نجم الحسن عارف
قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی (پی اے سی) کی سربراہی سے مسلم لیگ نواز کے صدر اور قائدحزب اختلاف کو ہٹانے کیلئے پی ٹی آئی حکومت کے پاس تحریک عدم اعتماد لانے کا آپشن موجود ہے۔ کمیٹی کے 17 حکومتی ارکان یہ آپشن استعمال تو کرسکتے ہیں، لیکن اس کے ردعمل میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بھی وزیر اعظم کیخلاف نو کانفیڈنس کی قرارداد پیش کئے جانے کا امکان پیدا ہوجائے گا۔ یوں پی اے سی سربراہی کی خاطر پی ٹی آئی کی حکومت ہی جانے کا خدشہ موجود ہے۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشار نے حکومت کو پی اے سی سربراہی کے معاملے پر چھیڑ چھاڑ کرنے سے گریز کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
پی اے سی سربراہ کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے علاوہ حکومت کے پاس دوسرا آپشن قانون سازی کا ہے، جو موجودہ حالات میں ممکن نہیں۔ قانون سازی کے ذریعے حکومت 10 برس سے قائم اس روایت کا خاتمہ کر سکتی ہے کہ کمیٹی کا سربراہ صرف اپویشن لیڈر ہوگا، لیکن اس صورت میں بھی پارلیمنٹ کی ورکنگ تعطل کا شکار ہوسکتی ہے۔ کیونکہ اپوزیشن جماعتیں حکومت کی اس جارحانہ حرکت کا ترکی بہ ترکی جواب دینے کیلئے یکجہت ہوں گی۔ ذرائع کے مطابق اس صورت میں بھی ایک جانب پارلیمنٹ، قانون سازی کے معاملات میں ناکام ہوجائے گی تو دوسری طرف اپوزیشن وزیراعظم کو گھر بھیجنے کے انتہائی اقدام کی طرف بڑھ جاسکتی ہے۔
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشار کا کہنا ہے کہ اگر حکومتی ارکان نے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سربراہ کے خلاف اپنی اکثریت کی بنیاد پر تحریک عدم اعتماد پیش کی تو یہ تحریک بالواسطہ طور پر اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے خلاف جائے گی۔ کیونکہ چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی، اسپیکر کے احکامات سے مقرر ہوئے ہیں۔ بلاشبہ پبلک اکائونٹس کمیٹی میں حکومتی ارکان کی اکثریت ہے۔ وہ چاہیں تو تحریک لا سکتے ہیں لیکن اس کے بعد اصل نقصان حکومت کو ہوگا۔ اپوزیشن فائدے میں رہے گی۔ واضح رہے کہ اگر پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے حکومتی ارکان پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سربراہ شہباز شریف کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں یا کامیاب ہوتے ہیں تو یہ پاکستان کی کم از کم حالیہ پارلیمانی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہوگا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے کبھی پارلیمانی کمیٹیوں میں اس طرح کی صورتحال پیدا نہیں ہوئی۔ بلکہ ہمیشہ حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ پارلیمان کی کمیٹیاں کام کرتی رہیں اور پارلیمنٹ کی ’’ورکنگ اسموتھ‘‘ رہے، تاکہ قانون سازی میں کوئی رخنہ نہ آئے۔ سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشار نے ’’امت‘‘ کے ایک سوال پر یہ بھی کہا کہ اگر چیئرمین نیب یا ان کی ٹیم کے لوگ سمجھتے ہیں کہ پی اے سی کے سربراہ انہیں کسی ایسے معاملے میں بلارہے ہیں جس کی وجہ سے نیب کی تحقیقات یا کسی ریفرنس پر منفی اثر پڑسکتا ہے تو وہ پی اے سی میں جانے سے معذرت کرسکتے ہیں۔ لیکن جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ حکومت چیئرمین نیب اور ان کے رفقا کو پی اے سی کے سامنے پیش نہ ہونے میں سہولت دے سکتی ہے؟ تو ایسا نہیں ہے۔ اگر چیئرمین نیب عدالت سے رجوع کریں تو انہیں عدلیہ سے ہی اس کی اجازت مل سکتی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ حکومتی نمائندوں کی طرف سے نیب حکام کو پی اے سی میں گاہے گاہے بلانے پر جو تحفظات ظاہر کئے گئے ہیں، وہ بلاجواز نہیں ہیں۔ لیکن اس کے باوجود میں یہ کہوں گا کہ حکومت شہباز شریف کو پی اے سی کی سربراہی سے ہٹانے سے گریز کرے۔ بلکہ ان کیخلاف نیب ریفرنس کے حوالے سے فیصلوں کا انتظار کرے۔ اگر نیب کورٹ انہیں سزا دیتی ہے تو ان کی اسمبلی رکنیت خود کار طریقے سے ختم ہو جائے گی۔ اس لئے حکومت کو پارلیمان کی ورکنگ تعطل میں ڈالنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے، نہ ہی خود حکومت کیلئے خطرے کی گھنٹی بجانی چاہئے۔ جب پی اے سی چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہوگی تو اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم عمران خان کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد لانے میں دیر نہیں کرے گی۔
’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں سابق وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور و قانون محمود بشیر ورک سے بھی بات چیت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے شہباز شریف کو خوشی سے پی اے سی کا سربراہ نہیں بنایا تھا۔ اگر اپوزیشن جماعتیں اپنا دبائو نہ بڑھاتیں تو حکومت کسی بھی صورت میں قائد حزب اختلاف کو پی اے سی کا سربراہ بنانے کو تیار نہ تھی۔ لیکن جب حکومت نے اپوزیشن کا اصولی موقف تسلیم کرلیا تو اس کے بعد پارلیمان کے اندر حالات میں بہتر آئی۔ اب اگر حکومت پھر سے چیئرمین پی اے سی کے خلاف متحرک ہونے کی تیاری کر رہی ہے تو یہ بھی کرکے دیکھ لیں۔ جب یہ اپنی مرضی کرلیں گے تو پھر ہم بھی انہیں جواب دے سکتے ہیں۔ انہیں ہم سے زیادہ اچھی امید نہیں رکھنی چاہئے۔ ہماری تو کوشش ہے کہ پارلیمانی نظام چلے۔ لیکن حکمراں جماعت کا رویہ غیر ذمہ دارانہ ہے۔ پھر بھی ہمیں امید ہے کہ وہ کسی انتہائی قدم سے باز رہیں گے اور ہوش کے ناخن لیں گے۔ سابق وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ حکومت محض چار پانچ ووٹ کے فرق سے قائم ہے۔ اگر یہ تحریک عدم اعتماد کی طرف جائیں گے تو پھر ہمیں بھی اسی طرح جانا پڑے گا۔ اس کی ذمہ داری بھی پھر انہی پر ہوگی۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے پائوں پر خود کلہاڑی مارنے میں ثانی نہیں رکھتے۔ ان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک معاشی طور پر بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ ہر شہری اس حکومت کی وجہ سے معاشی تنگدستی کا شکار ہوگیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں محمود بشیر ورک نے کہا کہ شہباز شریف کو پی اے سی نے بلامقابلہ چیئرمین منتخب کیا ہے۔ انہیں منتخب کرانے میں حکومتی ارکان بھی شامل ہیں۔ ایک اور بات عرض کرتا چلوں کہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سمجھدار آدمی ہیں۔ وہ پارٹی معاملات کے خلاف نہیں جارہے بلکہ پارٹی کے مفاد کو دور تک دیکھنے کی کوشش میں ہیں۔ اب تک تو اسپیکر قومی اسمبلی غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں۔ امید ہے وہ اپنے اسی کردار کو جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ نیب حکام کو پی اے سی میں طلب کرنے کا الزام بے بنیاد ہے۔ یہ بات پہلے سے طے ہوچکی ہے جب ہماری پارٹی کے دور کے آڈٹ یا دیگر ایشوز زیر بحث ہوں گے تو شہباز شریف اجلاس کی صدارت نہیں کریں گے۔ تاحال یہ نوبت نہیں آئی مگر آئندہ کبھی ایسا کوئی موقع آیا تو یقیناً پارلیمانی روایات کی رو سے شہاز شریف اجلاس کی صدارت نہیں کریں۔٭
٭٭٭٭٭
Prev Post