وجیہ احمد صدیقی
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے ساہیوال میں پولیس فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ذیشان کو ایڈیشنل چیف سیکریٹری پنجاب کیپٹن (ر) فضیل اختر اور آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی کی جانب سے دہشت گرد قرار دیئے جانے پر ذیشان کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات کی تفصیل مانگ لی ہے۔ چیئرمین قائمہ کمیٹی سینیٹر عبدالرحمن ملک نے کمیٹی کی جانب سے صوبائی وزارت داخلہ اور پنجاب حکومت سے 53 سوالات کئے تھے۔ جن کا عبوری جواب کمیٹی کو دیدیا گیا۔ سینیٹر عبدالرحمن ملک نے جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے تک پنجاب پولیس کے جواب کو پبلک نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس جمعہ کے روز چیئرمین سینیٹر عبدالرحمان ملک کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ جس میں سانحہ ساہیوال کے حوالے سے سینیٹر محمد جاوید عباسی کے 21 جنوری کو اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملے کے حوالے سے واقعہ کی پیش رفت کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں سیکریٹری داخلہ، ایڈیشنل چیف سیکریٹری پنجاب اور آئی جی پولیس پنجاب سے سانحے کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ حاصل کی گئی۔ کمیٹی چیئرمین سینیٹر عبدالرحمن ملک کا کہنا تھا کہ یہ ٹارگٹ کلنگ معلوم ہوتی ہے۔ اِن کائونٹر کا لفظ نہ آئین میں ہے، نہ ہی تعزیرات پاکستان میں اور نہ پولیس کے کسی قاعدے میں شامل ہے، اس حوالے سے واضح قانون بنانا پڑے گا۔ جب ایک گاڑی رک جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے سرنڈر کردیا ہے، اس کے بعد فائرنگ ذاتی انتقام اور ٹارگٹ کلنگ معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ سی ٹی ڈی کے آپریشن کے سربراہ اور ذیشان کا تعلق ایک ہی گائوں سے تھا۔ سی ٹی ڈی کا سربراہ اس علاقے کا ایس ایچ او رہ چکا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں قانون کو واضح کرنا ہوگا۔ اِن کائونٹر کے نام پر قتل برداشت نہیں ہوگا اور پولیس حراست میں قتل ہونے والے ملزم یا مجرم کا ذمہ دار وہ پولیس آفیسر قرار پائے گا جس کی تحویل میں وہ مجرم ہوگا اور اس پولیس آفیسر پر 302 کی دفعہ کے تحت مقدمہ چلے گا۔ اجلاس میں سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ ’’ہم نے تو جے آئی ٹی کی تشکیل کو مسترد کردیا تھا، اس کے بعد جے آئی ٹی کی عبوری رپورٹ پر بحث بے معنیٰ ہے۔ آئی پنجاب اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری پنجاب کی پوری کوشش تھی کہ وہ اس واقعے کو جائز قرار دیں۔ ایڈیشنل چیف سیکریٹری پنجاب نے کئی بار ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تصویروں میں صرف دو آدمی گاڑی میں نظر آرہے تھے‘‘۔ جبکہ ایڈیشنل ہوم سیکریٹری پنجاب نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ذیشان دہشت گرد تھا۔ وہ انتہائی خطرناک نیٹ ورک کا حصہ رہا ہے۔ جب گاڑی نکلی تو سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے سمجھا کہ گاڑی میں ذیشان کے نیٹ ورک کے لوگ ہیں۔ سی ٹی ڈی کا ٹارگٹ ذیشان تھا۔ قائمہ کمیٹی کی رکن سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ جب گاڑی روک دی گئی تھی تو اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے سرنڈر کر دیا تھا، تب قتل عام کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ 13 سالہ معصوم بچی کو قتل کرنے کا مقصد شواہد ختم کرنا تھا۔ سینیٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ قتل عام سخت اقدام تھا۔ اگر کسی پر شک ہو تو اس کو قتل کر دینا کہاں کا انصاف ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کمیٹی کے سامنے شواہد کے ساتھ ثابت کیا جائے کہ ذیشان دہشت گرد تھا یا نہیں۔ پولیس مقابلے کا لفظ نہ قانون میں موجود ہے اور نہ یہ طریقہ آئینی ہے۔ آئین پاکستان اور رولز میں کہیں بھی یہ نہیں ہے کہ شک کی بنا پر کسی کا بھی اِن کاؤنٹرکردیں۔ خلیل کو 13 گولیاں مارنا ثابت کرتا ہے کہ یہ سیلف ڈیفنس نہیں تھا۔ سیلف ڈیفنس میں بھی پولیس کیلئے کچھ ایس او پیز ہیں، جن پر عمل کرنا ضروری ہے۔ چادر و چار دیواری کی حرمت لازم ہے، مگر پولیس بغیر وارنٹ کے لوگوں کے گھروں میں گھس جاتی ہے۔ خلیل کے یتیم بچوں کی کفالت حکومت پنجاب کی ذمہ داری ہے۔ بچوں کا کیڈٹ کالج یا کسی نامور تعلیمی ادارے میں داخلہ کرایا جائے اور عدالت ان کیلئے قانونی سرپرست مقرر کر ے۔ جب سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے ایڈیشنل چیف سیکریٹری پنجاب کیپٹن (ر) فضیل اختر کی اس گفتگو کا حوالہ دیا کہ انہوں نے کیمرے میں صرف دو افراد دیکھے اور اس کی بنا پر ان کو قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا، تو وہ اپنے بیان سے منحرف ہوگئے۔ جبکہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کی کارروائی ریکارڈ ہورہی تھی۔ سینیٹر کلثوم پروین نے آئی جی سے سوال کیا کہ آپ نے جے آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آئے بغیر ذیشان کوکس طرح دہشت گرد قرار دے دیا۔ ہمیں اس کا ثبوت دیا جائے؟۔ آئی جی پنجاب نے کہا کہ ذیشان کا تعلق داعش سے تھا۔ اس پر سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ پہلے تو یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ داعش پاکستان میں نہیں ہے۔ اس پر آئی جی پنجاب نے طنزیہ انداز میں کہا، آپ جوک (مذاق) نہ کریں۔ یہ سن کر سینیٹر کلثوم پروین شدید برہم ہوئیں اور انہوں نے بعد میں آئی جی پنجاب کے خلاف تحریک استحقاق پیش کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمیں گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ سینیٹر عبدالرحمان ملک نے کہا کہ گوگل میپ سے اس واقعے کی ویڈیو معاوضہ دیکر حاصل کی جاسکتی ہے، جس سے اصل واقعہ سامنے آجائے گا۔ ذیشان اگر دہشت گرد تھا تو اس کا بھائی پولیس فورس میں کیسے آیا۔ یقیناً اس کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں درج ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ لوگ اس سانحے کے مجرموں کو لٹکتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سانحہ ساہیوال میں جاں بحق ہونے والے افراد کیلئے دعائے مغفرت کی گئی۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر عبدالرحمان ملک نے کہا کہ سانحہ ساہیوال بہت افسوسناک واقعہ ہے، جس نے ہر پاکستانی کو درد میں مبتلا کردیا ہے اور عوام میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹی نے اس معاملے کو 24 گھنٹے سے پہلے اٹھایا اور ایوان بالا کے اجلاس میں بھی اس کو پیش کیا۔ جس پر چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی نے معاملے کی شفاف انکوائری، بچوں کے بہتر مستقبل کے حوالے سے اقدامات اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے حوالے سے ایک رولنگ بھی دی اور ایک ہفتے میں اس حوالے سے رپورٹ فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر عبدالرحمان ملک نے کہا کہ معاملے کی چھان بین کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومت سے جہاں جہاں بات کی، اچھا تعاون کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ٹیلی فون پر بات ہوئی اور انہوں نے بھی بھرپور تعاون کیا۔ رحمان ملک نے کہا کہ سانحہ ساہیوال ایک سازش بھی ہو سکتی ہے۔ اس واقعہ کا مکمل اور ہر پہلو سے جائزہ لینا اور تفتیش کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات رونما نہ ہو۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اور ملک کی عوام سانحہ ساہیوال پر انصاف چاہتی ہے۔ قائمہ کمیٹی کے اقدامات کا نتیجہ ہے کہ سی ٹی ڈی کے 6 اہلکار فوری طور پر گرفتار کیے گئے اور اس حوالے سے ابتدائی رپورٹ بھی کمیٹی کو پیش کی گئی ہے، جس کو فی الحال ذرائع ابلاغ کو نہیں دے سکتے، تاکہ اس واقعہ میں ملوث عناصر فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹی وزارت قانون اور ایوان بالا کے لیگل ونگ سے مشاورت کر کے ایک ایسا قانون متعارف کرائے گی، جس سے ایسے واقعات کا تدارک ہو سکے۔ قائمہ کمیٹی کو سول کورٹ کے اختیارات حاصل ہیں۔ معاملے کی طے تک پہنچ کر مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ آسان نہیں ہے، یہ اداروں کو لڑانے کی سازش بھی ہو سکتی ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے اداروں کی قربانیاں قابل ستائش ہیں۔ آئی جی پولیس پنجاب نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ پوری قوم کیلئے سانحہ ساہیوال افسوسناک تھا۔ سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے غلط کام کیا اور 4 انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ خلیل کا خاندان بے گناہ تھا۔ فوری طور پر متعلقہ اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے گرفتار کرلیا گیا۔ جے آئی ٹی بنا دی گئی ہے اور غیر جانبدارانہ انکوائری کرائی جائے گی۔ سی ٹی ڈی کے سینئر افسران کو او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے تاکہ وہ شفاف انکوائری پر اثر انداز نہ ہوسکیں۔ کمیٹی کو ان کی فہرست فراہم کر دی جائے گی اور 30 دن میں قوم کے سامنے معاملے کی شفاف انکوائری رپورٹ پیش کر دی جائے گی۔ آئی جی پنجاب نے بتایا کہ سی ٹی ڈی 2015ء میں دہشت گردی کو کاؤنٹر کرنے کیلئے قائم کی گئی تھی۔ 2015ء میں 48 دہشت گردی کے واقعات ہوئے تھے جبکہ 2018ء میں صرف دو رونما ہوئے۔ سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ جب تک جے آئی ٹی کی رپورٹ نہیں آتی بہتر یہی ہے کہ معاملے کا ابھی جائزہ نہ لیا جائے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے آئی جی پنجاب سے چالان کی کاپی، انکوائری رپورٹ اور جتنے اہلکار آپریشن میں شامل تھے، ان کی کارکردگی رپورٹ طلب کرلی۔ جبکہ معاملے کی شفاف انکوائری کے حوالے سے آئی جی پنجاب اور پنجاب حکومت کو قائمہ کمیٹی کی طرف سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ انہوں نے آئی جی پولیس سے ذیشان کے دہشت گرد ہونے کے ثبوت بھی طلب کرلیے۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سیکریٹری داخلہ اعظم سلیمان خان، ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ فرح حامد خان، ایڈیشنل چیف سیکریٹری پنجاب کیپٹن (ر) فضیل اختر، آئی جی پولیس پنجاب امجد جاوید سلیمی، ڈی آئی جی پنجاب عباس احسن، ڈی پی او ساہیوال کیپٹن (ر) محمد علی یاسر اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔
٭٭٭٭٭