مرزا عبدالقدوس
میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری سے متعدد ملاقاتوں کے باوجود مولانا فضل الرحمان مسلم لیگ ’’ن‘‘ اور پیپلز پارٹی کے درمیان موجود فاصلے ختم کرنے اور حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت میں قربت پیدا کرنے میںکامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ تاہم جے یو آئی کے سربراہ اس ناکامی کے باوجود مایوس نہیں ہیں۔ کیونککہ ان کی سیاسی کامیابی اسی میں ہے کہ کچھ بھی ہو، قومی مفاد اور ملکی استحکام و ترقی کے نام پر موجودہ حکومت کے خلاف وہ ایک مؤثر اتحاد بنانے میں کامیاب ہوجائیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے قریبی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی سیاسی بقا کا انحصار ان کی موجودہ سیاسی کوششوں کی کامیابی پر ہے۔ وہ ان ہاؤس تبدیلی کے بجائے اگلے سال مڈ ٹرم الیکشن کے لئے راہ ہموار کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت کے خلاف مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو متحد کرنے کے لئے مولانا فضل الرحمان اب بھی مایوس نہیں ہیں اور نہ انہوں نے اپنی کوششیں ترک کی ہیں۔ کیونکہ جے یو آئی کے سربراہ کو بخوبی اندازہ ہے کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری بڑے سلجھے ہوئے اور تجربہ کار سیاسی کھلاڑی ہیں اور وہ اس وقت ہی پوری طرح ایک پیج پر آئیں گے، جب ان کو اپنا اپنا سیاسی فائدہ نظر آئے گا۔ جمعیت علمائے نے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان کے قریبی ذرائع کے مطابق ان کی مرحلہ وار کوششوں کی وجہ سے ہی اسمبلی ایوان میں شہباز شریف اور آصف زرداری نے گرمجوشی سے ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ کیا اور پھر شہباز شریف کی زیر صدارت پارلیمانی لیڈروں کا اجلاس ہوا، جس میں آصف علی زرداری شریک ہوئے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی میں چونکہ دونوں بڑی جماعتیں نہ صرف ایک دوسرے کی کئی دہائیوں تک سیاسی حریف رہی ہیں، بلکہ نون لیگ اور پی پی نے باہمی معاہدے کرنے کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ ’’سیاسی وارداتیں‘‘ بھی کی ہیں، جس کی وجہ سے بد اعتمادی نے جنم لیا۔ اب یہی بد اعتمادی نواز شریف اور آصف زرداری کو ایک دوسرے پر مکمل اعتماد کرنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ یہی سبب ہے کہ کئی اہم قومی و ملکی امور پر یکساں موقف رکھنے کے باوجود ان دونوں جماعتوں میں مشترکہ سیاسی حکمت عملی اختیار کر کے اپنے خلاف انتقامی سیاسی کاروائیوں کے خلاف مشترکہ عملی جدوجہد پر اتفاق نہیں ہو پارہا۔ جے یو آئی (ف) کے ذرائع کے مطابق الیکشن 2018ء کے فوی بعد مولانا فضل الرحمان کی کوشش ہی سے یہ ممکن ہوا کہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ اور پیپلز پارٹی نے الیکشن نتائج کے بارے میں مشترکہ موقف اختیار کیا۔ جس کی وجہ سے چھوٹی جماعتیں بھی ان کے ساتھ کھڑی ہوئیں اور ایک بڑے اتحاد کی شکل بن گئی۔ لیکن پھر وزیر اعظم اور صدر مملکت کے انتخاب کے موقع پر جو تقسیم ہوئی، اس نے اس اتحاد کو نقصان پہنچایا۔ اور یہی وجہ ہے کہ اب تک عملی طور پر یکجا ہونے کی نوبت نہیں آسکی ہے۔ لیکن مولانا فضل الرحمان چونکہ نواز شریف، شہباز شریف اور آصف زرداری کے سیاسی موقف سے آگاہ ہیں اور ان کی سیاسی حکمت عملی کی مجبوریوں، ضرورتوں اور ایک دوسرے پر عدم اعتماد کی کیفیت کو بھی بخوبی سمجتے ہیں، اس لئے فی الحال وہ کسی فوری اتحاد کے لئے پرامید نہیں۔ لیکن وہ مایوس بھی نہیں ہیں۔ ان ذرائع کے بقول پیپلز پارٹی کی قیادت ایک مشترکہ اور مضبوط اپوزیشن بنانے کے لئے سنجیدہ ہے اور وہ نون لیگ کی مرکزی ہائی کمان کے ساتھ کسی بھی وقت ملنے پر آمادہ بھی ہے۔ جیسا کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے نہ صرف پارلیمنٹ ہائوس میں میاں شہباز شریف سے غیر رسمی ملاقاتیں کی ہیں، بلکہ ان کی دعوت پر پارلیمانی لیڈروں کے مشترکہ اجلاس میں شریک بھی ہوئے۔ لیکن نواز شریف کو آصف علی زرداری کی زیر قیادت پی پی پر ابھی کچھ تحفظات ہیں۔ جس سے انہوں نے مولانا فضل الرحمان کو اعتماد میں لے کر انہیں مزید کچھ وقت کے لئے صورت حال کا جائزہ لینے اور انتظار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ان ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان کو نواز شریف کے تحفظات اور اندیشوں سے کافی حد تک اتفاق ہے۔ لیکن انہوں نے نواز شریف کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ملک معاشی لحاظ سے لے کر نظریاتی محاذ تک ہر معاملے میں انحطاط اور پستی کی طرف گامزن ہے۔ اگر اسے مزید کچھ عرصے کے لئے موجودہ قیادت یعنی عمران خان حکومت کے سپرد رہنے دیا گیا تو یہ بڑا قومی المیہ ہوگا اور اس سے ملک کو بڑا شدید نقصان ہو سکتا ہے۔ اس لئے مولانا کی کوشش ہے کہ دونوں جماعتیں آپس کے اختلافات اور بد اعتمادی کی فضا کو پس پشت ڈال کر قومی مفاد میں مشترکہ جدوجہد پر آمادہ ہوجائیں۔ اس مقصد کے لئے مولانا فضل الرحمان نے 2020ء کو مڈٹرم الیکشن کا سال قرار دینے کی تجویز دی ہے اور وہ پُر امید ہیں کہ اس حکومت کے ہر شعبے میں بدترین کارکردگی کے پیش نظر اسے لانے والے بھی اگلے سال انتخابات کرانے پر مجبور ہوں گے۔ ان ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان نون لیگ اور پی پی قیادت کو اس بات پر آمادہ کر رہے ہیں کہ غیر سیاسی صورت حال کا حل ان ہاؤس تبدیلی نہیں، بلکہ مڈٹرم الیکشن ہیں۔
متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے رکن قومی اسمبلی اور جے یو آئی (ف) کے رہنما منیر اورکزئی نے اس حوالے سے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کی کوشش اور ملاقاتوں کے بعد ہی نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت ایک دوسرے کے ملنے پر ہی آمادہ نہیں، بلکہ ایک ساتھ چلنے پر بھی اصولی طور پر آمادہ ہے۔ لیکن دونوں کے درمیان اعتماد کی فضا پیدا ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔ ایک سوال پر منیر اورکزئی کا کہنا تھا کہ ’’مولانا فضل الرحمان کا آصف زرداری اور نواز شریف سے قریبی تعلق رہا ہے اور اب بھی مؤثر رابطہ ہے۔ وہ مایوس نہیں ہیں۔ کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں اور ان کے قائدین بڑے سلجھے ہوئے سیاست دان ہیں۔ یقیناً قومی مفاد میں بہت جلد مولانا فضل الرحمان کی کوششوں کے نتیجے میں اکٹھے ہوں گے اور ان کی اس جدوجہد کے نتیجے میں ہی ملک میں بڑی سیاسی تبدیلی ممکن ہوگی‘‘۔
٭٭٭٭٭