احمد خلیل جازم
پہلی قسط
ہل راولپنڈی سے کم و بیش 20 کلومیٹر کے فاصلے پر کری شہر واقع ہے، جسے کسی زمانے میں کوری بھی کہا جاتا تھا۔ یہ شہر اب اسلام آباد کا حصہ کہلاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس شہر کی تاریخ تین سے چار ہزار برس پرانی ہے۔ ٹیکسلا کے بعد یہ وہ تاریخی شہر ہے، جو خطۂ پوٹھوہار کی گود میں پروان چڑھا۔ اس شہر میں ایک جامع مسجد موجود ہے، جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ 198ہجری میں تعمیر کی گئی۔ اسے ایک ایرانی تاجر نے تعمیر کرایا تھا۔ اس وقت سے آج تک اس مسجد نے زمانے کے بے شمار اتار چڑھائو دیکھے، لیکن حکم خداوندی کے تحت آج بھی قائم ہے اور مرکزی و قدیمی جامع مسجد کہلاتی ہے۔ کری شہر ماضی میں جس قدر گنجان آباد تھا، موجودہ دور میں راولپنڈی کے بغل میں اسی قدر سمٹا ہوا، ایک دیہات کی صورت موجود ہے۔ کری ایک زمانے تک کھنڈرات کی صورت میں موجود رہا۔ بھلا ہو ایک معروف نجی ہائوسنگ سوسائٹی کا جس نے اس کے قرب و جوار میں رہائشی کالونی کی بنیاد رکھی۔ یوں لوگوں کا رجحان کری شہر کی جانب ہوا۔ اس تاریخی شہر میں تین مساجد ہیں۔ مذکورہ مسجد تک پہنچنے کا راستہ چھوٹی اور تنگ گلیوں سے ہوکر جاتا ہے۔ جبکہ باقی دو مساجد جن کے مینار دور سے دکھائی دیتے ہیں، کھلی سڑک پر واقع ہیں۔
جس وقت ’’امت‘‘ کی ٹیم مرکزی و قدیمی جامع مسجد پہنچی، نماز ظہر ہوچکی تھی۔ اکا دکا نمازی مسجد میں موجود تھے۔ مسجد کا گیٹ نیلے رنگ کی خوبصورت مینا کاری کا شاہکار تھا، جس کے ماتھے پر ’’مرکزی و قدیمی جامع مسجدکوری شہر قائم 198 ہجری‘‘ درج تھا۔ مسجد کے دروازے کے دونوں طرف دیواروں پر پیلا رنگ کیا گیا تھا، جبکہ مسجد کے بائیں جانب ایک قدیم خالی کمرہ تھا جس کا چھوٹا سا دروازہ اس وقت بند تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ کمرہ بھی مسجد کا حصہ ہے۔ مسجد کا ایک ہی گنبد ہے جس کی تصویر کشی کی کوشش کی گئی، لیکن سامنے کھیتوں کی موجودگی سے ممکن نہ ہوا۔ کیونکہ یہ کھیت مسجد سے گہرائی میں تھے اور مسجد اونچائی پر واقع تھی۔ گنبد کے اوپر برگد کا قدیم درخت تھا، جس نے مسجد پر چھائوں کر رکھی تھی۔ اس کے بیرونی دروازے کے عین سامنے بجلی کا کھمبا یوں نصب تھا جیسے دربان کھڑا ہو۔ اس وقت مسجد میں جس شخص سے ملاقات ہوئی، اس کا نام عمر فاروق تھا۔ اس سے جب امام مسجد کا معلوم کیا تو اس نے بتایا ’’اس مسجد کا کوئی مستقل امام نہیں۔ نماز پنجگانہ البتہ باجماعت ادا ہوتی ہے اور ہر نماز کے وقت جو شخص میسر ہو وہ امامت کے فرائض سرانجام دیتا ہے۔ جیسے کہ نماز ظہر کیلئے یہ فریضہ میں نے انجام دیا‘‘۔ عمر فاروق سے مسجد کی تاریخ کے بارے میں معلوم کیا تو اس نے بتایا ’’ہمارے آبا و اجداد بھی اس مسجد کو اسی طرح دیکھ چکے ہیں۔ البتہ کوئی تیس برس قبل اس مسجد کو اندر سے پینٹ کردیا گیا۔ ورنہ اس کا اندرونی حصہ خطاطی و نقاشی کا ایسا شاہکار تھا جو آنکھوں کو خیرہ کر دیتا تھا‘‘۔ یہ بات سن کر ہم چونک گئے اور پوچھا کہ اس مینا کاری پر دور جدید کا کیمیکل آمیز رنگ کیوں پھیر دیا گیا؟ تو عمر فاروق نے بتایا ’’چونکہ مسجد کی دیکھ بھال مستقل نہیں ہو رہی تھی اور نقاشی اور خطاطی خراب ہو رہی تھی، اس پر گائوں والوں نے فیصلہ کیا کہ مسجد کو اندر سے پینٹ کردیا جائے۔ اب بھی کئی جگہوںسے رنگ اتر رہا ہے، نیچے سے آپ اس نقاشی اور میناکاری کے نمونے دیکھ سکتے ہیں‘‘۔ بعد میں معلوم ہوا کہ مسجد کے اندر مغلیہ طرز کی خطاطی و نقاشی کا ورثہ موجود تھا، جسے دیہاتیوں نے اپنی سادہ لوحی کے سبب ضائع کردیا۔ جبکہ حکومت نے بھی اس ورثے کی جانب کوئی خاطر خواہ توجہ نہ دی۔ مسجد کے بیرونی دروازے سے اندر داخل ہوں تو تین محرابی دروازے دکھائی دیتے ہیں جو اس قدر چھوٹے ہیں کہ سرجھکا کر مسجد کے صحن میں داخل ہونا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ دو دروازے اور بھی ہیں جوان سے چھوٹے، لیکن بہرحال محرابی طرز کے ہی ہیں۔ اسی طرح بائیں جانب وضو بنانے کی جگہ پر بھی دو محرابی دروازے تھے، جو انہی جیسے چھوٹے تھے۔ ان محرابی دروازوں کے اوپر نیلا اور نیچے سفید رنگ کیا گیا تھا۔ مسجد کا نہ صرف صحن سنگ مرمر کا تھا، بلکہ صحن کے باہر محرابی دروازوں والی جگہ جہاں جوتے اتارے جاتے ہیں، وہ بھی سنگ مرمر سے مزین تھا۔ مسجد کا چھوٹا سا صحن ہے، جسے لوہے کے فریم پر پلاسٹک کی چادر چڑھا کر بند کردیا گیا تھا۔ صحن کے بعد چھوٹا سا برآمدہ تھا، جس میں دو دریاں بچھی تھیں، جو یقیناً نمازیوں کے پائوں کو ٹھنڈا ہونے سے بچانے کی غرض سے بچھائی گئی تھیں۔ کیونکہ دوپہر کے اوقات میں بھی سنگ مرمر اس قدر ٹھنڈا تھا کہ اس پر پائوں دھرنا مشکل ہو رہا تھا۔ برآمدے سے اندرونی حصے کیلئے تین دروازوں میں سے درمیانی دروازہ کھلا ہوا تھا۔ اندر داخل ہوئے تو مسجد نے اپنے حصار میں لے لیا۔ اگرچہ مسجد کی تاریخی حیثیت کو جدت نے کسی حد تک کم کر دیا تھا، لیکن بہرحال مسجد کا اندرونی حصہ بتا رہا تھا کہ وہ کس قدر پرانا ہے اور اس نے زمانے کے کتنے سرد و گرم دیکھے ہیں۔
قدیم مسجد کے حوالے سے علاقے کے لوگوں سے معلومات حاصل کی گئیں تو سب نے یہی کہا کہ یہ 198ہجری میں تعمیر کی گئی۔ اس مسجد کے حوالے سے تمام باتیں سینہ بہ سینہ لوگوں تک منتقل ہوتی رہیں۔ کری کی تاریخ لکھنے والوں نے بھی مسجد کی تعمیر کی یہی تاریخ لکھی ہے۔ کری شہر میں ایک جمیل احمد نامی شخص سے ملاقات ہوئی جو اس وقت اسّی برس کے ہیں۔ جمیل احمد نے اس مسجدکی تاریخی اہمیت کے حوالے سے بہت اہم گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’مسجد کی تاریخ سے قبل آپ کو کری شہر کی تاریخ دیکھنی ہوگی۔ یہ شہر راولپنڈی سے بھی قدیم ہے۔ پنڈی کی تاریخ تو اتنی پرانی نہیں، جبکہ کری کی تاریخ ہزاروں برس قدیم ہے۔ ہمارے آبا و اجداد کا کہنا تھا کہ ایک وقت تھا کہ یہاں سہ منزلہ عمارتیں بنائی جاتی تھیں اور اتنی آبادی تھی کہ کری سے جڑا ہوا گائوں پنڈ بگوال جو پندرہ کلومیٹر کی دوری پر ہے، وہ بھی اس کے حلقے میں آتا تھا۔ کری شہر کی کسی چھت سے بکری چلتی تو براستہ چھت پنڈ بگوال تک پہنچ جاتی تھی، یعنی اس قدر گنجان آباد تھا۔ یہاںایک نزدیکی گائوں چھپراں ہے، وہاںایک نجی ہائوسنگ سوسائٹی نے کھدائی کی تو نیچے سے پرانے تہہ خانے برآمد ہوئے۔ قدیم پتھروں سے بنے تہہ خانوں نے لوگوںکو حیران کر دیا۔ دو دو منزل نیچے تہہ خانے اور قدیم کنوئوں کے آثار دریافت ہوئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک وقت میں یہ شہر کتنا پررونق تھا۔ دراصل یہ افغانستان سے ہندوستان تک ایک روٹ تھا۔ اب تو اس روٹ کے نشان ہی ختم ہوگئے۔ اب صرف گر ینڈ ٹرنک روڈ ہی ایک واحد نشانی بچی ہوئی ہے۔ جبکہ کری شہر کو دارالتجار کہا جاتا تھا۔ یعنی یہ بہت بڑا ایک تجارتی گڑھ تھا۔ اب تو خیر پنڈی بڑا ہوگیا ہے، لیکن میرے بچپن میں میرے آنکھوں دیکھی بات ہے کہ پنڈ بگوال اور دیگر گائوں کے لوگ یہاں آکر خریداری کرتے تھے۔ محمد محفوظ شہید نشان حیدر جو پنڈ بگوال کا رہائشی تھا، وہ بھی پندرہ کلومیٹر چل کر آتا اور کری شہر کے ہائی اسکول میں پڑھتا رہا۔ اسی سے اندازہ لگالیں کہ کری کی کیا اہمیت تھی۔ اب میں آپ کو ایک اور اہم بات بتائوں۔ دیکھیںکری واحد شہر ہے جس کے نام کے ساتھ شروع سے شہر کا لاحقہ لگا ہے۔ حالانکہ اس کے اردگرد ہمارے ہوش و حواس میں اس سے بڑے گائوں آباد رہے۔ جیسے کہ ترلائی ایک بہت بڑا علاقہ تھا۔ لیکن یہ بھی گائوںکہلاتا رہا۔ اسی طرح چک شہزاد کا علاقہ جہاں کئی بڑے دیہات تھے، وہ بھی گائوں ہی کہلاتے رہے۔ لیکن واحد کری ہے جسے کبھی کری گائوں نہیں کہا گیا، بلکہ پہلے دن سے ہی شہر کہا گیا۔ شہر سے مراد ایک بڑا تجارتی مرکز ہی ہوسکتا ہے۔ پنڈی تو سکھوںکے پنجاب پر دور حکومت میں بسایا گیا، جب سوہان سنگھ وغیرہ نے یہاں حویلیاں بنائیں۔ لیکن کری اس وقت پنڈی سے متصل ایک بڑا قدیم شہر موجود رہا۔ میری آنکھوں کے سامنے صادق آباد اور شکریال کے علاقے بنے۔ پنڈی صرف چاہ سلطان تک ہی محدود تھا۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو کری شہر میں قافلے آکر ٹھہرا کرتے تھے۔ افغانستان سے قافلے پشاور کے راستے یہاں آکر ٹھہرا کرتے۔ اکثر قافلے تو یہیں اپنی اشیا بیچ کر واپس افغانستان اور خراسان چلے جاتے، لیکن کچھ قافلے مری براستہ کشمیر و مقبوضہ کشمیر ہندوستان جاتے تھے۔ اب کسی بھی قدیم شہر یا قصبے کی تاریخ کا اندازہ اس علاقے کے باسیوں کے سینہ بہ سینہ گزٹ کے علاوہ وہاں کے قدیم درختوں سے بھی لگایا جاتا ہے۔ کری میں برگد کے درخت موجود ہیں، بلکہ ایک درخت نے تو مسجد کے اوپر سایا کیا ہوا ہے۔ آپ کے علم میں ہوگا کہ برگد کا درخت اتنی جلدی نہیں بڑھتا۔ یہ صدیوںبعد اس قابل ہوتا ہے کہ کسی عمارت پر اپنا سایا پھیلائے۔ اس مسجد میں جو برگد ایستادہ ہے، وہ بھی صدیوں پرانا ہے۔ بلکہ میرے اندازے کے مطابق یہ درخت مسجد کی تعمیر کے ساتھ ہی پلا بڑھا ہے‘‘۔ جمیل نے کئی اہم باتیں بتائیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سکھوں کے دورحکومت میں اس مسجد کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ اور وہ کون ساتاجر تھا جس نے مسجد کی بنیاد رکھی؟۔ (جاری ہے)