عمران خان
میاں بیوی کا جھگڑا معصوم بچی کے قتل کا سبب بن گیا۔ گولیمار کی رہائشی شکیلہ جب اپنی کمسن بیٹی کو ساحل سمندر پر گھمانے کے بہانے لے گئی تو سمندر دیکھ کر معصوم بچی انعم خوشی سے تالیاں بجانے لگی۔ اس کی خوشی دیدنی تھی۔ لیکن اس کو کیا خبر تھی کہ آج ماں اس کو خوش دیکھ کر مسکرا نہیں رہی، بلکہ رو رہی ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو ہیں اور وہ بچی کو پانی میں پھینکنے کیلئے اپنے حوصلے کو مجتمع کر رہی ہے۔ پھر چشم فلک نے دیکھا کہ اپنی اولاد کیلئے سب کچھ وار دینے والی ہستی نے اپنے ہی ہاتھوں سے اسے پانی میں پھینکا اور منہ پھیر کر رونے لگی۔
پولیس کے مطابق اس واقعے کا اس وقت معلوم ہوا، جب کچھ لوگوں نے پولیس کو اطلاع دی کہ ایک خاتون نے اپنی بچی کو سمندر میں پھینک دیا ہے اور خود بھی خود کشی کیلئے کنارے پر کھڑی ہے۔ یہ اطلاع ملتے ہی تھانہ ساحل کی پولیس وہاں پہنچی اور خاتون کو اپنی حراست میں لے لیا۔ اطلاع دینے والے افراد اپنی گاڑی میں دو دریا کے ہوٹلوں پر جا رہے تھے۔ راستے میں انہوں نے ایک قدرے سنسان مقام پر پانی میں شکیلہ کو کھڑے دیکھا تھا۔
اس افسوسناک واقعے نے دیکھنے والوں کو اس وقت مزید افسردہ کر دیا جب سمندر نے معصوم بچی کی لاش کو کنارے پر لا چھوڑا۔ جسے پولیس نے تحویل میں لے کر رسمی کارروائی کیلئے جناح اسپتال منتقل کیا۔ جبکہ خاتون کا بیان قلمبند کر کے اس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔
اس ضمن میں ’’امت‘‘ کو پولیس کے ایک سینئر افسر نے آگاہ کیا کہ اس واقعے میں خاتون شکیلہ کے علاوہ ایک اہم گرفتاری اور ہونی ہے، جس کیلئے پولیس تیار ہے۔ تاہم یہ گرفتاری آئندہ آنے والے دنوں میں کی جائے گی۔ نام بتانے کے بجائے پولیس افسر کا کہنا تھا کہ جس شخص کو گرفتار کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے، وہ شکیلہ اور معصوم بچی انعم کا قریبی عزیز ہے اور اس کا بھی اس قتل میں اہم کردار ہے۔
تھانہ ساحل پولیس کی ایس ایچ او انسپکٹر غزالہ نے ’’امت‘‘ کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ کراچی کے علاقے گولیمار کی رہائشی خاتون نے حالات سے تنگ آکر کمسن بیٹی کو سی ویو کے قریب سمندر میں پھینک دیا۔ خاتون کی خود کشی کی کوشش موقع پر موجود افراد نے ناکام بنادی۔ جبکہ ملزمہ کو گرفتار کرلیا گیا۔ خاتون انسپکٹر کے مطابق شکیلہ زوجہ رشید کراچی کے علاقے گولیمار کی رہائشی ہے۔ جس نے سی ویو کے علاقے ساحل ایونیو کے قریب سمندر میں جاکر پہلے اپنی ڈھائی سالہ بیٹی انعم کو سمندر میں پھینکا۔ تاہم جب اس نے خود بھی سمندر میں ڈوبنے کی کوشش کی تو موقع پر موجود افراد نے اسے پکڑ لیا اور پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر شکیلہ کو حراست میں لے لیا۔ خاتون کے ابتدائی بیان کے مطابق شوہر نے ایک ماہ قبل اسے بچی سمیت گھر سے نکال دیا تھا۔ جبکہ اس کے باپ نے بھی اپنے گھر میں رہنے کیلئے جگہ نہیں دی۔ جس کے نتیجے میں وہ در بدر ہوگئی۔ خاتون کے بقول شوہر لیب ٹیکنیشن ہے۔ معاشی حالات ابتر ہونے کی وجہ سے گزر بسر کرنا بھی محال ہوگیا تھا۔ اپنوں کے نامناسب رویے، تنگ دستی اور مالی حالات کی وجہ سے دل برداشتہ ہوکر اس نے بیٹی سمیت موت کو گلے لگانے کا منصوبہ بنایا۔ ایس ایچ او غزالہ نے بتایا کہ بچی کو تلاش کرنے کیلئے انہوں نے فوری طور پر غوطہ خوروں کو بلایا، جنہوں نے بچی کی لاش سمندر سے نکالی۔ جبکہ پولیس نے ملزمہ شکیلہ کے خلاف دفعہ 302 کے تحت مقدمہ نمبر 19/09 درج کرلیا ہے۔
خاتون شکیلہ نے پولیس کی حراست میں ’’امت‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اسے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے اس کے لئے اس معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس صورتحال میں بچی کے مستقبل کے حوالے وہ پریشان ہو گئی تھی کہ اب اس کا کیا ہوگا۔ کیونکہ شوہر اسے ذہنی اذیت دیتا اور گھر سے نکال دیتا تھا۔ ایسے میں جب وہ اپنے والدین کے گھر آتی تو اسے کہا جاتا کہ اب تم شادی شدہ ہو، ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے اور تمہاری شادی کرادی ہے۔ تم شوہر کے پاس ہی رہو، وہی تمہارا گھر ہے۔ تم اس کے ساتھ سمجھوتا کرکے رہو۔ یہی وہ تمام صورتحال تھی، جس نے اس کے ہوش و حواس سلب کر دیئے اور اس سے یہ کام ہوگیا۔
شکیلہ کے شوہر کو جب اس واقعے کی اطلاع ملی تو وہ بھی تھانے آیا۔ جہاں آتے ہی اس نے شکیلہ کو دبوچ لیا اور اسے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر چیختے ہوئے کہنے لگا کہ ’’تم نے میری بچی مار دی۔ تم خود کیوں نہیں مر گئیں‘‘۔ جس پر اطراف میں موجود پولیس والوں نے شوہر سے شکیلہ کو چھڑایا اور اسے دور بٹھا دیا گیا۔
مذکورہ واقعے کے بعد شکیلہ کے والدین کے گھر سے بھی تمام افراد تھانے آئے اور سسرال والے بھی پہنچے۔ جب معصوم بچی کی لاش تھانے منتقل کی گئی تو انعم کے رشتہ داروں کے علاوہ تھانے میں موجود ہر شخص اور پولیس اہلکار بھی اشک بار تھے۔ مقتولہ بچی کے کپڑے جو اس کی ماں نے بہت تیار کرنے کے بعد پہنائے تھے، سمندر کے پانی اور ریت میں لتھڑے ہوئے تھے۔ تاہم انعم کے معصوم سے چہرے پر عجب سکون اور اطمینان کی کیفیت تھی۔
ایس ایس پی انوسٹی گیشن سائوتھ طارق رزاق دھاریجو نے ’’امت‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’خاتون شکیلہ کو حراست میں لے کر مقدمہ درج کرکے اسے عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔ جہاں سے پولیس نے اپنی تفتیش مکمل کرنے کے لئے عدالت سے تین روز کا ریمانڈ حاصل کرلیا ہے۔ اس دوران شکیلہ کے اعترافی بیان کو مجسٹریٹ کے سامنے دفعہ 164 کے تحت قلمبند کیا جائے گا اور یہی ثبوت ہوگا۔ کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ کسی نے بھی شکیلہ کو بچی کو سمندر میں پھینکتے ہوئے نہیں دیکھا‘‘۔ طارق رزاق دھاریجو نے تصدیق کی کہ اس کیس میں ایک اور گرفتاری ہونی ہے۔ کیونکہ پولیس سمجھتی ہے کہ جس شخص کو گرفتار کیا جانا ہے، وہ اس قتل کا سبب بنا ہے۔
٭٭٭٭٭