نجم الحسن عارف
پاکستان کی نئی حکومت کی پاک چین راہداری منصوبے پر سرد مہری سے چینی حکام کو تشویش ہے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ چینی سفارت کار رسمی ملاقاتوں میں اس امر کا ذکر کرنے لگے ہیں کہ حکومت کی اعلیٰ ترین سطح پر ابھی تک سی پیک کے حوالے سے کوئی قابل ذکر رابطہ یا پیش رفت نہیں ہو رہی۔ ذرائع کے مطابق چین کی طرف سے سفارتی چینل کے ذریعے خواہش کے اظہار کے باوجود وزیر اعظم عمران خان نے پانچ ماہ کے دوران سی پیک سے متعلق کسی ایک زیر عمل منصوبے کا وزٹ نہیں کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کے زیر قیادت وفاقی حکومت ہی نہیں، وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار بھی چینی حکام اور سفارت کاروں کی دسترس میں کم ہی آتے ہیں۔ جبکہ بیوروکریسی نے بھی نئی حکومت کی ترجیحات میں تبدیلی کے اشارے دیکھتے ہوئے تعاون محدود کر دیا ہے۔ ذرائع کے بقول چینی حکام اس صورتحال پر ناخوش ہیں کہ پاکستان کی خوشحالی کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر ’’گیم چینجر‘‘ بننے والے منصوبے کو رکوانے یا اس پر عمل درآمد کی رفتار کو سست کرنے کے لئے کچھ قوتیں بھی محترک ہورہی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاک چین راہداری کے سیکریریٹ کے حکام کی حالیہ گفتگو کا پس منظر بھی یہی ہے، جس میں چین کی طرف سے واضح انداز میں کہا گیا ہے کہ سی پیک کے خلاف کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی۔ چینی حکام یہ محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان کے گرم پانیوں تک پہنچنے کیلئے چین مخالف قوتیں بالواسط انداز میں نئے سرے سے کوشاں ہورہی ہیں، تاکہ گوادر بندرگاہ پر ان کے اثرات کی بھی کوئی نہ کوئی شکل موجود رہے اور سی پیک کے پس منظر میں چین کا ’’ون بیلٹ، ون روڈ‘‘ کا خواب مکمل طور پر شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے حالیہ چند ماہ میں جو نئے آئیڈیاز سامنے لائے گئے ہیں اور بعض قریبی ممالک کو اس میں کردار دینے کا اشارہ دیا گیا ہے، اس حوالے سے چین کے حکام یہ خدشہ نظر انداز نہیں کرتے کہ ماہرین کے نام پر چین اور سی پیک مخالف قوتیں اپنے لوگ اندر داخل کرنے کی کوشش کرسکتی ہیں۔
’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ چینی حکام کی خواہش تھی کہ پی ٹی آئی کی نئی حکومت بھی سی پیک پر اسی طرح موثر رابطوں کو بحال رکھے، جیسا کہ پہلے تھے۔ اس سلسلے میں سفارتی ذرائع سے اس خواہش کا اظہار بھی کیا گیا۔ لیکن وزیراعظم عمران خان نے ابھی تک سی پیک کے کسی بھی منصوبے کا وزٹ کرنے یا کام کی رفتار کا جائزہ لینے کیلئے وقت نہیں دیا۔ واضح رہے کہ سی پیک کے سلسلے میں 20 کے قریب جاری منصوبوں میں سے تقریباً ایک درجن منصوبے تکمیل کے قریب ہیں۔ جبکہ 19 ارب ڈالر کے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں۔ اس کے باوجود وزیراعظم عمران خان نے پاکستانی قوم کا حوصلہ بڑھانے کیلئے ایسے کسی منصوبے کے وزٹ کا ابھی تک فیصلہ نہیں کیا ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی بے رغبتی کی وجہ سے بیوروکریسی اور متعلقہ وزارتیں بھی سی پیک کیلئے سرد مہری کا انداز اختیار کئے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار بھی چینی حکام کو آسانی سے دستیاب نہیں ہورہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ماضی میں ایسا ماحول نہیں تھا۔
ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ چینی حکام چین کے قومی دن کے موقع پر پاکستان کی اہم شخصیات کی عدم دلچسپی سے بھی مایوس ہوئے ہیں۔ کیونکہ اس بار چین کے قومی دن پر منعقدہ تقریب میں شرکت کرنے والوں کی تعداد اور انوالمنٹ ایسی کمزور رہی کہ لاہور میں موجود چینی قونصل خانے کا عملہ ابھی سے یہ سوچنے لگا ہے کہ چین کے اگلے قومی دن کی تقریب پی سی ہوٹل میں نہ کی جائے۔ نیز اس دن کی تقریبات کا فارمیٹ بھی تبدیل کردیا جائے، تاکہ شرکا کی دلچسپی کا بھرم رہ سکے اور خود چینی حکام کو بھی افسوس نہ ہو۔ ذرائع کے مطابق چینی حکام کو تحریک انصاف حکومت کے قیام کے بعد ایک مشکل یہ بھی پیش آئی ہے کہ پی ٹی آئی کے ارکان پارلیمان اور کابینہ میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے، جن کے ساتھ چینی حکام اور سفارت کاروں کا کوئی زیادہ رابطہ نہیں رہا ہے۔ جبکہ نواز لیگ کے اندر مختلف سطحوں پر چینی حکام، تھنک ٹینکس اور سفارت کاروں کے روابط تھے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق چینی حکام کو احساس ہونے لگا ہے کہ امریکی سفارت کاروں کے پاکستان میں ہر شعبے اور ہر سطح پر گہرے مراسم تھے، اس وجہ سے ان کی بات زیادہ اچھے انداز میں سنی اور سمجھی جاتی تھی۔ اب بھی امریکہ ’’امداد‘‘ کے نام پر روابط کو ہر جگہ اور ہر سطح پر مؤثر بنانے کے ثمرات سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ جبکہ چین صرف سیدھی سیدھی تجارت کا ارادہ رکھتا ہے اور روپیہ منصوبوں پر لگانے کا واضح رجحان رکھتا ہے۔ اس وجہ سے بھی چینی حکام کو سی پیک پر معاملات کو تیزی سے آگے بڑھانے میں دشواری کا سامنا ہے، کہ امریکہ کے پاکستانی معاشرے اور ریاستی امور میں گہرے اثرات بھی چین کے سی پیک سے متعلق حکام کیلئے کسی قدر مشکلات کا سبب ہیں۔ ذرائع کے مطابق پاکستان میں حکومتی سطح پر دلچسپی میں کمی کے باعث سی پیک کے کئی منصوبوں پر کام ٹھنڈا پڑ چکا ہے۔ چینی حکام چاہتے ہیں کہ عالمی ’’گیم چینجر‘‘ منصوبہ آگے بڑھے اور تیزی سے بڑھے۔ اس پس منظر میں سی پیک سے متعلق چینی حکام نے دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ سی پیک کے خلاف سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔