سدھارتھ شری واستو
ایک نئی مطالعاتی تحقیق میں ماہرین نے فیس بُک کی چور بازاری کو اُجاگر کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ فیس بک اپنے صارفین کا ڈیٹا چُرانے کا کام تو دلجمعی سے کرتی ہی ہے، لیکن اس نے ان لاکھوں انٹرنیٹ صارفین کا ڈیٹا چرانے کا بھی اہتمام کیا ہوا ہے، جو فیس بک کے صارفین نہیں ہیں۔ دراصل فیس بُک نے انٹرنیٹ پر جاسوسی کا منظم نیٹ ورک قائم کرتے ہوئے سوشل میڈیا استعمال نہ کرنے والوں کا بھی ڈیٹا اور ذاتی معلومات چرانے کی حکمت عملی اپنائی ہوئی ہے۔ ادھر ایک رپورٹ میں کینیڈین جریدے ’’وینکوور سن‘‘ نے بتایا ہے کہ اگرچہ کہ فیس بک کے مالک مارک ذخربرگ نے ایک بار پھر دعویٰ کیا ہے کہ اس کی ویب سائٹ صارفین کا ڈیٹا نہیں چراتی اور نا ہی دوسروں (عالمی انٹیلی جنس ایجنسیوں) کو فروخت کرتی ہے۔ لیکن اس وضاحت کے بالکل برعکس برطانوی جریدے ڈیلی میل نے انکشاف کیا ہے کہ فیس بُک نے دنیا بھر میں انٹرنیٹ صارفین کا ڈیٹا بھی چرانے کی بھرپور پلاننگ کر رکھی ہے، جو فیس بُک صارف نہیں ہیں اور اس مقبول سوشل سائٹ کو استعمال بھی نہیں کرتے ہیں۔ جریدے نے تحقیقی ماہرین کے حوالہ سے دعویٰ کیا ہے کہ فیس بک نے دنیا بھر کے مختلف خطوں میں سماجی حیثیت کے ساتھ کام کرنے والے متعدد ’’اینڈرائیڈ ایپلی کیشنز‘‘ کے ڈویلپرز کے ساتھ سیٹنگ کر رکھی ہے، جو اس قسم کی تمام ایپلی کیشنز کو استعمال کرنے والوں کا ذاتی اور کاروباری ڈیٹا اور دیگر تفاصیل خاموشی کے ساتھ فیس بُک کو فراہم کر رہی ہیں اور یوں فیس بُک ان افراد کا بھی ڈیٹا کامیابی کے ساتھ چُرا رہی ہے۔ عالمی تحقیق کار ادارے پرائیویسی انٹرنیشنل نے اپنی ایک چشم کشا رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ نان فیس بک یوزرز کا ڈیٹا چرانے کیلئے فیس بُک کا اپنا نیا طریقہ واردات ہے جس میں یہ مقبول سائٹ چلانے والا ادارہ متعدد اینڈرائیڈ ایپس کی مدد سے صارفین کا حساس اور ذاتی ڈیٹا چرا رہا ہے اور یہ ایپلی کیشنز فیس بُک کے ساتھ ان صارفین کا ڈیٹا شیئر کرتی ہیں۔ پرائیویسی انٹریشنل نے بتایا ہے کہ ان کی جانب سے دنیا بھر کی مقبول 34 عام اینڈرائیڈ ایپلی کیشنزکا تجزیہ کیا گیا تو یہ عقدہ کھلا کہ ان میں سے 21 ایپلی کیشنز اپنے صارفین کا ڈیٹا ان کی مرضی کے بغیر فیس بُک کو دے رہی ہیں۔ پرائیویسی انٹرنیشنل نے بتایا ہے کہ ان اکیس ایپلی کیشنز کو کھولنے والے تمام صارفین کا ڈیٹا سیکنڈوں میں فیس بک کو پہنچا دیا جاتا ہے اور اس کے استعمال کنندگان کو علم بھی نہیں ہوتا اور ان میں ایسے صارفین بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنا فیس بک اکائونٹس کبھی بنایا ہی نہیں۔ معروف برطانوی جریدے ڈیلی ایکسپریس کے مطابق فیس بک کا دست و باو بننے والی ایسی اینڈرائیڈ ایپلی کیشنز میں مقبو ل عام ایپلی کیشن TripAdvisor اور MyFitnessPal سمیت kayak اور skyscanner جیسی اکیس ایپلی کیشنز شامل ہیں، جن کے صارفین کا تمام ڈیٹا فیس بُک چُرا چکی ہے اور نئے تمام صارفین کا ڈیٹا کاپی کر رہی ہے۔ ٹیکنیکل ماہرین کا کہنا ہے کہ ان ایپلی کیشنز کو ایسے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اگر کوئی استعمال کنندہ اس کو انسٹال کرکے کھولتا ہے تو اس میں فیس بک ایس ڈی کے (فیس بک سافٹ ویئر ڈویلپر کٹ) کام کرنے لگتی ہے اور تمام ڈیٹا فیس بک کے پاس کاپی ہوجاتا ہے۔ اس نئی تحقیق پر فیس بُک کی انتظامیہ نے چُپ سادھ لی ہے اور نئی تحقیق کو غلط تک قرار نہیں دیا گیا ہے جس سے عالمی اُفق پر لاکھوں غیر فیس بک صارفین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ واضح ہے کہ ستمبر2018 میں بھی ایک بڑے سائبر حملے میں جو بظاہر ہیکروں نے کیا تھا اور پانچ کروڑ صارفین کا ذاتی ڈیٹا چرا لیا تھا، لیکن بباطن ایسی اطلاعات ملی تھیں کہ یہ ہیکرز کا ڈرامہ فیس بک کا اپنا رچایا ہوا تھا اور ہیکرز کے نام پر کی گئی کارروائی خود فیس بک کی کارستانی تھی، جس کا مقصد ماضی میں چرائے جانے والے تمام ڈیٹا اور معلومات ’’تھرڈ پارٹی‘‘ کو بیچنا تھا اور ایسے کسی بھی انکشاف کی کیفیت میں عالمی قوانین کے تحت قابل مواخذہ ہونے سے بچنے کیلئے فیس بُک یہی دعویٰ کرتی کہ یہ ڈیٹا اس نے تھرڈ پارٹی، کسی ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی سمیت اشتہاری ایجنسیوں کو بذات خود نہیں دیا، بلکہ یہ ڈیٹا تو ہیکرزکا چُرایا ہوا تھا۔ ستمبر کے حملے کے بارے میں متعدد عالمی میڈیا آئوٹ لیٹس کا کہنا ہے کہ کم از کم 9کروڑ صارفین فیس بُک سے خود بخود لاگ آؤٹ (logout) ہوئے تھے حالانکہ ان کی جانب سے خود کو لاگ آئوٹ نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن انہیں اس سائٹ کو استعمال کرنے کیلئے 25 ستمبر کو دوبارہ لاگ اِن (log in) ہونا پڑا تھا۔ اس سلسلہ میں 25 ستمبر کو ہیکروں نے view as کا آپشن استعمال کرتے ہوئے پورے 9 کروڑ صارفین کے اکائونٹس کا کنٹرول حاصل کرلیا تھا۔ واضح رہے کہ فیس بُک نے امریکا کے صدارتی انتخابات میں بھی صارفین کی اجازت کے بغیر ان کا مخصوص ڈیٹا متعلقہ اداروں کو دیا تھا لیکن صارفین اس ضمن میں بالکل بھی لا علم رکھے گئے تھے۔ جب اس سلسلہ میں نیو یارک ٹائمز اور آبزرور جیسے معروف جریدوں نے انکشاف کیا تو فیس بک نے دعویٰ کردیا کہ امریکی صدارتی انتخابات میں صارفین کا ڈیٹا امریکی امیدوار صدارت ڈونالڈ ٹرمپ کی کمپنی ’’ڈیٹا اینالائسز کمپنی‘‘ نے ان کی اجازت کے بغیر استعمال کیا تھا۔ اگر چہ کہ فیس بک نے اپنے دعویٰ میں کمپنی کا فیس بک اکائونٹ ختم کرنے کے بجائے صرف معطل کیا تھا لیکن اب تک اس کمپنی کیخلاف غیر قانونی ڈیٹا استعمال پرفیس بک نے کوئی قانونی کارروائی کرنے سے اجتناب کیا، جس سے دونوں اداروں کی ملی بھگت ظاہر ہوجاتی ہے۔ رپورٹ میں پرائیویسی انٹرنیشنل نے جن ایپلی کیشنز کو فیس بک کا جاسوس قرار دیا ہے ان میں ٹرپ ایڈوائزر، مائی فٹنس پال، کیاک، اسکائی اسکینر، قبلہ کینکٹ، پیریڈ ٹریکر کلیو، مائی ٹاکنگ ٹام اور اِنڈیڈ جیسی اکیس سائیٹس شامل ہیں۔ اس سلسلہ میں پرائیویسی انٹرنیشنل کا ماننا ہے کہ فیس بُک کے ایجنٹس یا جاسوس کا کام کرنے والی یہ وہ ایپلی کیشنز ہیں جن کا تجزیہ کیا جاچکا ہے اور ممکن ہے کہ ایسی ایپلی کیشنز کی تعداد سینکڑوں میں یا ہزاروں میں ہو جو صارفین کی جاسوسی تھرڈ پارٹی کی شکل میں کر رہی ہیں اور پل پل کا ڈیٹا فیس بک کو یا کسی بھی ملک کی انٹیلی جنس کو پہنچا رہی ہیں۔
٭٭٭٭٭
Next Post