محمد زبیر خان
سانحہ ساہیوال میں پولیس فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ذیشان اور خلیل کے خاندان صدر مملکت اور چیئرمین سینیٹ سے ملاقات نہ کرائے جانے کے بعد مایوسی کا شکار ہیں۔ ذرائع کے مطابق حصول انصاف کی غرض سے دونوں فیملیز نے عدالت سے رجوع کرنے کیلئے وکلا سے مشاورت شروع کردی ہے۔ مقتول خلیل کے خاندان کو غیر مصدقہ اطلاعات مل رہی ہیں کہ اتوار کے روز وزیر اعظم عمران خان ان کے گھر تعزیت کیلئے آسکتے ہیں۔ تاہم ابھی تک کسی سرکاری اہلکار نے ان سے رابطہ نہیں کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ذیشان اور خلیل کو چیئرمین سینیٹ اور صدر مملکت سے ملوانے کیلئے پولیس کی جانب سے گاڑی بھیجی گئی تھی، جس پر وہ اسلام آباد پہنچے تھے۔ تاہم ان کی پارلیمنٹ ہائوس میں صدر مملک اور چیئرمین سینیٹ سے ملاقات نہیں کرائی گئی۔ بعدازاں دونوں خاندانوں کو آئی جی اسلام آباد سے ملاقات کا کہا گیا تھا۔ متوفی خلیل کے بھائی جلیل کا کہنا ہے کہ یہ کیسا انصاف ہے کہ ابھی تک ملزماں کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ مطالبات کے باوجود ہمیں ایف آئی آر کی کاپی اور پوسٹ مارٹم رپورٹ فراہم نہیں کی جارہی ہے۔
سانحہ ساہیوال میں جاں بحق ہونے والے خلیل اور ذیشان کے خاندان گزشتہ روز اسلام آباد میں چیئرمین سینیٹ اور صدر مملکت سے ملاقات میں ناکامی کے بعد اب حکومت سے مکمل طور پر مایوس ہوچکے ہیں اور انہوں نے عدالت سے رجوع کرنے کے لیے وکلا سے مشاورت شروع کردی ہے۔ دونوں فیملیز کے قریبی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ دونوں خاندانوں میں یہ سوچ پہلے سے موجود تھی کہ حکومت کی طرف سے انصاف کی امید رکھنا فضول ہے۔ تاہم اسلام آباد بلائے جانے کے باوجود صدر مملکت اور چیئرمین سینیٹ سے ملاقات نہ کرائے جانے پر وہ حکومت سے بالکل مایوس ہوگئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر دونوں خاندان لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے۔ خلیل کی فیملی کے قریبی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ہفتہ کے روز سے ان کو اطلاعات مل رہی ہیں کہ اتوار کو وزیراعظم عمران خان لاہور کا دورہ کریں گے اور اس دوران تعزیت کے لیے خلیل کے گھر بھی آئیں گے۔ متوفی خلیل کے بھائی کامران نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ایسی اطلاعات تو ملی ہیں کہ وزیراعظم اتوار کے روز ان کے گھر آئیں گے۔ لیکن ابھی تک کسی سرکاری اہلکار نے ان سے رابطہ نہیں کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ان کے پاس بتانے کو کوئی تصدیق شدہ بات نہیں ہے۔ صدر مملکت اور چیئرمین سینیٹ سے ملاقات کے حوالے سے کامران نے بتایا کہ ’’ہمیں اسلام آباد لے جانے کا واقعہ بھی عجیب تھا۔ مقامی تھانہ کوٹ لکھپت کے ایس ایس او ذوالفقار بھٹو نے ہمیں خود آکر یہ اطلاع دی تھی کہ اسلام آباد میں آپ کی صدر مملکت اور چیئرمین سینیٹ سے ملاقات کرائی جائے گی۔ وہ رات کا بڑا حصہ ہمارے پاس بیٹھ کر ہمارے بیانات لکھتے رہے تھے۔ ایس ایچ او نے کہا تھا کہ جب صدر مملکت اور چیئرمین سینیٹ سے آپ کی ملاقات کرائیں گے تو اس وقت واقعہ سے متعلق تمام تفصیلات تحریری شکل میں ان کو دیں گے۔ لیکن اسلام آباد پہنچنے کے باوجود دونوں شخصیات سے ہماری ملاقات نہیں کرائی گئی‘‘۔
متول خلیل کے بڑے بھائی جلیل نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’جب پولیس کی جانب سے طے کرلیا گیا کہ ہمیں ملاقات کیلئے اسلام آباد لے کر جانا ہے، تو مقامی پولیس نے ہمارے لیے سفید رنگ کی کرولا گاڑی بھیجی تھی۔ اس کار میں میرے ساتھ متول ذیشان کا بھائی احتشام علی اور ان کی بوڑھی والدہ اسلام آباد گئی تھیں۔ ہم تین بجے کے قریب پارلیمنٹ ہائوس پہنچے۔ ہمیں پہلے تو گیٹ سے اندر ہی نہیں جانے دیا جا رہا تھا۔ کافی بحث مباحثہ کے بعد گاڑی کو اندر لے جانے کی اجازت دیدی گئی، لیکن پھر ہمیں گاڑی سے اترنے نہیں دیا جارہا تھا۔ کافی دیر انتظار کے بعد ایک خاتون صحافی آئیں اور ہم سے پوچھا کہ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔ صدر مملکت تو کراچی چلے گئے ہیں اور چیئرمین سینیٹ بھی موجود نہیں ہیں۔ ہم وہاں سے مایوس ہوکر لوٹے تو ہمیں کہا گیا کہ آئی جی اسلام آباد سے ملاقات کرلیں۔ لیکن میں نے انکار کردیا‘‘۔ متوفی خلیل کے بھائی جلیل کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں ذلیل و رسوا کیا جارہا ہے۔ پہلے میرے بھائی کی فیملی کو دن دیہاڑے سڑک پر قتل کیا گیا۔ اب ہمیں روڈوں کے چکر لگوا کر بے عزت کیا جارہا ہے۔ یہ سلوک ناقابل برداشت ہے۔ میرے بھائی کے کیس کا کیا ہوا اور کیا ہورہا ہے، مجھے کچھ پتا نہیں۔ مجھے ابھی تک ایف آئی آر کی کاپی، پوسٹ مارٹم رپورٹ اور دیگر کاغذات بھی نہیں دیئے گئے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ ملزماں گرفتار ہیں۔ لیکن ان کو اب تک عدالت میں کیوں پیش نہیں کیا گیا‘‘۔
متوفی ذیشان علی کے بھائی احتشام علی کا ’’امت‘‘ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ’’خدا کے لیے ہمیں قربانی کا بکرا نہ بنائیں، بلکہ انصاف دیں۔ انصاف حصول کے لیے ہم اپنی جدوجد ترک نہیں کریں گے‘‘۔
٭٭٭٭٭