کسٹمز حکام نے سونے کے اسمگلرز کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے

0

عمران خان
کسٹمز حکام نے سونے کے اسمگلرز کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے۔ طلائی زیورات کی برآمدات میں اضافہ کیلئے جاری کردہ رعایتی ایس آر او266(1)2001 کا غلط استعمال کرنے والی 5 کمپنیوں نے 3 ہزار 148 کلو گرام درآمدی سونے پر 7 ارب سے زائد کا ٹیکس چوری کیا۔ لیکن کسٹم کے دو شعبے پریونٹو اور کسٹم انٹیلی جنس ان سے رقم کی ریکوری میں بدستور ناکام ہیں۔ واضح رہے کہ مذکورہ کمپنیوں کے خلاف مجموعی طور پر بنائے گئے 58 مقدمات میں سامنے آنے والے شواہد کی روشنی میں کسٹم ایڈجیوری کیشن ون کسٹمز کے دونوں شعبوں کے افسران کو چوری شدہ ٹیکس وصول کرنے کے احکامات دے چکا ہے۔ اس حوالے سے تفصیلی فیصلے میں دونوں شعبوں کے افسران کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ سونا درآمد کرنے کی آڑ میں اسمگلنگ کرنے والی کمپنیوں سے چوری شدہ ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی کے ساتھ جرمانے کی مد میں بھی رقم وصول کی جائے، تاہم فروری 2018ء میں جاری اس فیصلے کے بعد 11 ماہ گزر جانے کے باوجود قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے والوں سے تاحال ٹیکس وصول نہیں کیا جاسکا۔
کسٹم ذرائع کے بقول کسٹم کے دونوں شعبوں نے نہ تو ان کمپنیوں سے چوری شدہ ٹیکس اور ڈیوٹی وصول کی ہے اور نہ ہی کمپنیوں کے اثاثے منجمد کرنے کی کارروائی کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ قوانین کے تحت اگر جرم ثابت ہونے پر کمپنیاں ریکوری کیلئے تیار نہ ہوں تو ان کے اثاثے ضبط کرنے کے علاوہ ان کے مالکان کی گرفتاری کیلئے کارروائی کی جاسکتی ہے، جس کیلئے ان کے شناختی کارڈز اور پاسپورٹ کے کوائف حاصل کرکے انہیں بلاک کرنے کے علاوہ ان کے امپورٹ اور ایکسپورٹ کے لائسنس منسوخ کرائے جاسکتے ہیں تاکہ ریکوری کیلئے راہ ہموار کی جا سکے۔
دستاویزات کے مطابق جن کمپنیوں کی جانب سے ایس آر او کا غلط استعمال کیا گیا ان میں مکہ انٹر پرائزرز، رباب کارپوریشن، شان انٹر پرائزرز، آئی کے پرائیویٹ لمیٹیڈ ور کامران انٹر پرائزرز شامل ہیں، جس میں انہیں ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ٹڈاپ) کے افسران کی مکمل سرپرستی حاصل رہی جنہوں نے ان کمپنیوں کو ایس آر او کے تحت سونا در آمد کرنے کیلئے اجازت نامے جاری کئے تھے۔
تیس ارب روپے مالیت کے سونے کی اسمگلنگ کا معمہ سلجھانے میں کسٹمز افسران رکاوٹ بن گئے۔ ناقص تفتیش کے باعث کئی برس بعد بھی اسمگلروں کا تعین نہیں کیا جا سکا۔ جبکہ ریکوری کا عمل بھی زیر التوا ہے۔ واضح رہے کہ مقدمات میں 8 تاجروں کے علاوہ کلیئرنگ ایجنٹ اور ٹڈاپ کے ڈپٹی ڈائریکٹر بھی نامزد ہیں، جنہوں نے ٹڈاپ کا لیٹر اور جعلی ای فارم استعمال کرکے معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔
دستاویزات کے مطابق کسٹم ایڈجیوری کیشن کے فیصلے کے بعد حالیہ مہینوں میں اس ریکوری کیلئے کسٹمز کے ڈائریکٹو ریٹ آف انٹرنل آڈٹ کے شعبہ کی جانب سے بھی اعتراض اٹھایا گیا ہے اور اس ضمن میں ایف بی آر ہیڈ کوارٹر اسلام آباد کو لیٹر بھی لکھا گیا ہے۔ اس پورے معاملے کی رپورٹ پر وفاقی ٹیکس محتسب نے بھی نوٹس لے لیا اور کسٹم حکام سے مکمل رپورٹ طلب کرلی گئی۔
2014ء اور 2015ء میں قائم ہونے والے ان مقدمات میں ابتدائی طور پر جعلی کمپنیاں قائم کرکے سونا اسمگل کرنے والے 8 تاجروں کے علاوہ ٹڈاپ کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر کو نامزد کیا گیا تھا۔ ان مقدمات کی تفتیش میں 2010ء سے 2012ء کے دوران ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ ایکسپورٹ پورٹ قاسم پر تعینات رہنے والے کسٹمز افسران کی فہرست طلب کی گئی تھی، تاکہ ان افسران اسمگلنگ کے مرکزی کرداروں تک پہنچا جا سکے، تاہم 2015ء سے اب تک ان میں سے ایک کسٹمز افسر کے خلاف بھی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکی۔ دستاویزات کے مطابق یہ اسکینڈل اس وقت سامنے آیا تھا جب 2014ء میں ماڈل کسٹمز کلکٹوریٹ اپریزمنٹ، پورٹ قاسم ایکسپورٹ کے کلکٹر کی جانب سے ایک کیس پکڑا گیا تھا، جس میں کئی کمپنیوں کے ذریعے جعلی ای فارم استعمال کرکے بڑی مقدار میں سونا متحدہ عرب امارات بھیجا جا رہا تھا۔ معاملے کی ابتدائی تحقیقات میں انکشاف ہوا تھا کہ یہ اسمگلنگ ٹڈاپ کی جانب سے پاکستان کی برآمدات میں اضافہ کیلئے دی جانے والی سبسڈی یعنی رعایت استعمال کر کے کی جا رہی تھی۔ اس کے ذریعے ملکی خزانے کو ٹیکس ڈیوٹی کی مد میں اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق معاملہ سامنے آنے کے بعد اس کی مزید تحقیقات کسٹمز پریونٹیو اور کسٹم کے ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کو سونپی گئی، جس میں معلوم ہوا کہ سونے کے بعض تاجروں نے ملک بھر کے سونے کے تاجروں کیلئے فرنٹ مین کا کردار ادا کرتے ہوئے ان کیلئے سونا در آمد کیا تھا۔ 2010ء میں ٹڈاپ نے ملکی برآمدات بڑھانے کیلئے ایک اسکیم متعارف کرائی تھی، جس کے تحت ان کو خصوصی رعایت دی جاتی تھی جو بیرون ملک سے خالص سونا منگواکر اسے زیورات کی شکل میں تیار کرکے واپس ایکسپورٹ کرتے تھے۔ جاری کردہ رعایتی ایس آر او266(1)2001 کے مطابق متحدہ عرب امارات سے در آمد خالص سونے کو زیورات کی شکل میں ڈھال کر 6 ماہ یعنی 180 دنوں میں واپس بر آمد کرنا ضروری تھا، جوکہ نہیں کیا گیا۔
اسکینڈل سامنے آنے کے بعد کسٹمز حکام کی جانب سے مجموعی طور پر 58 مقدمات قائم کئے گئے، جبکہ کسٹمز کے اور ٹڈاپ کے افسران کی ملی بھگت کا تعین کرنے کیلئے ایف آئی اے میں ایک مقدمہ قائم کیا گیا جس میں 8 تاجروں، کلیئرنگ ایجنٹوں کے علاوہ ٹڈاپ کے ڈپٹی ڈائریکٹر کو بھی نامزد کیا گیا۔ ان میں سے 5 تاجروں کو کسٹمز حکام نے 2015ء میں گرفتار کیا تھا۔ دوسری جانب اسکینڈل میں ملوث تاجروں کے علاوہ کسٹمز افسران کے کردار کا جائزہ لینے کیلئے ایف آئی اے کو بھی تحقیقات کا ٹاسک دیا گیا تھا، جس کے بعد ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل میں 2016ء میں مقدمہ درج کیا گیا۔ تفتیشی افسر انسپکٹر سراج پنہور نے مقدمہ میں نامزد ملزم کلیئرنگ ایجنٹ اور ٹڈاپ کے ڈپٹی ڈائریکٹر کو بھی گرفتار کیا تھا، تاہم دونوں اداروں میں پیش رفت یہیں تک محدود رہی۔
ذرائع کے مطابق قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے ملزمان کو کسٹمز افسران کی جانب سے ریلیف دیا گیا، جنہیں معلوم تھا کہ اگر ان افراد سے سخت باز پرس کے ذریعے ریکوری کی گئی تو کسٹمز کے ملی بھگت کرنے والے پردہ نشینوں کے نام بھی سامنے آسکتے ہیں، جس کی وجہ سے معاملے پر تفتیش کو اتنی طول دی گئی کہ آہستہ آہستہ اسے دبا دیا گیا جبکہ ایف آئی اے حکام کی جانب سے بھی ریکارڈ طلب کرنے کیلئے زیادہ تگ و دو نہیں کی گئی۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More