محمد قاسم
افغان طالبان کا کہنا ہے کہ انہیں امریکی حکام نے خود کہا ہے کہ 25 فروری کو ہونے والے مذاکرات میں پیشرفت پر یکم اپریل سے انخلا شروع کیا جائے گا، جو یکم جولائی 2020ء تک جاری رہے گا۔ انخلا کیلئے 18 مہینے کی ٹائم لائن دی گئی ہے، جس پر طالبان رضامند ہیں۔ تاہم کچھ ایسے مسائل ہیں، جن پر ابھی پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔ جس میں طالبان قیادت کے نام بلیک لسٹ سے نکالنا، انس حقانی سمیت دیگر طالبان رہنمائوں کی رہائی اور افغانستان میں موجود امریکی اسلحہ واپس لے جانے جیسے معاملات شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق ماسکو کانفرنس میں افغان سیاستدانوں اور سابق جہادیوں نے طالبان کے دو مطالبات نہ صرف مان لئے ہیں، بلکہ امریکی افواج کے مکمل انخلا اور افغانستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کیلئے مشترکہ جدوجہد کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ اس حوالے سے حتمی فیصلہ دوحہ میں ہونے والے گرینڈ جرگے میں کیا جائے گا۔
افغان طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے رکن ملا عبد السلام حنفی کے حوالے سے مختلف ذرائع ابلاغ میں چھپنے والی اس خبر پر کہ امریکہ یکم اپریل سے اپنی فوج کے انخلا کا آغاز کرے گا، امریکی نمائندے سربراہ زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ امریکہ نے کوئی ٹائم ٹیبل نہیں دیا ہے۔ اس پر افغان طالبان کے اہم رہنما ملا زاہد کا کہنا ہے کہ طالبان کو امریکی حکام نے خود بتایا ہے کہ 25 فروری کو قطر میں ہونے والے مذاکرات میں پیشرفت ہونے پر یکم اپریل سے انخلا کا آغاز کر دیا جائے گا۔ ملا عبدالسلام حنفی نے جو بات کی ہے، وہ امریکی حکام کی طالبان کو کہی ہوئی بات ہے۔ انہوں نے اپنی جانب سے کچھ نہیں کہا۔ لہذا اس پر کوئی کنفیوژن نہیں ہے اور نہ ہی طالبان کو کوئی تشویش ہے۔ امریکہ کل انخلا شروع کر دے یا یکم اپریل سے کرے۔ طالبان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ طالبان گزشتہ اٹھارہ سال سے لڑ رہے ہیں اور آئندہ بھی لڑیں گے۔ اس سال طالبان نے سردیوں میں بھی بڑے حملے جاری رکھے، جن کا مقصد دنیا کو یہ پیغام دینا تھا کہ طالبان موسم سرما میں بھی بڑے حملوں کی طاقت رکھتے ہیں۔ معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان انخلا کیلئے جس مدت کا تعین ہوا ہے، وہ اٹھارہ مہینے کی ہے۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں ہے۔ 25 فروری کو ہونے والے مذاکرات میں طالبان رہنمائوں کے نام بلیک لسٹ سے نکالنے، افغانستان سے امریکی اسلحے کی واپسی اور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی کے بھائی انس حقانی سمیت ہائی پروفائل طالبان قیدیوں کی رہائی کے مسئلے پر بات چیت ہو گی اور ان معاملات پر پیش رفت کا امکان ہے۔ طالبان ذرائع کے بقول ماسکو کانفرنس کا اعلامیہ بھی امریکی حکام کے سامنے رکھا جائے گا، جس پر تمام افغان دھڑوں نے دستخط کئے ہیں۔ ماسکو کانفرنس کے اعلامیے میں افغانستان کے سیاستدانوں اور سابق جہادیوں نے طالبان کے دو اہم مطالبات سے اتفاق کیا ہے جس میں امریکی فوج کا انخلا اور افغانستان میں اسلامی اور فلاحی ریاست کا قیام شامل ہے، جس میں تمام دھڑوں کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ ذرائع کے بقول ماسکو میں سابق جہادیوں اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں طالبان نے نہ صرف چالیس سال سے جاری تنازعہ ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے، بلکہ افغان جہادیوں کی روس کیخلاف جدوجہد کو بھی تسلیم کرلیا ہے اور کہا ہے کہ افغان جہاد کے حوالے سے جو کوتاہیاں ہوئی ہیں اب انہیں درست کرنے کا وقت آگیا ہے۔ اس حوالے سے افغان طالبان نے تجویز پیش کی کہ مغربی جمہوریت کے ذریعے تمام افغان دھڑوں کو حکومت میں شامل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ تاہم اگر ہم فلاحی اسلامی مملکت کا قیام عمل میں لاتے ہیں تو اس میں تمام افغان دھڑوں اور سیاستدانوں کو حصہ ملے گا اور سب مل کر افغانستان کی تعمیر نو بھی کریں گے۔ جس پر حامد کرزئی سمیت سابق جہادیوں نے اتفاق کیا۔ تمام افغان دھڑوں نے کہا کہ اگر امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں پیشرفت ہوتی ہے تو طالبان کی حمایت کی جائے گی اور انہیں مزید سیاسی تعاون دیا جائے گا اور وسیع البنیاد حکومت بنانے کے حوالے سے حتمی فیصلہ طالبان، افغان سیاسی دھڑوں اور سابق جہادیوں کے درمیان 25 فروری کے بعد دوحہ میں ہونے والے گرینڈ جرگے میں کیا جائے گا۔ ذرائع کے بقول اس جرگے میں طالبان وفد کی قیادت ملا عمر کے قریبی ساتھی ملا برادر کریں گے۔ طالبان نے حامد کرزئی کو اجازت دی ہے کہ وہ تمام افغان دھڑوں کی قیادت کر سکتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ حکومت میں آنے کے بعد 1996ء والا رویہ نہیں اپنائیں گے اور نہ ہی سخت قوانین بنائے جائیں گے۔ زیادہ توجہ افغانستان کی تعمیر نو پر دی جائے گی۔ افغان طالبان نے اس حقیقت کو بھی تسلیم کیا ہے کہ ملک کی تعمیر نو وہ تنہا نہیں کر سکتے، اس لئے تمام افغان دھڑوں کے ساتھ مل کر کام کیا جائے گا۔
٭٭٭٭٭