نذر الاسلام چودھری
بھارتی دارالحکومت دہلی کی ہائی کورٹ نے شہر بھر کے 40 ہزار سے زائد بندروں کی نس بندی (بانجھ بنانے) کا حکم دے دیا ہے۔ یہ آرڈر دہلی حکومت کے اس اعتراف کے بعد دیا گیا کہ وہ آوارہ بندروں کی یلغار روکنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ دہلی ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ ان بندروں کی نس بندی کے بعد ان پر ٹیگ بھی لگائے جائیں تاکہ ان کی شناخت کی جائے اور شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔ دوسری جانب بندروں کی نس بندی کی مقامی ہندو حلقوں نے شدید مخالفت کردی ہے اور کہا ہے کہ ’’مقدس ہنومان‘‘ کی نسل بڑھانے کی صلاحیت کو ختم کرنا ناقابل برداشت ہے۔ اگر حکومت نے ان بندروں کوکم کرنے کیلئے نس بندی کی کوشش کی تو اس کی سخت مزاحمت کی جائے گی۔ ہندو انتہاپسند تنظیم وی ایچ پی کے دہلی رہنمائوں نے میونسپل کارپوریشن اور اداروں کو کہا ہے کہ بندروں کی نس بندی کے بجائے شہریوں میں اصلی دکھائی دینے والے ربڑ کے سانپوں کی تقسیم کی جائے تاکہ بندر ان کو دیکھ کر خوفزدہ ہوجائیں۔ جبکہ بڑے فلیٹوں اور مکانوں کے مالکان کو چاہئے کہ وہ بڑے سائز کے کتے پالیں کیونکہ بڑے کتوں کو دیکھ کر اور ان کا بھونکنا سن کر بندر بھاگ جاتے ہیں۔ دہلی ہائی کورٹ کے روبرو جمع کرائی جانیوالی اس رپورٹ میں ’’تقدس‘‘ کے پردہ میں ’’بدمعاشی‘‘ کرنے والے بندروں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ بندر دہلی واسیوں کیلئے حقیقی خطرہ بنے ہوئے ہیں اور بچوں اور خواتین سے موبائل فون او ر ٹیبلٹ چھیننے کی متعدد وارداتوں میں ملوث ہیں۔ جب دہلی میونسپل کارپوریشن کے متعلقہ ڈپارٹمنٹ نے ان بندروں کو ’’گرفتار‘‘ کرکے 300 کلومیٹر دور جنگلات میں چھوڑا تو یہ کائیاں بندر ایک ایک کرکے واپس دہلی میں آگئے۔ ان کو ’’شہر بدر‘‘ کرنے کیلئے کی جانیوالی تمام کارروائیاں اور کروڑوں روپے کے فنڈز ضائع ہوچکے ہیں۔ دہلی میں موجود صحافی دھرم سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ مقدس کہلائے جانے والے بندر شہر دہلی میں میں خطرہ ہیں اور اسی لئے ہائی کورٹ نے ان بندروں کی نس بندی کا حکم دیا ہے تاکہ ان بندروں کو باپ بننے اور ہر سال بندروں کی نئی نسل کھڑی کرنے سے روکا جاسکے۔ بندروں کی بد معاشی پر بھارتی جریدے ڈیلی بھاسکر نے یاد دلایا ہے کہ 2012ء سے تاحال دہلی کے واسی اور خود مقامی عدالتیں اور پولیس اسٹیشنوں میں بندروں کی جانب سے کی جانے والی 100سے زیادہ وارداتوں کی ایف آئی آر درج کروائی جاچکی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق تیز ہزاری کورٹ کے اندر بندروں نے ہلہ بول کر تمام ریکارڈ چبا لیا اور پھاڑ دیا تھا جب کہ کمپیوٹرز کی کیبلیں توڑ دی تھیں اور متعدد کمپیوٹرز اور ساز وسامان کو تباہ کردیا تھا۔ جس پر بندروں کو کورٹ احاطہ سے نکالنے کیلئے بڑے سائز کے دشمن لنگوروں کا سہارا لیا گیا تھا جس سے اگرچہ تیز ہزاری کورٹ اور عدالتی کمپلیکس کو بندروں سے پاک کردیا گیا تھا، لیکن عدالتی نظام اور سامان کو نقصان پہنچانے والے ان سینکڑوں بندروں نے اپنی کارروائیوں کیلئے دیگر ملحق علاقوں کونشانہ بنا لیا تھا۔ دہلی ہائی کورٹ سمیت تیز ہزاری جوڈیشیل کمپلیکس اور دہلی کے سرکاری اداروں کی عمارتوں میں یہ ہدایات آج بھی دیواروں اور نوٹس بورڈز پر چسپاں ہیں کہ جن میں واضح الفاظوں میں دہلی والوں کو ہدایات دی گئی ہیں کہ بندروں کا سامنا ہونے پر ان سے آنکھیں نہ ملائی جائیں۔ ان کو کھانے پینے کا سامان نہ دیا جائے اور جب وہ خوخیائیں تو ان سے ڈر کر بھاگنا نہیں چاہئے ورنہ یہ آپ کو کاٹ سکتے ہیں۔ اس وقت دہلی کے بازاروں، اسکولوں، مارکیٹوں، فلیٹوں اور تفریح گاہوں میں بندروں کے ٹھٹ لگے ہوئے ہیں جو راہ گیروں اور بالخصوص سامان بیچنے والوں اور پھیری کرنے والوں کے سامان کے دشمن ہیں اور باقاعدہ اپنی پیٹ پوجا کیلئے غول کی شکل میں حملوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ٹائمز آف انڈیا نے بتایا ہے کہ دہلی میونسپل کارپوریشن اور فاریسٹ ڈپارٹمنٹ کے پاس صرف دو عدد بندر کے شکاری ہیں اور اس سلسلہ میں بندروں کو روکنے کیلئے مزید بندر شکاری درکار ہیں، جن کی بھرتی کیلئے سرکار کو اجازت دینی چاہئے۔ دہلی وائلڈ لائد سینچری کے ایک اہلکار اشوکا بھٹی کا کہنا ہے کہ بندر دہلی میں بڑے مسائل کا سبب ہیں۔ یہ آوارہ کتوںسے بھی زیادہ خطرناک ہیں کیوں کہ دہلی میں جہاں ہزاروں آوارہ کتوں کے کاٹے کے کیس ریکارڈ پر لائے جاتے ہیں وہیں بندروں کے کاٹے اور نوچنے کے کیس بھی تواتر سے سامنے لائے جارہے ہیں جن کو ’’ریبیز انجکشن‘‘ لگوائے جاتے ہیں۔ اگرچہ دہلی بلدیہ نے ایک بڑے جامع پروگرام اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے دبائو کے تحت تیس ہزار بندروں کو ایک سال کی قلیل مدت میں پکڑ پکڑ کر تین سے چار سو کلومیٹر کی دوری پر واقع گھنے جنگلات میں چھوڑ دیا تھا۔ لیکن ان بندروں کا حافظہ اور اسٹیمنا اس قدر قوی ہے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر اندر واپس دہلی میں اسی مقام پر پہنچ گئے جہاں ان بندروں کا ٹھکانا تھا۔ بندروں کی واپسی پر دہلی میونسپل کارپوریشن نے عدالت کو جمع کروائی جانے والی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بندروں کی واپسی نے شہر میں سنگین مسائل پیدا کردئے ہیںکیوں کہ ایک جانب دہلی کے آوارہ کتوں نے شہریوں کی جان کیلئے مسائل پیدا کئے ہیں تو لاکھوںکی تعداد میں آوارہ گھومتی بوڑھی گائے ماتا کے ریوڑوں نے شہر کو آلودہ کررکھا ہے۔ جبکہ بندروں نے تو اپنی حرکتوں سے شہر میں قیامت برپا کر رکھی ہے۔ ان کی حرکتوں سے غیر ملکی سیاح بھی محفوظ نہیں۔
٭٭٭٭٭
Prev Post