سید نبیل اختر/تصاویر:محمد اطہر فاروقی
روزنامہ امت کراچی /حیدر آباد /راولپنڈی /پشاور
پی آئی اے کی اسلام آباد منتقلی سے قومی ایئر لائن کو مزید اربوں روپے کا نقصان پہنچے گا۔ قومی فضائی کمپنی کے 2 اہم شعبے انجینئرنگ اور پروکیورمنٹ دارالحکومت منتقل کرنے پر اربوں روپے خرچ ہوں گے۔ نیو اسلام آباد ایئر پورٹ کی پی آئی اے کو حوالگی سے سول ایوی ایشن اتھارٹی کو سالانہ 15 ارب روپے کا خسارا ہوگا۔ کسی بھی ایئر لائن کے ذریعے ہوائی اڈے کو چلانے سے دیگر فضائی کمپنیوں کا استحصال ہوگا۔ اعلیٰ سطحی اجلاس میں کئے گئے فیصلوں پر عملدرآمد سے قبل ایوی ایشن انڈسٹری میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ دونوں اداروں میں کام کرنے والے ملازمین شدید اضطراب میں مبتلا ہیں۔ پی آئی اے کو سی آر سی اسلام آباد منتقل کرنے سے تاحال کوئی فائدہ نہیں ملا۔ نیو اسلام آباد ایئر پورٹ کے نقصان پر بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔
’’امت‘‘ کو تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں پی آئی اے ہیڈ آفس کی منتقلی ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں زیر غور آئی، جس میں کچھ اہم فیصلے کئے گئے اور کچھ تجاویز بھی طلب کی گئیں۔ یہ اجلاس وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں وفاقی وزیر برائے ایوی ایشن محمد میاں سومرو، فنانس منسٹر اسد عمر، ریونیو کے وفاقی وزیر حماد اظہر، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باوجوہ، ایئر فورس کے سربراہ ایئر چیف مارشل مجاہد انور خان، پی آئی اے کے سی ای او ایئر مارشل ارشد ملک، سیکریٹری فنانس عارف خان، مشیر برائے وزیر اعظم فیصل جاوید، خصوصی مشیر افتخار درانی، سیکریٹری ٹو پی ایم محمد اعظم خان، چیئرمین ایف بی آر جہانزیب، پی آئی اے کمپنی لمیٹڈ کے ایئر کموڈور خالد الرحمنٰ برلاس، ایئر کموڈور جواد ظفر چوہدری اور قائم مقام چیف فنانشل افسر فیصل رضا نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد یہ خبریں سامنے آئیں کہ پی آئی اے ہیڈ آفس کی اسلام آباد منتقلی سے متعلق فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس اجلاس میں نیو اسلام آباد ایئرپورٹ بھی پی آئی اے کے حوالے کرنے سے متعلق فیصلے کی خبریں گردش کرنے لگیں۔ بعد ازاں مذکورہ اجلاس میں ہوئے فیصلوں، مانگی گئی تجاویز سے متعلق 7 صفحات پر مشتمل منٹس کی نقل بھی پی آئی اے اور سی اے اے افسران کے درمیان گردش کرنے لگیں، جس پر کسی کے دستخط موجود نہیں تھے۔ منٹس کے حوالے سے ’’امت‘‘ کے ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ بالکل ٹھیک منٹس ہیں اور مذکورہ اجلاس میں یہی چیزیں طے کی گئی تھیں۔ ’’امت‘‘ نے مذکورہ منٹس کی کاپی حاصل کی تو معلوم ہوا کہ وزیراعظم کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں 29 اہم فیصلے کئے گئے، جس میں پی آئی اے کے 2 ایئر بس طیاروں کے حصول کیلئے وفاقی کابینہ ڈویژن کے ارکان کی قطر اور ترکی کے دورے، پی آئی اے کو پی ایس او کی جانب سے تیل فراہم کرنے پر دسمبر 2018ء تک کے واجبات روکنے، کرنٹ پیمنٹ شیڈول کے تحت ادائیگی، جنوری 2019ء کے وسط تک پی آئی اے کی بحالی کیلئے 15 ارب روپے کا انتظام کرنے سے متعلق فنانس ڈویژن کو ہدایت، فنانس ڈویژن کے ذریعے بوئنگ 777 کیلئے ون ٹائم خصوصی گرانٹ جو تین اعشاریہ 5 ملین امریکی ڈالر ہو، فنانس ڈویژن کے ذریعے سی اے اے کے واجبات کی ادائیگی جس میں جرمانے کی رقم شامل نہ ہو، اٹارنی جنرل کی مدد سے پی آئی اے کے کیسز کو نمٹانے سے متعلق ہدایات، فضائی کمپنیوں سے حاصل کئے جانے والے ٹیکسز کو کم کرنے سے متعلق اقدامات، پی آئی اے کے سی ای او کی پوزیشن کلیئر کرنے سے متعلق اشتہار، پی آئی اے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی نامزدگی، 3 برس کیلئے پی اے ایف افسران کی پی آئی اے میں تعیناتی جو یونیفارم میں خدمات انجام دیں گے، سابق ایوی ایشن سیکریٹری کی بطور چیئرمین پی آئی اے نامزدگی کی وضاحت، ایوی ایشن ڈویژن کے ذریعے پی آئی اے سی ای او کی سی اے اے بورڈ کے رکن کے طور پر شرکت، سی اے اے کے ڈائریکٹر جنرل کے اضافی چارج کے ساتھ سیکریٹری ایوی ایشن کی تقرری، پی آے اے میں 8 فوجی افسران کی تعیناتی، ایوی ایشن پالیسی پر نظر ثانی اور کابینہ کو سفارشات، ایوی ایشن پالیسی میں پی آئی اے کا کردار، عوامی مفاد کے پیش نظر پی آئی اے دفاتر کی اسلام آباد و راولپنڈی میں قیام کا انتظام، اوپن اسکائی پالیسی پر نظر ثانی، سی اے اے کی جانب سے فضائی کمپنیوں سے کی جانے والی وصولیوں پر نظر ثانی، اسلام آباد ایئرپورٹ پی آئی اے کی تحویل میں دینے سے متعلق تجاویز و سفارشات جو مارچ 2019ء تک جمع کرادی جائیں، ریونیو بڑھانے کیلئے بے نظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ راولپنڈی کی پارکنگ کو کمرشل بلڈنگ میں تبدیل کرنے سے متعلق سفارشات، جولائی 2019ء تک پی آئی اے ہیڈ آفس کی مکمل طور پر کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کی سفارشات، پی آئی اے کو پورے ملک میں ترجیحی بنیادوں پر پارکنگ سلاٹ کی فراہمی اور دیگر ملکی غیر ملکی کمپنیوں کو سلاٹ سے متعلق پی آئی اے کی مشاورت کا انتظام، پارلیمنٹرین کے ٹکٹ سے متعلق پالیسی پر نظر ثانی، پی آئی اے سی ای او کی بطور چیئرمین بورڈ اور ایئرکموڈور جواد کی بطور بورڈ ممبر تقرری، پی آئی اے کا حالیہ بزنس پلان اپریل 2019ء تک ترتیب دینے سے متعلق احکامات شامل تھے۔ اس منٹس میں سی ای او پی آئی اے اور ایوی ایشن ڈویژن کو دو خصوصی ہدایت بھی دی گئیں، جن میں پی آئی اے کیلئے چیف کمرشل آفیسر کی تقرری اور پی آئی اے اور سی اے اے کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانا شامل تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ پی آئی اے کی بحالی سے متعلق کچھ فیصلے تو ٹھیک، لیکن بیشتر فیصلے غلط ثابت ہوں گے۔ ان میں پی آئی اے ہیڈ آفس کی اسلام آباد منتقلی اور سی اے اے کے بجائے نیو اسلام آباد ایئر پورٹ کو پی آئی اے کے سپرد کرنا شامل ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت پی آئی اے سے متعلق اقدامات کرکے قومی ایئرلائن کو مزید اربوں روپے کے نقصان سے دوچار کردے گی۔ ایوی ایشن انڈسٹری میں حالیہ دنوں میں اعلیٰ سطی اجلاس میں کئے جانے والے فیصلے زیر بحث ہیں، جنہیں انڈسٹری کیلئے زہر قاتل قرار دیا جارہا ہے۔ بعض حلقے پی آئی اے ہیڈ آفس کی کراچی سے منتقلی کو ناممکن قرار دے رہے ہیں، تو بعض اقدامات کو وزیر اعظم عمران خان کی ذاتی خواہشات بتایا جارہا ہے۔ پی آئی اے ہیڈ آفس کی منتقلی اور نیو اسلام آباد ایئرپورٹ کی پی آئی اے کو حوالگی سے دونوں اداروں کے ملازمین میں شدید بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔
’’امت‘‘ نے سب سے پہلے پی آئی اے ہیڈ آفس کی اسلام آباد منتقلی کے پہلوؤں پر تحقیقات کی تو پتا چلا کہ پی آئی اے کے قیام سے ہی پی آئی اے کا مرکزی دفتر کراچی میں واقع ہے۔ یہ کئی ایکڑ اراضی پر محیط ہے، جہاں پی آئی اے کے تمام شعبہ جات کے دفاتر ہیں۔ سب سے اہم اور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت کا حامل شعبہ انجینئرنگ بھی ہیڈ آفس کی مرکزی بلڈنگ کے بالمقابل واقع ہے۔ یہاں ایشا کا سب سے بڑا ہینگر بھی قائم ہے، جہاں پی آئی اے سمیت دیگر ممالک کے طیارے مرمت کیلئے لائے جاتے ہیں۔ مرکزی دفتر کے ساتھ پروکیورمنٹ اینڈ لاجسٹک کی عمارت بھی واقع ہے، جہاں پی آئی اے فلائٹ کے اربوں روپے کے پرزہ جات رکھے جاتے ہیں۔ وہیں ساتھ ہی کارپوریٹ پلاننگ بلڈنگ اور دیگر شعبہ جات کے دفاتر بھی ہیں۔ ایئرلائن ذرائع نے بتایا کہ شعبہ انجینئرنگ کا ڈائریکٹر ہیڈ آفس میں بیٹھتا ہے اور اسے کسی دوسری جگہ منتقل نہیں کیا جاسکتا۔ شعبہ انجینئرنگ میں کسی بھی وقت کسی بھی معاملے کی تفصیلات سے ڈائریکٹر انجینئرنگ کو آگاہ کیا جاتا ہے تو بیشتر اوقات ڈائریکٹر طیارے کے معائنے کیلئے فزیکلی ہینگر کا رخ کرتے ہیں، جہاں دو درجن سے زائد ورکشاپس موجود ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ شعبہ انجینئرنگ میں 800 ٹیکنیشن اور آفیسرز انجینئرنگ خدمات انجام دیتے ہیں۔ ٹیکنیشن گروپ ون سے فور کے ملازمین کہلاتے ہیں۔ جبکہ آفیسرز انجینئرنگ پے گروپ 5 اور 6 کے ملازم ہیں۔ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ میں نومیٹک شاپس ہیں، جو کمپوننٹ نومیٹک سے متعلق ہیں۔ ایئر بال ڈبلیو آئی ایم شاپس ہیں۔ بیس مینٹی نینس جسے اصفہانی ہینگر کے نام سے جانا جاتا ہے، یہاں بیک وقت 3 بڑے جمبو جہاز مرمت کئے جا سکتے ہیں۔ وہیں ایرو اسپیس، ایویونکس کا شعبہ بھی ہے، جو بے ون ٹو اور تھری میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اوپری منزل پر ایئرکرافٹ فرنشنگ شاپس ہیں، جہاں جہازوں کے کیبن کا سامان مرمت کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اسٹرکچر ریپیئرشاپ بھی ہے، جسے ایس آر ایس کہا جاتا ہے۔ پی آئی اے ہینگر میں ایک بڑی انجن اوور ہال شاپ بھی ہے، جہاں انجن کی مرمت کی جاتی ہے۔ وہیں بلاک اوور ہال ہے، جہاں اے ٹی آر اور بوئنگ کے پرزے اوورہال کئے جاتے ہیں۔ اس شاپ سے متصل ٹائر شاپ ہے، جہاں ٹائروں میں آنے والی خرابی دور کی جاتی ہے۔ بلاک اوور ہال سے متعلق مزید تفصیل ملی، جس میں معلوم ہوا کہ یہاں لینڈنگ گیئر شاپس، ٹول شاپس اور پلازمہ شاپس ہیں۔ کمیونئٹ شاپس میں ایویونکس اوورہال شاپس ہیں، جن میں الیکٹریکل، انٹرومنٹس اور ریڈیوکی چھوٹی بڑی شاپس ہیں۔ وہیں لائن فیٹی نینس ون اور ٹو کے درمیان کیبل سروسنگ ڈیپارٹمنٹ بھی ہے، جہاں ارائیول اور ڈیپارچر پر جہازوں کے کور لگانے اور صفائی ستھرائی کا کام کیا جاتا ہے۔ ایئرلائن ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ شعبے کے ڈائریکٹر یا جنرل منیجر کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنا ممکن نہیں ہے۔ جبکہ کسی بھی نئی جگہ یہ تمام سہولیات قائم کرنے پر حکومت کو اربوں روپے خرچ کرنا ہوں گے۔ ایئر لائن ذرائع نے بتایا کہ شعبہ انجینئر نگ اور پروکیومنٹ اینڈ لاجسٹک کا شعبہ ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ اسی وجہ سے انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے بالمقابل اسٹور بنایا گیا ہے۔ یہاں بھی بڑے پیمانے پر پرزوں کی خریداری کا عمل ہوتا ہے۔ یہ شعبہ ماضی میں کرپشن کا گڑھ رہا ہے، جس کی کسی اور جگہ منتقلی بھی ممکن نہیں۔ اور یہاں کے منتظمین سونے کی چڑیا کہلانے والے اس ڈیپارٹمنٹ کو اپنے آپ سے دور بھی نہیں کرنا چاہیں گے۔ سی اے اے ذرائع نے بتایا کہ نیو اسلام آباد ایئر پورٹ کی تعمیرات کے دوران ہی آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے ریگولیٹری اتھارٹی کو متنبہ کیا تھا کہ مذکورہ ایئر پورٹ کی تعمیرات اور منصوبے کی تکمیل تک سی اے اے کو ماہانہ ایک ارب روپے کے خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ’’امت‘‘ کو سی اے اے کے اعلیٰ افسر نے بتایا کہ نیو اسلام آباد انٹر نیشنل ایئرپورٹ ڈیڑھ کھرب روپے کی لاگت سے تیار ہوا ہے۔ اس منصوبے میں اربوں روپے کی کرپشن بھی ہوئی، جس کی ایف آئی اے گزشتہ 5 برس سے تحقیقات بھی کر رہی ہے۔ یہ سی اے اے کو پہنچنے والا ایک ایسا نقصان ہے، جو ایئرپورٹ سے 20 برس تک حاصل ہونے والے ریونیو کی مدد سے ہی پورا کیا جاسکتا ہے۔ ’’امت‘‘ کو اس سلسلے میں ذرائع نے بتایا کہ نیو ایئرپورٹ کی تعمیرات پر آنے والے اخراجات کے آڈٹ کے دوران مشاہدے میں آیا کہ پروجیکٹ کی فنانشل پلاننگ میں حد درجہ بد انتظامی کی گئی۔ سی اے اے سے حاصل کردہ ریکارڈ کے مطالعے پر آڈیٹر کو معلوم ہوا کہ منصوبے کی پی سی ون کی منظوری 37 ارب روپے کی دی گئی، جس کو 30 ماہ میں مکمل ہونا تھا۔ اس کے لئے فنانس سی اے اے کی ایرو ناٹیکل اور نان ایرو ناٹیکل سے حاصل رقم سے مہیا کرنا تھا۔ تاہم طے شدہ وقت پر پروجیکٹ مکمل نہ ہوسکا۔ سی اے اے انتظامیہ نے 15 اپریل 2014ء میں اپنی بورڈ میٹنگ میں پروجیکٹ ریوائزڈ پی سی ون کی 81 ارب 17 کروڑ 10 لاکھ روپے کی منظوری دی، جس میں دیگر اخراجات اور کلیم شامل نہ تھے۔ کلیم و دیگر کے لئے 14 ارب روپے مختص کیے گئے، جس میں دیگر اخراجات و کلیم کی ادائیگی ہونا تھی۔ پروجیکٹ کی تکمیل کے لئے جون 2016ء کی حتمی تاریخ دی گئی۔ تاہم مذکورہ حقائق اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ فنانشل اور حساس تجزیاتی رپورٹ گمراہ کن ہے اور حقائق سے دور ترتیب دی گئی تھی۔ آڈٹ کے سامنے انکشاف ہوا کہ پروجیکٹ کی تکمیل کے لئے ایرو ناٹیکل و نان ایرو ناٹیکل سے ملنے والا 24 ارب 48 کروڑ روپے کو اصل پی سی ون میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ نتیجتاً منصوبہ فنانشل اور تکنیکی لحاظ سے ناقابل عمل تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ منصوبے کا پی سی ون پروجیکٹ مینجمنٹ کنسلٹنٹ کی جانب سے تیار کیا گیا تھا، جس نے 2016ء میں پروجیکٹ مکمل کرنا تھا۔ تاہم نامکمل ہونے کے باوجود اس پر کوئی جرمانہ نہیں کیا گیا۔ مختلف پیکیجز میں ٹینڈر کرتے وقت پی سی ون کو یکسر نظر انداز کیا گیا، جس کے نتیجے میں منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا۔ ماہانہ پروگریس رپورٹ کے مطابق جون 2016ء تک مجموعی طور پر 63 فیصد ادائیگی کی جاچکی ہے۔
اب تک پروجیکٹ مینجمنٹ کنسلٹنٹ اور کنٹریکٹرز نے کام کی تکمیل کی حتمی تاریخ تجویز نہیںکی ہے۔ معلوم ہوا کہ پروجیکٹ کے لئے تمام مفروضے مجموعی لاگت کے حوالے سے قائم کئے گئے تھے۔ جس کے باعث پروجیکٹ کی منفی پوزیشن سامنے آئی۔ 81 ارب 17 کروڑ 10 لاکھ روپے کی ریوائزڈ پی سی ون میں زرمبادلہ کے 19 ارب 82 کروڑ 80 لاکھ روپے شامل تھے۔ منظور کئے گئے پی سی ون میں 36 ارب 86 کروڑ 50 لاکھ کے بجائے 44 ارب 30 کروڑ 60 لاکھ روپے منظور کئے گئے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ تخمینہ لگانے میں نااہلی برتی گئی۔ آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ ریوائزڈ پی سی ون کی منظوری کے باوجود 7 کاموں کے ٹھیکے تفویض بھی نہ کئے گئے، جس میں بیگیج ہینڈلنگ اور اسپیشل ایئرپورٹ سسٹم، فرنیچر اینڈ سائینج، پسنجر بورڈنگ برجز، اسٹیٹ لانج، کسٹمز، امیگریشن اور اینٹی نارکوٹکس فورس کے دفاتر، رین واٹر ڈیم اور لنگ روڈ شامل ہیں۔ آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ ایگزیکٹو کمیٹی آف نیشنل اکنامک کونسل کی منظوری سے بچنے کے لئے فارن کمپونینٹ کے لئے 19 ارب 82 کروڑ 80 لاکھ روپے کی رقم رکھی گئی، جو ریوائزڈ پی سی ون کی رقم کا 24.24 فیصد تھا۔ 25 فیصد مختص کرنے پر کونسل کی منظوری حاصل کرنا لازم تھی۔ آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اوریجنل پی سی ون کے مطابق پروجیکٹ پر 100 فیصد لاگت سی اے اے نے فراہم کرنا تھی، جبکہ ریوائزڈ پی سی ون کے مطابق مجموعی لاگت کا 70 فیصد 56 ارب 82 کروڑ سی اے اے کی جانب سے فراہم ہونا تھا۔ بقیہ 30 فیصد جو 24 ارب 35 کروڑ 10 لاکھ روپے بنتے ہیں، قرض حاصل کرنے کے بعد پروجیکٹ پر لگنے تھے۔ آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ2012-13 میں سی اے اے کی آمدن 39 ارب 72 کروڑ 43 لاکھ 40 ہزار تھی۔ جبکہ 26 ارب 27 کروڑ 10 لاکھ روپے کے اخراجات ہوئے۔ اس حساب سے 13 ارب 20 لاکھ سرپلس میں شمار کئے گئے۔ 2013-14 میں آمدنی 47 ارب 58 کروڑ 38 لاکھ 30 ہزار، جبکہ اخراجات 29 ارب 10 کروڑ 25 لاکھ روپے کے کئے گئے۔ اس طرح مذکورہ سال 18 ارب 48 کروڑ 13 لاکھ 30 ہزارروپے کی رقم سر پلس قرار پائی۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق موجودہ آمدن ریونیو ضروریات کو پور اکرنے کے لئے ناکافی ہیں اور سی اے اے مذکورہ رقم سے کسی میگا پروجیکٹ یا دیگر ترقیاتی منصوبے مکمل نہیں کرسکتی۔ آڈٹ کے دوران معلوم ہوا کہ پروجیکٹ کے ریوائزڈ پی سی ون میں لاگت 81 ارب 17 کروڑ 10 لاکھ روپے تھی، جبکہ ستمبر 2014ء تک سی اے اے نے 42 ارب 53 کروڑ روپے جاری کر دیئے۔ آڈٹ میں کہا گیا کہ سی اے اے نے مطالبے پر 2014-15 میں ٹھیکیداروں کو ادائیگی کے لئے 16 ارب روپے جاری کیے، جس کے بعد سی اے اے کے سر پلس اکائونٹ میں محض 2 ارب 48 کروڑ 10 لاکھ روپے موجود تھے، جو تمام ترقیاتی کاموں میں استعمال ہونا تھے۔ اس دوران سی اے اے کو مختلف پروجیکٹس کی تکمیل اور ٹھیکیداروں کو ادائیگی کے لیے 20 ارب روپے درکار تھے۔ آڈٹ میں کہا گیا کہ سی اے اے کو جون 2017ء تک 52 ارب 64 کروڑ 10 لاکھ روپے فنانس کرنا تھے۔ جبکہ انتظامیہ کے پاس تب تک محض سی اے اے کے کھاتے میں 16 ارب 72 کروڑ 60 لاکھ روپے ہوں گے، جس میں ٹرم ڈپوزٹ کی 8 ارب 20 کروڑ رروپے کی رقم بھی شامل ہوگی۔ آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی مکمل لاگت کا تخمینہ 95 ارب لگایا جاچکا تھا۔ جس میں25 ارب 40 کروڑ روپے بیرونی ذرائع سے حاصل ہونا تھے۔ معاشی بدانتظامی کے سبب سی اے اے انتظامیہ نے منصوبہ بنایا کہ فنڈ مینجمنٹ کے لئے بینک کی مدد حاصل کی جائے، جو سی اے اے کو دیوالیہ کی طرف لے جائے گی۔ آڈٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ مذکورہ پروجیکٹ 100 ارب سے تجاوز کرگیا ہے۔ جبکہ افراط زر سالانہ 12 فیصد ہونے کی وجہ سے پروجیکٹ کی لاگت میں ماہانہ ایک ارب کا خسارا بڑھتا جارہا ہے۔ آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سی اے اے نے اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تعمیرات، فنانسنگ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی بنیاد پر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، جو سی اے اے کو مزید گہری دلدل میں لے جائے گا۔ آڈٹ رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ 30 جون 2014ء تک سول ایوی ایشن اتھارٹی کو پی آئی اے نے 27 ارب روپے ادا کرنے ہیں، جس کے لئے مجاز فورم پر سی اے اے کو معاملہ اٹھانا چاہیے۔ آڈٹ نے سی اے اے کی جانب سے اصل اور بلڈ فلائٹوں (Flights Billed ) کے مابین 9 ارب روپے کے فرق کی نشاندہی کر رکھی ہے، جس پر انتظامیہ نے اب تک کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ مذکورہ معاملے کی نشاندہی آڈیٹر نے نومبر 2014ء میں کی تھی۔ جس پر انتظامیہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ آڈیٹر نے سی اے اے انتظامیہ کو کئی سفارشات بھی کیں تاہم کسی ایک سفارش پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ سی اے اے ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلے ہی پی آئی اے نے سی اے اے کو تباہی کے دہانے کھڑا کر رکھا ہے۔ ایئر پورٹ کی حوالگی کے فیصلے سے ڈپارٹمنٹ ہی بند ہو جائے گا۔
٭٭٭٭٭
منتقلی کی مزاحمت کرینگےسربراہ ایئر لیگ
’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ایئر لیگ کے سربراہ شمیم اکمل کا کہنا تھا کہ ہیڈ آفس کی اسلام آباد منتقلی کی خبریں اب تک ایک افواہ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ سن رہے ہیں کہ وزیر اعظم نے فیصلے کئے ہیں۔ اگر ہم یہ مانیں بھی تو کیسے کہ اب تک کوئی آرڈر نہیں آیا۔ ہم نے اپنے ہاتھوں سے پی آئی اے بنایا ہے۔ اسے کسی کو برباد کرنے نہیں دیں گے۔ اگر کوئی تحریری حکمنامہ آیا تب بھی ہماری طرف سے مزاحمت کی جائے گی۔ پریس کانفرنس کریں گے۔ جس میں منتقلی پر اعتراض کے شواہد پیش کریں گے‘‘۔ ایک سوال پر شمیم اکمل کا کہنا تھا کہ ’’یہ ایئرپورٹ قائد اعظم نے بنایا۔ یہاں ہیڈ آفس کا قیام اور دیگر دفاتر کے قیام کا عمل بھی سوچ بچار کے بعد کیا گیا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے کراچی کو دارالخلافہ بنایا۔ آپ نے اسے اسلام آباد منتقل کرکے پاکستان کو دو لخت کر دیا۔ آپ بانیان پاکستان کے فیصلوں کو رد کر رہے ہیں۔ ہم غاصبوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ ہماری حکومت میں پی آئی اے کے ایک شعبے کو اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ ہم نے ایئر لیگ کے پلیٹ فارم سے مخالفت کی۔ شعبہ سی آر سی کی منتقلی سے کیا فائدہ ہوا، جو اب ہیڈ آفس کو منتقل کرنا ہے۔ ہیڈ آفس کی منتقلی کا فیصلہ غلط ہے اور پی آئی اے ملازمین ایسا کرنے نہیں دیں گے‘‘۔
اسلام آباد ایئرپورٹ کو پی آئی اے کے حوالے کرنے نہیں دیں گے- رائو محمد اسلم
پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی میں سی بی اے کے چیئرمین راؤ محمد اسلم نے اسلام آباد ایئرپورٹ کو پی آئی اے کے حوالے کرنے سے متعلق باتوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مزدور یونین ایمپلائز یونٹی آف سی اے اے (سی بی اے) اعلیٰ سطحی اجلاس میں کئے گئے فیصلوں کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہے۔ جو ادارہ خود کئی برسوں سے سول ایوی ایشن کے رحم و کرم پر ٹیکس کی مد میں اربوں روپے ریلیف لیتا آیا ہے، وہ سی اے اے کو بھی تباہی کے دہانے پر پہنچادے گا۔ نیو اسلام آباد ایئر پورٹ جون 2018ء میں ڈیڑھ کھرب روپے خرچ کرکے بنایا گیا تھا۔ صرف 8 ماہ بعد ڈیڑھ کھرب کے ایئر پورٹ کو پی آئی اے کے حوالے کرنے سے سول ایوی ایشن کو بدترین نقصان سے دو چار کرنے کی ابتدا کی جا رہی ہے۔ سول ایوی ایشن جو ترقی کی منزل طے کرکے اس مقام پر پہنچا ہے، اس میں سی اے اے ملازمین کی انتھک محنت ہے۔ جسے کسی کو برباد کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ رائو اسلم کا کہنا تھا کہ ’’ہم سی اے اے کو تباہ کرنے کی حکومتی سازش کی مذمت کرتے ہیں۔ سول ایوی ایشن کے تمام ملازمین فیصلے کے حوالے سے تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس حکومتی فیصلے پر عملدرآمد سے سی اے اے مکمل طور پر تباہ ہو جائے گا‘‘۔ سی بی اے کے ترجمان نے مذکورہ فیصلے کے خلاف تحریک شروع کرنے سے متعلق بتایا کہ ’’پیر سے تمام اسٹیک ہولڈرز کا اجلاس طلب کیا ہے، تاکہ حکومت کی سی اے اے کو تباہ کرنے کی سازش کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا جا سکے۔ ہم وزیر اعظم پاکستان عمران خان، سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری ایوی ایشن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ادارے کو بد حالی سے بچانے کے لئے اس فیصلے پر نظر ثانی کریں اور مستقبل میں سول ایوی ایشن کے فیصلوں میں سول ایوی ایشن حقوق کے علمبردار سی بی اے اور آفیسر ایوی ایشن کے نمائندوں کو اعتماد میں لے کر 12 ہزار خاندانوں کو بد حال ہونے سے بچایا جائے‘‘۔
منتقلی کا عمل مزید دلدل میں دھکیل دیگا- صدر سی بی اے
’’امت‘‘ نے پی آئی اے ہیڈ آفس کی منتقلی کے معاملے پر سی بی اے کے مرکزی صدر ہدایت اللہ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ وزیر نجکاری کے حالیہ بیان کی پرزور مذمت کرتے ہیں جس میں انہوں نے پی آئی اے کی فروخت کے حوالے سے بات کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے اور اس میں کام کرنے والے ملازمین کے تحفظ کی ذمہ داری انہیں سونپی گئی ہے۔ ان کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے اور انہیں پی آئی اے کے معماروں نے منتخب کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کے کوچیئرمین آصف علی زرداری سے بھی پی آئی اے کے اس معاملے پر بات ہوئی ہے۔ انہوں نے بھی اس کی مخالفت اور اسمبلی میں معاملہ اٹھانے کی بات کی ہے۔ ہم ہیڈ آفس کی منتقلی کی مذمت کرتے ہیں اور ایسا ہونے نہیں دیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’پی آئی اے ہیڈ آفس کی بلڈنگ کرائے پر دی ہوئی ہے، جہاں چند ڈائریکٹرز کو بھی نہیں بھیجا جاسکتا۔ ہیڈ آفس کے ساتھ کچھ دفاتر لازم و ملزوم تصور کئے جاتے ہیں، جن کی منتقلی کے لئے پی آئی اے کو کافی اراضی حاصل کرنا ہوگی، تاکہ نئے سرے سے وہاں تعمیرات کی جائیں اور اس سب پر اربوں روپے لگیں گے۔ ہمیں تو پی آئی اے کو مزید خسارے سے بچانا ہے اور منتقلی کا عمل ہمیں مزید دلدل میں دھکیل دے گا۔
ہیڈ آفس سمیت دفاتر کی منتقلی ممکن نہیں- صدر اٹاپ
اٹاپ کے صدر نجیب الرحمٰن نے پی آئی اے ہیڈ آفس کی منتقلی کے حوالے سے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ملازمین میں منتقلی کی خبروں کے بعد سے بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ کراچی میں ہیڈ آفس رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ حب ہے اور یہاں تمام سہولیات میسر ہیں۔ پروکیورمنٹ اور انجینئرنگ آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ یہاں سے ہیڈ آفس کی منتقلی کا مطلب ان دفاتر کو بھی منتقل کرنا ہوگا، جو ممکن نہیں۔ ہم روٹس کو چھوڑ کر پتوں کی طرف جارہے ہیں۔ ہیڈ آفس کی کراچی سے منتقلی بلوچستان کے لوگوں کیلئے مسائل کا سبب بنے گا۔ ہمارے ہاں ایمرجنسی میں معالات طے کئے جارہے ہیں۔ ملازمین کو کس طرح اسلام آباد بھیجا جاسکتا ہے۔ کراچی غریب پرور شہر ہے۔ یہاں سب کسی نہ کسی طرح ایڈجسٹ ہوجاتے ہیں۔ گروپ 5 میں کام کرنے والا ملازم اپنی تنخواہ میں اسلام آباد میں رہتے ہوئے کس طرح گھر چلا سکتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو اس بارے میں نظر ثانی کرنا ہوگی۔