محمد قاسم
قطر میں افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات گزشتہ روز (جمعہ کو) بھی جاری رہے۔ افغانستان میں فوجی اڈے کے مطالبے سے امریکہ دستبردار ہو گیا۔ دونوں فریق پانچ نکات پر متفق ہوگئے ہیں۔ تاہم طالبان کے فوری طور پر کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے نکتے پر اختلاف کی وجہ سے مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہوسکا۔ جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، اس حوالے سے اتفاق رائے کیلئے کوششیں جاری تھیں اور توقع ہے کہ جلد مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا جائے گا۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق جمعہ کے روز قطر میں افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں پانچ نکاتی ایجنڈے پر بات چیت کی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جلد مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا جائے گا، جس میں چھ ماہ کے اندر افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا شروع اور جولائی 2020ء تک مکمل کرنے، افغان طالبان، امریکہ اور کابل حکومت کے درمیان قیدیوں کے تبادلے، داعش کے خلاف مشترکہ کارروائی اور انہیں افغانستان میں جگہ نہ دینے، مستقبل میں افغانستان کی سرزمین امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہ کرنے دینے، افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے اور جنگ بندی کا اعلان کیا جائے گا۔ ذرائع کے بقول فریقین میں اختلاف اس وقت ہوا جب طالبان وفد نے کابل حکومت کے ساتھ فوری طور پر مذاکرات شروع کرنے کا نکتہ مشترکہ اعلامیے میں شامل نہ کرنے پر زور دیا۔ طالبان رہنمائوں کا موقف تھا کہ افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کسی اور موقع پر شروع کی جائے گی، لیکن یہ بین الافغانی مذاکرات ہوں گے، جس کا فارمولہ حزب اسلامی کے سربراہ چھ ماہ قبل طالبان کو دے چکے ہیں۔ ان مذاکرات میں افغان حکومت کے نمائندے، افغانستان کی تمام اقوام کے نمائندے، سیاسی جماعتوں کے سربراہ اور قبائلی مشران شامل ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق بین الافغانی مذاکرات کو اعلامیہ میں شامل کرنے کے اصرار پر افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ تاہم ان اختلافات کو ختم کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور مذاکرات کے آخر میں متفقہ اعلامیہ جاری ہونے کا امکان ہے۔ جس میں امریکہ کی جانب سے آئندہ چھ ماہ میں امریکی فوج کا انخلا شروع کرنے کا اعلان کیا جائے گا۔ لیکن ایک متعین تاریخ نہیں دی جائے گی۔ بلکہ چھ مہینے کے اندر امریکی فوج کا انخلا شروع ہو گا۔ جبکہ طالبان کی جانب سے پورے افغانستان میں غیر معینہ مدت تک کیلئے جنگ بندی کا اعلان کر دیا جائے گا۔ ذرائع کے بقول مذاکرات میں اس امر پر اتفاق ہوگیا ہے کہ فوری طور پر قیدیوں کے تبادلے شروع ہوں گے، جس میں بگرام میں قید 3900 کے قریب طالبان جنگجو اور رہنمائوں سمیت افغان حکومت کی قید میں موجود سات ہزار کے قریب افغان طالبان کو رہا کر دیا جائے گا۔ جبکہ افغان طالبان کے تمام رہنمائوں کے نام بلیک لسٹ سے نکال دیئے جائیں گے اور ان پر سفری پابندی ختم ہو جائے گی۔ جبکہ طالبان کی جانب سے امریکی پروفیسر اور 30 کے قریب غیر ملکیوں سمیت تین ہزار قیدیوں کو رہا کر دیا جائے گا، جن میں اکثریت سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں اور سرکاری ملازمین کی ہے۔ طالبان فوری طور پر حملے روک دیں گے جبکہ امریکہ بھی افغانستان میں تمام آپریشن ختم کرنے کا اعلان کر دے گا۔ داعش کو ان کے زیر قبضہ علاقوں سے نکال دیا جائے گا جس میں امریکہ، طالبان کی مدد کرے گا۔ امریکہ اپنے تمام اسلحے کی فہرستیں طالبان کے حوالے کرے گا، جس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ یہ ہتھیار افغان فوج کے حوالے کر دیئے جائیں یا انہیں امریکہ واپس لے جائے۔ ذرائع کے بقول امریکہ افغانستان میں اپنے فوجی اڈے کے مطالبے سے دستبردار ہوگیا ہے اور امریکہ کو کسی اڈے کے قیام کی اجازت نہیں ہو گی۔ اعلامیہ میں یہ بات شامل کی گئی ہے کہ افغان سرزمین امریکہ اور اس کے اتحادیوں جس میں نیٹو ممالک اور بھارت شامل ہے، کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی۔ اس سے پہلے یہ مطالبہ کیا جارہا تھا افغان سرزمین کسی کے خلاف بھی استعمال نہیں کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق طالبان نے پوری دنیا کو یہ معاہدہ کرنے کی پیشکش کی ہے کہ اگر طالبان اقتدار میں آجائیں تو افغان سرزمین دنیا کے کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں کی جائے۔ کیونکہ صرف امریکی اتحادیوں یعنی یورپی ممالک کا ذکرکرنے سے دنیا کے بعض ممالک کو تشویش ہو گی کہ امریکہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے افغانستان کی سرزمین اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرسکتا ہے۔ کیونکہ گزشتہ اٹھارہ برسوں میں امریکہ نے افغانستان میں بڑے پیمانے پر اپنے حامی پیدا کر لئے ہیں، جن کے خاندانوں کو افغان فوج کے ساتھ کام کی وجہ سے امریکہ میں آباد کیا گیا ہے۔ جبکہ ان خاندانوں کے بعض اہم افراد کو بین الاقوامی این جی اوز میں کام دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق دیکھنا یہ ہے کہ قطر مذاکرات کے مشترکہ اعلامیے کی روس، چین اور ایران حمایت کرتے ہیں یا نہیں۔ کیونکہ امریکہ مکمل طور پر طالبان کو اقتدار دینے کے حق میں نہیں ہے، جس کیلئے اس نے منصوبہ بندی کرلی ہے۔ اگر طالبان نے دانشمندی سے معاہدہ نہ کیا تو ان کی اٹھارہ برس میں حاصل کردہ کامیابیاں مذاکرات کی میز پر ضائع ہوجائیںگی۔ ذرائع کے مطابق قطر میں جمعہ کے روز باضابطہ طور پر ملا عبدالغنی برادر نے مذاکرات میں افغان طالبان کی نمائندگی کی۔ انہوں نے امریکی وفد پر واضح کیا کہ امریکہ انخلا چاہتا ہے تو بتا دے اور نہیں چاہتا تو بھی صاف بات کرے۔ مذاکرات میں وقت ضائع نہیں کیا جائے گا۔ بے مقصد مذاکرات کے نتیجے میں افغانستان میں مزید بیگناہ لوگ مارے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ بے گناہ لوگوں پر بمباری کر رہا ہے۔ جبکہ طالبان نے افغان سیکورٹی اہلکاروں کے خلاف بڑی کارروائیاں شروع کردی ہیں۔ اس لئے واضح طور پر بتایا جائے کہ امریکہ کی سوچ کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات کی تین نشستوں میں ملا برادر کی شرکت اور جمعہ کے روز طالبان وفد کی قیادت کرنے سے امریکہ کو اندازہ ہو گیا کہ طالبان افغانستان میں امن معاہدہ کرنے کے حق میں ہیں۔ اسی لئے انہوں نے ملا عبدالغنی برادر کو نہ صرف نائب امیر مقرر کیا ہے بلکہ انہیں سیاسی فیصلوں کا اختیار بھی دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں افغان عوام کیلئے بڑی خوش خبری آنے والی ہے۔ واضح رہے کہ امریکی سینیٹر لینسے گراہن نے دورۂ پاکستان میں کہا تھا کہ پاکستان نے وہ کام کر دیا ہے کہ جس کی وجہ سے دنیا کو امید ہوچلی ہے کہ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات میں کم از کم غیر معینہ مدت تک جنگی بندی سمیت اہم نکات پر پیش رفت ہوجائے گی۔ ٭
٭٭٭٭٭