنیوں کو امپورٹ کردہ سامان پر سبسڈی حاصل تھی۔ اور یہ بات بھی کمپنیوں کے حق میں چلی گئی۔ تاہم اس دوران کسٹم انٹلی جنس کے ڈائریکٹر اور ایڈیشنل ڈائریکٹرز کی جانب سے ماتحت افسران کو نہ تو اس کی نشاندہی کی گئی اور نہ ہی مضبوط کیس بنانے کی ہدایات دی گئیں۔
ان مقدمات کے علاوہ حالیہ دنوں میں کسٹم انٹیلی جنس کے افسر دوست محمد سمیت دیگر افسران کی جانب سے بندرگاہوں پر مختلف کمپنیوں کے 100 سے زائد کنٹینرز اسمگلنگ کی اطلاعات پر دوبارہ جانچ کے لئے روکے گئے۔ تاہم عدالت کی جانب سے جاری ہونے والے احکامات پر افسران کو یہ تمام کنٹینرز بھی چھوڑنے پڑے۔ کیونکہ ان کنٹیرز کے خلاف کارروائیوں کیلئے کسٹم انٹیلی جنس کے افسران نے قوانین کا خیال نہیں رکھا اور اپنے دائرہ کار سے تجاوز کیا، جو ادارے کی بدنامی کا سبب بن گیا۔
٭٭٭٭٭