سرفروش

0

عباس ثاقب
امر دیپ مجھے یاتریوں کے ہجوم میں سے گزارتا ہوا ایک طرف چل دیا۔ ایک جگہ مجھے یاتریوں کی کئی طویل قطاریں لگی دکھائی دیں۔ امردیپ نے بتایا ’’یہ سب لوگ لنگر کیلئے برتن لینے کھڑے ہیں۔ تمہیں شاید پتا نہ ہو، ہرمندر صاحب میں ہر وقت لنگر چلتا رہتا ہے اور ہر روز کم ازکم تیس چالیس ہزار افراد کو تین وقت پیٹ بھر کھانا مفت تقسیم ہوتا ہے۔ یہاں کارسوئی گھر (باورچی خانہ) دیکھو گے تو عقل حیران رہ جائے گی۔ دنیا بھر میں اتنے لوگوں کیلئے ایک ساتھ کھانا بنانے کا ایسا انتظام میں نہیں سمجھتا کہیں اور ہوگا‘‘۔
میں نے اس کے دعوے کو چیلنج کرنا غیر ضروری سمجھا۔ اس دوران میں ہم دونوں فرلانگ بھر فاصلہ طے کر کے ایک دو منزلہ عمارت کے محرابی دروازے پر پہنچ چکے تھے۔ اس دروزاے کے اوپر بڑے سیاہ حروف میں ’’دفتر شرومنی گردوارا پربندھک کمیٹی‘‘ تحریر تھا۔ دروازے پر کوئی دربان موجود نہیں تھا، لہٰذا امر دیپ بلاتکلف دروازہ دھکیل کر عمارت میں داخل ہوگیا۔ سامنے ہی ایک دالان تھا، جس میں چار کمرے کھلتے تھے۔ اس وقت ان میں سے دو دروازے کھلے ہوئے تھے اور اندر قدیم طرز کے دفتری فرنیچر والے کمرے میں کئی اہلکار موجود تھے۔
امر دیپ مجھے ساتھ لیے ان میں سے ایک کمرے میں داخل ہوا۔ خستہ حال سی میزوں کے پیچھے براجمان دونوں عمر رسیدہ سرداروں نے سوالیہ نظروں سے ہمیں دیکھا۔ امردیپ نے رسمی سلام دعا کے بعد کہا ’’ہم سنگرور سے ڈاکٹر جگجیت سنگھ چوہان سے ملنے آئے ہیں‘‘۔
ان میں سے نسبتاً خوش پوش بزرگ سردار نے امردیپ کا گہری نظروں سے جائزہ لیتے ہوئے سوال کیا ’’ڈاکٹر چوہان جی؟ انہوں نے آپ لوگوں کو ہرمندر صاحب آ کر ملنے کو کہا ہے؟‘‘
امردیپ نے ہاں میں گردن ہلانے پر اکتفا کیا۔ اسی شخص نے اگلا سوال کیا ’’آپ لوگ ان کے مریض ہیں؟‘‘۔
اس کی بات پر امردیپ نے ہلکا سا قہقہہ لگاکر کہا ’’کیوں مذاق کرتے ہو سردار جی۔ مریض ہوتے تو ہوشیار پور میںان کے کلینک پر جاتے۔ انہوں نے ایک خاص کام سے ہمیں یہاں بلوایا ہے‘‘۔
ان دونوں نے مشورہ طلب نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر اسی سردار جی نے ہمیں کرسیوں پر بیٹھنے کو کہا اور خود کمرے سے نکل گیا۔
اس کی واپسی لگ بھگ دس منٹ بعد ہوئی۔ اس دوران میں اس کا ساتھی ہم دونوں کا غیر رسمی انٹرویو لیتا رہا۔ امردیپ نے اپنے جو کوائف بتائے، انہیں سن کر وہ رفتہ رفتہ مطمئن دکھائی دے رہا تھا۔ اسی اثنا میں ڈاکٹر چوہان کی کھوج میں جانے والا سردار بھی واپس لوٹ آیا۔ وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اس کے ساتھی نے بات کی ابتدا کی ’’نہال سنگھ جی، یہ تو اعتبار والے بندے ہیں۔ چھاجلی کے زمیں دار ہیں۔ میں نے جانچ کرلی ہے‘‘۔
نہال سنگھ نے اس کی بات سن کر کہا ’’ہاں، میں نے بھی تصدیق کرلی ہے۔ ڈاکٹر چوہان نے سچ مچ انہیں بلوایا ہے۔ تم ان دونوں کو درشنی ڈیوڑھی چھوڑ آؤ‘‘۔
امر دیپ نے کہا ’’درشنی ڈیوڑھی کا تو مجھے پتا ہے۔ ہم خود چلے جائیں گے۔ ڈاکٹر چوہان پہلی منزل پر ملیں گے یا دوسری پر؟‘‘۔
نہال سنگھ نے کہا ’’اگر آپ خود چلے جائیں تو بہت ہی اچھا ہے۔ ڈاکٹر چوہان دوسری منزل پر خزانچی جی کے دفتر کے ساتھ والے کمرے میں رونق سنگھ کے پاس ملیں گے‘‘۔
ان دونوں سے اجازت لے کر امردیپ مجھے ساتھ لے کر ایک طرف چل دیا۔ جلد ہی مجھے اندازہ ہوگیا کہ ہمارا رخ تالاب کے وسط میں موجود ہرمندر صاحب کی طرف جانے والے پل نما راستے کی طرف ہے۔ تاہم طویل فاصلہ کرنے کے بعد ہم پردوں سے ڈھکے اس راستے کے سامنے پہنچے تو ہرمندر صاحب کا رخ کرنے کے بجائے امر دیپ پل نما راستے کے آغاز پر بنی قدیم طرز کی دو منزلہ عمارت کی طرف بڑھا۔
اس عمارت کے دروازے پر بھی ایک نیزہ بردار نہنگ اکالی تعینات تھا۔ تاہم اس نے ہمیں روکنے یا باز پرس کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ ہم سیڑھیاں چڑھ کر دوسری منزل پر پہنچے۔ سامنے ہی ایک بڑے کمرے کے دونوں کھلے دروازوں سے دکھائی دینے والے منظر نے ہمیں بتایا کہ یہ خزانچی جی کا دربار ہے۔
امر دیپ اس کمرے کو نظرانداز کرتا ہوا اس سے ملحق نسبتاً چھوٹے کمرے کی طرف بڑھا۔ دروازہ بند تھا۔ تاہم اندر سے کنڈی نہیں لگائی گئی تھی۔ دھکیلتے ہی کھل گیا۔ سامنے ایک چھوٹا سا تخت بچھا ہوا تھا، جس کے ساتھ دو سیٹھیاں رکھی ہوئی تھیں۔ تخت پر رکھے صندوقچے کے عقب میں موجود دودھ سی سفید داڑھی مونچھوں اور سرخ پگڑی والے شخص نے سوالیہ نظروں سے ہمیں دیکھا۔ لیکن امردیپ اس دوران سیٹھی پر نیم دراز دبلے پتلے اور لمبے تڑنگے شخص سے مخاطب ہوکر پُرجوش لہجے میں ست سری اکال کا نعرہ لگا چکا تھا۔ اگر وہی ڈاکٹر جگجیت سنگھ چوہان تھا تو اس سے متعلق میرا اندازہ بالکل غلط ثابت ہوا تھا۔ میں تو اسے کوئی عمر رسیدہ سکھ سمجھے بیٹھا تھا۔ وہ تو جوان اور خوش پوش آدمی نکلا۔ میرے اندازے کے مطابق اس کی عمر زیادہ سے زیادہ بتیس سال رہی ہوگی۔
آنکھوں پر نفیس چشمہ ڈاکٹر چوہان کے وجیہ چہرے پر بہت سج رہا تھا۔ وہ امردیپ کو دیکھ کر گویا خوشی سے کھل اٹھا۔ اس نے نہایت تپاک سے امر دیپ کا خیر مقدم کیا اور پھر تخت پر بیٹھے بزرگ سردار سے کہا ’’لو جی امر سنگھ جی، میرے وہ مہمان آگئے ہیں جن کا میں انتظار کر رہا تھا۔ اب مجھے اجازت دیں۔ زندگی رہی تو پھر ملیں گے۔ گربچن بترا جی کو بتا دینا کہ ہو سکتا ہے اب میں چار پانچ دن بعد ہی حاضری دے سکوں۔ ست سری اکال!‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More