کراچی میں بھی پتنگ بازی شہریوں کی جان لینے لگی

0

امت رپورٹ
لاہور کی طرح کراچی میں بھی پتنگ بازی شہریوں کی جان لینے لگی۔ شہر میں پتنگ کی ڈور سے گلے کٹنے کے واقعات میں اضافہ ہوگیا۔ چار ماہ میں دو بچوں سمیت تین افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔ گزشتہ اتوار کو دو افراد کے گلے کٹنے کے واقعات نے شہریوں کو خوف زدہ کر دیا ہے۔ جبکہ قیمتی جانیں ضائع ہونے کے باوجود سندھ حکومت پتنگ بازی پر پابندی عائد نہیں کر رہی ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق کراچی کے آٹھ علاقوں میں مانجھا، ڈور اور پتنگیں تیار کر کے شہر بھر میں فروخت کی جا رہی ہیں اور یہ کاروبار پولیس کی سر پرستی میں کیا جا رہا ہے۔ ڈور سے گلے کٹنے کے واقعات کے بعد پولیس کا بھتہ بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے پولیس افسران کا کہنا ہے کہ پتنگ اڑانے اور خرید و فروخت پر پابندی نہیں ہے، لہذا کارروائی کیسے کریں۔ جبکہ گلے کٹنے کے واقعات کے بعد ورثا لاش یا زخمی فرد کو بغیر قانونی کارروائی کے اسپتال سے لے جاتے ہیں۔ ایسے میں یہ کس طرح معلوم ہو سکتا ہے کہ واقعہ کہاں رونما ہوا اور پتنگ یا مانجھا کس دکان کا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مانجھا بنانے کیلئے ڈور پر کیمیکل کے ساتھ شیشے کے چورے کی تہہ چڑھائی جاتی ہے، جس سے وہ تیز دھار چھری کی طرح خطرناک ہوجاتا ہے۔ کراچی میں 9 بل (تار) کا مانجھا تیار کر کے فروخت کیا جارہا ہے۔ جبکہ اس سے زائد نمبر کے دھاگے پر پابندی عائد ہے۔ تاہم شوقین پتنگ باز اس کو بھی استعمال کر رہے ہیں۔ ذرائع کے بقول شہر میں حادثات بڑھنے کے باوجود سندھ حکومت پتنگ بازی پر پابندی عائد نہیں کر رہی ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے اس سال فروری میں بسنت منانے کی اجازت دی گئی تھی۔ تاہم کچھ حادثات اور عوامی دبائو کے بعد دوبارہ پابندی عائد کردی گئی ہے۔ یوں تو پورے کراچی میں پتنگ بازی ہوتی ہے۔ لیکن آٹھ علاقوں لیاقت آباد، کورنگی، لانڈھی، شاہ فیصل کالونی، تین ہٹی، لائنزایریا اور نیو کراچی میں پتنگ بازی کے شوقین بہت ہیں اور ان ہی علاقوں میں پتنگیں اور مانجھا تیار کر کے شہر بھر میں سپلائی بھی کیا جاتا ہے۔
گزشتہ اتوار کی شام ملیر کینٹ کے علاقے گلشن سعدی کے قریب سڑک سے موٹر سائیکل پر گزرنے والے نوجوان قربان کی گردن ڈور پھرنے سے کٹ گئی۔ وہاں موجود لوگوں نے ڈور کو الگ کرکے اس کی کٹی ہوئی گردن پر کپڑا لپیٹ کر اسپتال پہنچایا، لیکن وہ دورانِ علاج جاں بحق ہوگیا۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ گلستان جوہر میں اونچی عمارتوںکی چھتوں سے پتنگیں اڑائی جاتی ہیں اور اکثر ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ دو ماہ کے دوران کئی افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ اتوار کو ہی دوسرا واقعہ جمشید کوارٹر کی حدود جہانگیر روڈ نمبر 2 پر ہوا، جہاں سے گزرنے والا شہروز گردن پر ڈور پھرنے سے شدید زخمی ہوگیا۔ اسے فوری طور پر سول اسپتال لے جایا گیا، جہاں اس کی حالت تشویش ناک ہے۔ کچھ عرصہ قبل لیاقت آباد کے علاقے غریب آباد میں بھی باپ کے ساتھ موٹر سائیکل پرجانے والا 5 سالہ انور گلے پر تیز دھار مانجھا پھرنے سے جاں بحق ہوگیا تھا۔ لیاقت آباد نمبر 4 پر موٹر سائیکل پر بھائی کے ساتھ گزرنے والا 7 سالہ شاہ زیب بھی شدید زخمی ہوا۔ جبکہ کورنگی نمبر دو پر چھ سالہ پرویز گلے پر ڈور پھرنے سے جاں بحق ہوا۔ اسی طرح شاہ فیصل کالونی نمبر 5 میں جمیل شدید زخمی ہوا۔ جبکہ اتوار کے روز دو افراد کے گلے کٹنے کے واقعات کے بعد آئی جی سندھ نے افسران سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔
واضح رہے کہ کراچی میں ایمپریس مارکیٹ پتنگ بازی کے سامان کی فروخت کا مرکز تھی۔ تاہم ایمپریس مارکیٹ کی دکانیں مسمار کئے جانے کے بعد پتنگیں، ڈور اور مانجھا وغیرہ کی دکانیں رینبو سینٹر اور اطراف کی عمارتوں میں منتقل ہوگئی ہیں۔ جبکہ ایمپریس مارکیٹ کے باہر خالی جگہ پر اب بھی سوزوکی اور رکشوں میں پتنگیں اور مانجھا لاکر فروخت کیا جا رہا ہے۔ وہاں پتنگیں فروخت کرنے والے شاکر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پولیس والے آکر بھتہ لے جاتے ہیں۔ پہلے یہاں ہر دکاندار سے یومیہ 200 روپے بھتہ وصول کیا جاتا تھا۔ لیکن ڈور پھرنے سے ہلاکتوں کے بعد پولیس والے ہزار روپے طلب کرتے تھے۔ تاہم پانچ سو روپے دیکر سیٹنگ کرلی جاتی تھی۔ اس وقت بھی رینبو سینٹر کی دکانوں میں پتنگیں، مانجھے اور مختلف اقسام کے دھاگے فروخت کئے جارہے ہیں۔ دکاندار جاوید کا کہنا تھا کہ مانجھے کے کارخانے لیاقت آباد، نیو کراچی اور کورنگی میں ہیں۔ مانجھے کی تیاری میں ابلے ہوئے چاول، پسا ہوا شیشہ، مخصوص گوند، مختلف رنگ اور ثابت اسپغول استعمال کیا جاتا ہے۔ مانجھا بنانے کیلئے شیشے کا پائوڈر 150 سے 200 روپے پاؤ ملتا ہے۔ مانجھے کے نمبر ہوتے ہیں۔ کراچی میں زیادہ تر6 اور 9 نمبر کی ڈور کا مانجھا استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ لاہور میں 16 سے 36 نمبروں کی ڈور کے علاوہ دھاتی ڈور بھی استعمال کی جاتی ہے۔ کراچی میں تیز دھار والے مانجھے استعمال ہوتے ہیں۔ مانجھا جتنا تیز ہوتا ہے، اتنا ہی مہنگا ہوتا ہے۔ 4 سو گز مانجھے کی چرخی 1500 سے 5 ہزار روپے تک فروخت ہوتی ہے۔ دکاندار جمیل نے بتایا کہ پہلے ایم کیو ایم والے ان کو سپورٹ کرتے تھے۔ لیکن اب پولیس سے سیٹنگ کرکے کام کرتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ سڑکوں کے کنارے اور عمارتوں کی چھتوں پر پتنگ بازی نہیں ہونی چاہئے۔ بلکہ شہر سے باہر پتنگ بازی کا شوق پورا کیا جائے۔ پتنگ جب کٹتی ہے تو اس کا مانجھا سڑک سے گزرنے والوں کیلئے خطرناک ہوتا ہے۔ جمیل نے بتایا کہ ڈائزائن اور سائز کے حساب سے پتنگ کے نام رکھے جاتے ہیں۔ جس پتنگ میں دُم کی جگہ پھنندا لگا ہوتا ہے، اس کو ’’بھرا‘‘ کہتے ہیں۔ دونوں طرف رنگین پٹیوں والی پتنگ ’’مانگ والی‘‘ کہلاتی ہے۔ جس پتنگ پر دو آنکھیں بنی ہوں، اسے ’’ببری‘‘ کہتے ہیں۔ پتنگ کی نوک پر بنے ڈیزائن کو ’’چڑیا‘‘ پٹی بولتے ہیں۔ کراچی میں پتنگ کا سب سے بڑا سائز 28 انچ کا ٹھڈا اور 40 انچ کی کمان والا ہوتا ہے۔ یہاں سے پتنگیں سندھ کے شہروں میں بھی جاتی ہیں۔ جبکہ لاہور میں پابندی کے بعد کراچی سے ڈور اور پتنگیں تیار کر کے بھیجی جاتی ہیں۔ بعض آبادیوں میں لوگ کام کاج سے فارغ ہوکر پتنگ بازی کرتے ہیں اور اس پر بھاری جوا بھی ہوتا ہے۔ تیز دھار مانجھے سے موٹر سائیکل سواروں، خصوصاً بچوں کی گردنیں کٹنے کے واقعات کے بعد شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پتنگ بازی خونی کھیل ہے اس پر فوری پابندی عائد کی جائے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More