نجم الحسن عارف
سیتا وائٹ کیس کے حوالے سے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران کے بارے میں امریکی عدالت کا فیصلہ اب بھی لاگو ہے۔ کیلی فورنیا کورٹ سیتا وائٹ کی درخواست پر عمران خان کو اس کی بیٹی کا باپ قرار دے چکی ہے اور یہ اسٹیٹس تا حال برقرار ہے۔ تاہم سزا نہ سنائے جانے کی وجہ سے بطور وزیر اعظم عمران خان کو ممکنہ دورہ امریکہ میں کوئی قانونی پریشانی پیش نہیں آئے گی۔ البتہ اخلاقی ایشو موجود رہے گا اور عمران کے ممکنہ دورہ امریکہ کے دوران امریکی و عالمی میڈیا میں اسے ہائی لائٹ بھی کیا جا سکتا ہے۔ قانونی ماہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ کیلی فورنیا کورٹ کے فیصلے کی رو سے ٹیریان والد کی جائیداد میں سے حصہ طلب کرسکتی ہے۔
واضح رہے کہ اکیس برس پہلے امریکی ریاست کیلی فورنیا کی اعلیٰ عدالت نے سیتا وائٹ نامی خاتون کی درخواست پر فیصلہ دیا کہ پاکستان کرکٹ اسٹار عمران خان، سیتا وائٹ کی پانچ سالہ بیٹی ٹیریان وائٹ کے حقیقی والد ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے دور میں عمران خان کی دوستی میں آنے والی سیتا وائٹ کئی برس تک یورپ کے مادر پدر آزاد ماحول میں عمران کے ساتھ قربت میں رہی اور امریکی عدالتی فیصلے کے مطابق اسی قربت کے نتیجے میں 1992ء میں ٹیریان وائٹ پیدا ہوئی۔ سیتا وائٹ نے اس بچی کی پیدائش پر عمران خان کو اسے اپنی بیٹی ماننے کیلئے کہا تو کئی سال تک لیت و لعل سے کام لے کر عمران خان اسے ٹالتے رہے۔ بالآخر سیتا وائٹ نے عدالت سے رجوع کرلیا۔ جہاں بعض ذرائع کے مطابق ایک مرتبہ عمران خان نے عدالت میں پیش ہونا قبول کیا۔ لیکن بعد ازاں جب معاملہ ڈی این اے ٹیسٹ تک پہنچا تو عمران خان نے عدالت میں پیش نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ اسی دوران عدالت نے عمران خان کی عدم موجودگی میں فیصلہ دے دیا اور سیتا وائٹ کے اس دعوے کو سچ تسلیم کرلیا کہ اس کی بیٹی کا باپ عمران خان ہی ہے۔
بلاشبہ امریکہ اور اس نوعیت کے سامراجی رجحانات رکھنے والے دیگر ممالک، تیسری دنیا کے بالعموم اور مسلم دنیا کے بالخصوص اخلاقی طور پر کمزور حکمرانوں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے میں آسانی محسوس کرتے ہیں۔ اس لئے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ لیکن عمران خان کا معاملہ چونکہ ایک اخلاقی معاملے سے متعلق ہے، جس کی امریکہ اور یورپ میں بھی قبولیت نہیں ہوتی۔ بنا شادی کے والدین بننے والے اپنے بچوں کو لاوارث نہیں چھوڑتے اور عام طور پر ان کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں، جبکہ عمران خان نے اب تک ایسا نہیں کیا۔ 2004ء میں سیتا وائٹ مبینہ طور پر زیادہ نشہ کرنے کے باعث ہارٹ اٹیک سے فوت ہوگئی تو فوری طور پر عمران خان امریکہ پہنچے اور بارہ سالہ ٹیریان وائٹ سے ملاقات کرنے کے علاوہ اس کی خالہ کیرولینا سے بھی ملاقات کی۔ تاہم فوری صدمے کی وجہ سے یہ طے نہ ہو سکا کہ بارہ سالہ ٹیریان وائٹ اب امریکہ میں رہے گی یا کس کے پاس رہے گی۔ اس بارے میں عمران خان کا میڈیا میں موقف آیا کہ اگر ٹیریان وائٹ لندن میں ان کے ساتھ رہنا چاہے گی تو اسے خوش آمدید کہیں گے۔ اسی دوران یہ بھی اطلاعات سامنے آئیں کہ ٹیریان کی والدہ نے اپنے انتقال سے پہلے جمائما خان کو اپنے انتقال کے بعد ٹیریان کا قانونی سرپرست مقرر کیا تھا۔ تب سے اب تک ٹیریان، جمائما کے پاس لندن میں ہے، جہاں عمران خان کے دونوں بیٹے بھی مقیم اور زیر تعلیم ہیں۔ یوں اگر امریکی عدالت کے فیصلے کو درست تسلیم کیا جائے تو ٹیریان اپنے دونوں سوتیلے بھائیوں کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ جبکہ جمائما خان بھی ٹیریان کو اپنی سوتیلی بیٹی ہی لکھتی اور بولتی ہیں۔ گویا امریکی عدالت کا فیصلہ جمائما خان نے بھی عملی طور پر تسلیم کر رکھا ہے۔ البتہ عمران خان اس معاملے کو اپنا ذاتی معاملہ قرار دیتے ہوئے عام طور پر اس موضوع پر میڈیا کو سوالوں کا جواب نہیں دیتے۔ لیکن پھر بھی یہ موضوع ہے کہ کسی نہ کسی صورت میں موجود اور زندہ رہتا ہے۔ ٹیریان وائٹ 26 سال کی عمر کو پہنچ چکی ہے۔ ادھر عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ لامحالہ اس منصب پر فائز رہتے ہوئے وہ دوسرے ممالک کی طرح امریکی دورے پر بھی جائیں گے۔
’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں اپنے ذرائع سے وہ دستاویزات بھی حاصل کی ہیں جو اس فیصلے سے متعلق ہیں اور فیصلے کی مصدقہ نقول کی پاکستانی سفارتی خانے کے توسط سے امریکی دفتر خارجہ نے پاکستان کو حالیہ ماہ جون میں فراہم کی ہیں۔ ان دستیاب ہونے والی مصدقہ نقول میں اس فیصلے کی تصدیق ہوتی ہے جو 1997ء ماہ اگست میں عمران خان کے خلاف لاس اینجلس کی عدالت نے دیا تھا۔ اس پر امریکہ میں پاکستانی سفارت خانے کے فرسٹ سیکریٹری شاہ نذر خان کے دستخط موجود ہیں اور دوسری طرف امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ کے دستخط بھی موجود ہیں۔ امریکی دفتر خارجہ کی مدد سے حاصل شدہ ان عدالتی دستاویزات میں ایک ایسی دستاویز بھی شامل ہے جس میں عدالت نے واضح الفاظ میں فیصلہ دیا ہے کہ عمران خان پانچ سالہ ٹیریان وائٹ کے والد ہیں۔ اس بچی کی سرپرست ہونے کا حق سیتا وائٹ کو حاصل ہے، جبکہ عدالت اس بچی کی پرورش کے اخراجات کی ذمہ داری کا تعین کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔ ان دستاویزات میں ایک ایسی دستاویز بھی ’’امت‘‘ کو ملی ہے جس میں عمران خان نے نومبر 2004ء میں جب سیتا وائٹ کا انتقال ہوچکا تھا اور اس کی خالہ کیرولین نے اس کے سرپرست بننے کے لئے عدالت کو درخواست دی تو عدالت نے عمران خان کو لکھا کہ آپ کی بطور والد اس بارے میں کیا رائے ہے؟ اس پر عمران خان نے ’’ایفی ڈیویٹ‘‘ بھیجا کہ انہیں اس پر اعتراض نہیں اگر ٹیریان کی خالہ اس کی سرپرست بننا چاہتی ہیں۔ اس دستاویز پر عمران خان نے ٹیریان وائٹ کا نام ٹیریان جیڈے خان وائٹ ہی لکھا تھا۔
’’امت‘‘ نے اس پس منظر میں امریکی قوانین کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قوانین سے آگاہ ماہرین قانون سے بات کی کہ آیا اس صورت حال میں عمران خان اگر بطور وزیراعظم پاکستان امریکی دورے پر جاتے ہیں توکیا صورت بنے گی۔ کہیں امریکی عدالت اور قانون عمران خان کو ملزم یا مجرم کے طور پر تو نہیں دیکھے گی اور ان کے دورے میں کوئی رکاوٹ تو نہیں پیدا ہوگی؟ اس حوالے سے معروف قانون دان ایس ایم ظفر کا کہنا تھا کہ ’’عمران خان کے خلاف فیصلہ تو امریکی عدالت میں ہوا تھا، لیکن کوئی سزا نہیں سنائی گئی تھی۔ اس لئے عدالتی حکم کی تعمیل کا سوال ہی نہیں ہے۔ جہاں تک اس معاملے کا تعلق ہے کہ بطور وزیراعظم عمران خان کے امریکہ آنے جانے میں کوئی مسئلہ یا رکاوٹ ہوگی، تو میرا نہیں خیال کہ ایسا سوچنا چاہئے۔ وہ جو معاملہ تھا، اب ’’سٹیل‘‘ ہو چکا ہے۔ وہ خاتون بے چاری بھی فوت ہو چکی ہے۔ اب سیتا وائٹ کی بیٹی جمائما کے پاس ہے۔ مسئلہ تو اب طے ہوچکا ہے‘‘۔ اس سوال پر کہ ٹیریان وائٹ کے پاس ہونے کا یہ مطلب ہے کہ عمران خان نے بھی اپنی بیٹی کو اپنا لیا ہے؟ ایس ایم ظفر نے کہا کہ ’’یہ اب کوئی قانونی ایشو نہیں رہا، البتہ اخلاقی ایشو ہے‘‘۔ اس سوال پر کہ ٹیریان وائٹ اب تک بن باپ کے بچوں کی طرح ہوگی یا اسے عدالتی فیصلے کے بعد والد کا نام مل گیا ہوگا؟ ممتاز ماہر قانون نے کہا کہ ’’میرے خیال میں نام مل گیا ہوگا‘‘۔
بیرسٹر جاوید اقبال جعفری کا کہنا تھا کہ کسی بھی عدالت کا فیصلہ، جب تک اس عدالت سے بڑی یا اونچی عدالت میں ختم یا منسوخ نہ ہو تو ہمیشہ لاگو رہتا ہے۔ اس لئے عمران خان کے بارے میں امریکی عدالت کا فیصلہ بھی اسی طرح آج بھی لاگو ہے جیسے پہلے تھا۔ قانونی زبان میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ فیصلہ آج بھی آپریٹو ہے۔ لیکن چونکہ وہ ایک سول سوٹ تھا اور اس میں سزا نہیں ہوتی، اس لئے عدالت اپنے فیصلے پر عمل کرانے کیلئے مزید کچھ نہیں کرتی۔ اس لئے عمران خان بطور وزیراعظم امریکہ جائیں گے تو کوئی قانونی روک ٹوک نہیں ہوگی۔ ویسے بھی وزیراعظم کے پاس سفارتی استثنا والا پاسپورٹ ہوتا ہے، لہٰذا یہ سوچنا بھی نہیں چاہئے کہ کوئی مشکل پیش آئے گی یا کوئی پرابلم ہوگی۔‘‘ ایک سوال پر بیرسٹر جاوید اقبال جعفری نے کہا کہ ’’ٹیریان وائٹ کی والدہ کی ساری جائیداد ٹیریان کو ملے گی۔ اسی طرح عدالتی فیصلے کی روشنی میں چاہے تو وہ اپنے والد کی جائیداد سے بھی اپنا حصہ مانگ سکتی ہے۔ لندن میں اگر عمران خان کی کوئی جائیداد ہو تو اس میں سے بھی حصہ مانگ سکتی ہے اور پاکستان میں موجود جائیداد سے بھی۔ اس کے لئے اسے عدالت سے رجوع کا بھی پورا حق ہے۔ تاہم پاکستان کی عدالت کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ امریکی فیصلے کی تصدیق کرے کہ آیا واقعی ایسا فیصلہ ہوا تھا۔ اسی طرح اگر عمران خان سیتا وائٹ کو اپنی گرل فرینڈ تسلیم کرلیتے تو اسے بھی اس کے ترکے میں آدھی جائیداد مل سکتی تھی‘‘۔ ایک اور سوال کے جواب میں بیرسٹر جعفری نے کہا کہ ’’اگر عدالتی فیصلے نے ٹیریان وائٹ کو عمران کی بیٹی قرار دیا ہے اور یہ حقیقتاً بھی درست ہے تو اسلامی شریعت کے مطابق عمران کو بھی ٹیریان کو اپنی بیٹی کو تسلیم کرنا چاہئے۔ یہ صرف اخلاقی مسئلہ نہیں ہے ایک قانونی اور شرعی ضرورت بھی ہے‘‘۔
احسن الدین شیخ کا کہنا تھا کہ ’’سول سوٹ میں ایسے مقدمے نہیں ہوتے، جن میں عدالت سزا سناتی ہے۔ وہ صرف حقائق کو واضح کرتی ہے۔ یہی امریکی عدالت نے کیا اور عمران خان کو بغیر شادی کے بچی پیدا کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے والد قرار دیا۔ اسی لئے عدالتی دستاویزات میں ٹیریان خان جیڈے نام ملتا ہے۔ پاکستان میں اس کی اہمیت آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے حوالے سے ہے کہ اعلیٰ قومی و حکومتی مناصب پر کبائر سے بچنے والے لوگ ہونے چاہئیں۔ صادق اور امین ہونے چاہئیں‘‘۔
٭٭٭٭٭