سرکاری افسران کرپشن چھپانے کے لئے قرآن پاک بیچ میں لے آئے

0

عمران خان
سندھ کی وزارت ثقافت و سیاحت کے ماتحت ادارے کلچرل ٹورازم اینڈ انٹی کیوٹی ڈپارٹمنٹ میں افسران نے کرپشن کی تحقیقات سے بچنے کیلئے انوکھے ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کردیئے۔ مدعی کی جھولی میں قرآن پاک رکھ کر اپنے خلاف دی گئی کمپلین واپس کرادی۔ اینٹی کرپشن افسران نے بھی موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ٹور ازم ڈپارٹمنٹ کے فنڈز سے سندھ ٹور ازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے36 منصوبوں میں کروڑوں روپے کی کرپشن کیخلاف جاری تحقیقات کو بند کر دیا۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ سندھ ٹورازم ڈپارٹمنٹ کے ماتحت ادارے سندھ ٹورازم ڈیولپمنٹ کاپوریشن کے سابق ایم ڈی اور سندھ ٹورازم ڈپارٹمنٹ کے پلاننگ، ڈیولپمنٹ اینڈ مانیٹرنگ اینڈ سیل کے ڈائریکٹر جنرل روشن کنسارو کے خلاف کئی ماہ سے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ میں 20 کروڑ روپے کی مالی بے ضابطگیووں کے الزامات پر تحقیقات جاری تھیں، جنہیں گزشتہ روز یک جنبش قلم بند کردیا گیا۔ اس ضمن میں معلومات حاصل کی گئی تو انکشاف ہوا کہ مذکورہ تحقیقات سندھ ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے ہی ایک افسر کی جانب سے دی جانے والی تفصیلی کمپلین پر شروع کی گئی تھی جنہوں نے بعد ازاں نہ صرف تحقیقات کو تیز کرنے کیلئے تفتیشی افسر کو اہم ثبوت اور شواہد فراہم کئے تھے۔ بلکہ جب اس انکوائری پر اینٹی کرپشن کے ایک سابق افسر انسپکٹر بدر بھٹو نے تفتیشی عمل کو روکا تو مدعی سید اظہر علی شاہ نے اینٹی کرپشن کے چیئرمین سمیت دیگر اعلیٰ حکام کو ایک تفصیلی مراسلہ بھی ارسال کیا۔ جس میں انہوں نے تفتیشی افسر پر زیر تحقیقات افسران کے ساتھ مل جانے کے سنگین الزامات عائد کئے اور تفتیشی عمل پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ جس کے بعد اینٹی کرپشن کے اعلیٰ حکام نے اس انکوائری پر تحقیقات انسپکٹر بدر بھٹو سے لے کر ایک دوسرے انسپکٹر عرس زرداری کے سپرد کردیں، تاکہ کمپلین کرنے والے مدعی کی شکایات کا ازالہ کیا جاسکے۔
موصول ہونے والی دستاویزات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سندھ ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے سابق ایم ڈی روشن کنسارو کے خلاف 36 منصوبو ں کی مد میں 20 کروڑ روپے کی کرپشن کے الزامات پر تحقیقات سابق چیف سیکرٹری کی منظوری کے بعد شروع کی گئی تھیں۔ قوانین کے تحت چیف سیکریٹری سے اس طرح کی تحقیقات کیلئے 20 گریڈ یا اس سے اوپر کے افسران کیلئے جو منظوری حاصل کی جاتی ہے، اس کو سی سی ون کمیٹی کی میٹنگ کہا جاتا ہے۔ جس میں اس وقت ہی تحقیقات کی منظوری دی جاتی ہے جب ویری فیکیشن کے مرحلے میں سامنے آنے والی معلومات کی روشنی میں یہ سمجھا جائے کہ باقاعدہ تحقیقات کیلئے کافی مواد موجود ہے اور ایک بار چیف سیکریٹری کی جانب سے تحقیقات کیلئے منظوری دے دی جائے تو اس کے بعد مدعی کا کردار کافی حد تک ختم ہوجاتا ہے اور سرکاری فنڈز میں کرپشن یا خوردبرد میں تحقیقات سرکاری مدعیت میں آگے بڑھائی جاتی ہیں۔ تاہم حیرت انگیز طور پر سابق ایم ڈی ایس ٹی ڈی سی اور موجودہ پلاننگ، ڈیولپمنٹ اینڈ مانیٹرنگ اینڈ سیل کے ڈائریکٹر جنرل روشن کنسارو کے خلاف تحقیقات کو یکلخت بند کردیا گیا۔
معتبر ذرائع کے مطابق روشن کنسارو اور ان کے ساتھ دیگر بعض افسران کے خلاف نیب میں بھی تحقیقات جاری ہیں اور نیب حکام نے ادارے سے 44 منصوبوں پر خرچ کی جانے والی 60 کروڑ رپے کی رقم کا حساب کتاب بھی مانگ رکھا ہے جو ادارے کے حکام کی جانب سے نیب کو 30 جنوری تک فراہم کردینے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ ذرائع کے بقول اینٹی کرپشن اور نیب میں ایک ساتھ تحقیقات شروع ہونے پر ایسے تمام افسران پریشان ہوگئے جبکہ بعض افسران نے کسی بھی طریقے سے ان تحقیقات پر اثر انداز ہونے کی کوششیں شروع کردیں جس میں انہیں اینٹی کرپشن میں موجود عناصر کی جانب سے بھی بتایا گیا کہ وہ مدعی کو راضی کرلیں باقی کام آسان ہوجائے گا۔ جس پر گزشتہ ہفتے مدعی کو اینٹی کرپشن میں ملاقات کیلئے بلایا گیا، اسی دوران ٹورازم ڈپارٹمنٹ کے کلچرل اینڈ انٹی کیوٹی ڈپارٹمنٹ کے بعض افسران بھی یہاں پر پہنچ گئے اور انہوں نے اس کو منتیں کرکے ایک علیحدہ کمرے میں لے جاکر اس کی جھولی میں قرآن پاک رکھ دیا اور اس کو واسطے اور قسمیں دے کر اپنی کمپلین واپس کرنے پر رضامند کرلیا۔ ذرائع کے مطابق مدعی سید اظہر علی شاہ نے بے بس ہو کر وہیں پر ایک درخواست لکھی اور اسے اینٹی کرپشن افسر کے پاس جمع کرادیا گیا۔ ’’امت‘‘ کو یہ درخواست ذرائع سے موصول ہوئی ہے، جس میں مدعی کی جانب سے لکھا گیا ہے کہ اس نے ٹورازم ڈپارٹمنٹ کے پلاننگ، ڈیولپمنٹ اور مانیٹرنگ سیل کے ڈی جی روشن کنسارو کے خلاف سندھ ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن میں ایم ڈی کی حیثیت سے 20 کروڑ روپے کی کرپشن کرنے کی تحقیقات کرنے کے لئے جو کمپلین دی تھی اس وقت وہ اس پر مزید کام کرنے سے قاصر ہیں۔ ان کے روشن کنسارو کے ساتھ جو بھی معاملات اور تنازعات تھے وہ انہوں نے آپس میں حل کرلئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ درخواست جلد بازی میں اس قدر بھونڈے انداز میں لکھوائی گئی ہے کہ اس کے نتیجے میں زیر تفتیش سرکاری افسران کے علاوہ خود مدعی کے خلاف بھی نئی تحقیقات شروع ہوسکتی ہیں۔
اس ضمن میں جب اینٹی کرپشن کے انسپکٹر اور اس انکوائری کے تفتیشی افسر انسپکٹر عرس زرداری سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ مدعی نے اپنی کمپلین واپس لے لی ہے اور اب اس پر تحقیقات کو بند کردیا گیا ہے جو کہ بالکل قوانین کے عین مطابق ہے۔ تاہم جب ان سے سوال کیا گیا منصوبوں پر خرچ کردہ فنڈز سرکاری ہوتے ہیں، ان پر تحقیقات انفرادی اور ذاتی معاملات حل ہونے پر کیسے روکی جاسکتی ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ اینٹی کرپشن کے قوانین کے تحت جب مدعی پیچھے ہٹ جائے تو وہ کچھ نہیں کرسکتے۔
دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ عرس زرداری نے دو ہفتے قبل ہی تحقیقات میں پیش رفت کیلئے ٹورازم ڈپارٹمنٹ کے انٹی کیوٹی اور کلچرل ڈپارٹمنٹ کے ڈی جی سے 36 منصوبوں پر خر چ ہونے کی رقم اور ٹھیکے حاصل کرنے والی کمپنیوں کا ریکارڈ طلب کیا تھا اور اپنے لیٹر میں لکھا تھا کہ روشن کنسارو اور دیگر افسران کے خلاف من پسند اور خود ساختہ کمپنیاں کھڑی کرکے انہیں کروڑوں روپے کے ٹھیکے دلوانے کے الزامات پر تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ تاہم 10 روز بعد ہی تحقیقات بند کردی گئیں جس سے کئی سوالیہ نشان کھڑے ہوئے ہیں۔
ذرائع کے بقول سندھ ٹورازم ڈپارٹمنٹ کے ماتحت سندھ ٹورازم کلچرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن صوبے میں ثقافتی اور سیاحتی سرگرمیوں کے فروغ کا اہم ذمے دار ادارہ ہے۔ جس کی ذمے داریوں میں سندھ کے لوک ورثے کو عالمی سطح پر پروموٹ کرنے کے علاوہ صوبے میں سیاحتی مقامات تلاش کرکے سیاحتی سرگرمیوں کو فروغ دینا بھی شامل ہے۔ اس ادارے کو ہر سال کروڑوں روپے کا بجٹ اس لئے دیا جاتا ہے تاکہ سیاحتی اور ثقافتی سرگرمیوں کی مشہوری کیلئے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر نہ صرف پروگرام منعقد کئے جاسکیں، بلکہ وڈیوز، تصاویر، میگزین اور دیگر ذرائع سے صوبے میں سیاحت کے فروغ کیلئے بھرپور اقدامات کئے جاسکیں۔ تاہم بعض افسران، جو اس ادارے میں کئی برسوں سے مضبوط سیٹنگ بنا کر بیٹھے ہیں، نے بجٹ کو کرپشن کے ذریعے خورد برد کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
حالیہ عرصے میں یہ سلسلہ عروج پر پہنچ گیا، جس کے نتیجے میں نہ صرف صوبے میں سیاحت اور ثقافت کے فروغ کیلئے کی جانے والی سرگرمیاں متاثر ہوئیں۔ بلکہ خود یہ ادارہ بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا اور اب غیر فعال ہوتا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق ادارے میں گزشتہ ایک برس کے دوران فرنیچر، ٹیکنیکل آلات، ہارڈ ویئر، سافٹ ویئر، گاڑیوں کی خریداری و مرمت، تشہیری مواد، پرنٹنگ، ایڈورٹائزنگ، وڈیوگرافک، سیمینار، نمائشیں، فیسٹیولز، ملکی اور غیر ملکی دورے اور خریدے گئے سامان کی مرمت کے حوالے سے ہونے والے اخراجات کی تفصیل کی چھان بین کی جا رہی ہے۔ کیونکہ ایسی اطلاعات ہیں کہ سندھ ٹورازم کلچرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے تحت ہونے والی خریداریوں میں کرپشن کے علاوہ سیاحتی اور ثقافتی سرگرمیوں کے نام پر منعقد کئے جانے والے میلوں، نمائشوں اور غیر ملکی دوروں میں بھی بدترین کرپشن کی گئی ہے۔
سندھ ٹورازم کلچرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن میں 36 ماہ کیلئے ایک پروجیکٹ کے تحت 4 کروڑ روپے کی لاگت سے ایک منصوبہ تیار کیا گیا تھا، جس کے تحت صوبے بھر میں 5 ٹورسٹ انفارمیشن سینٹرز بنائے گئے تھے جس میں ابتدائی طور پر 20 ملازمین رکھے گئے۔ ان میں کمپیوٹر آپریٹرز اور ٹیلی فون آپریٹرز شامل ہیں۔ یہ منصوبہ اس لئے تیار کیا گیا تاکہ سیاحوں کو صوبے کے تمام سیاحتی اور ثقافتی مقامات کی تفصیل فراہم کی جاسکے۔ کیونکہ ترقی یافتہ ممالک میں شہروں کی سطح پر ایسے مقامی ٹورسٹ انفارمیشن سینٹرز مقامی محکموں کے تحت چلائے جاتے ہیں جو سیاحت کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ منصوبہ 2015ء میں شروع کیا گیا تھا۔ تاہم بعد ازاں اس منصوبے کو نصف دورانیے میں ہی روک دیا گیا، جس کے بعد بھرتی ہونے والے ملازمین کی تنخواہیں بھی روک دی گئیں۔ حالانکہ جس وقت منصوبہ شروع ہوا تھا، اس وقت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ تکمیل کے بعد اسے مستقل بنیادوں پر چلایا جائے گا۔ اس وقت بھی اس منصوبے کے تحت بھرتی ہونے والے ملازمین واجبات کیلئے دربدر ہیں۔ اس ضمن میں کیس کے مدعی سید اظہر علی شاہ اور ڈی جی روشن کنسارو سے موقف کیلئے رابطہ کیا گیا تاہم ان سے متعدد بار کال کرنے پر بھی رابطہ نہیں ہوسکا۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More