احمد نجیب زادے
ترک ذرائع ابلاغ نے بتایا ہے کہ معروف یوغور شاعر، دانشور اور لوک گلوکار کو چینی حراستی مرکز میں شہید کر دیا گیا ہے۔ عبد الرحیم حیات کو دو سال پہلے دہشت گردی پر اکسانے کے الزام میں آٹھ سال کیلئے سلاخوں کے پیچھے دھکیلا گیا تھا۔ انسانی حقوق تنظیموں کے مطابق ان کو حراستی کیمپ میں قید تنہائی میں رکھ کر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس کے سبب وہ جانبر نہ ہوسکے۔ چینی اتھارٹیز کے حوالے سے عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یوغور شاعر عبد الرحیم حیات کو گزشتہ برس چینی حکام نے ماورائے عدالت مقدمہ چلا کر دہشت گردی پر اکسانے کے الزام میں آٹھ برس قید کی سزا سنائی تھی۔ چینی حکام نے ان کی شہادت کی تصدیق سے احتراز کیا ہے۔ البتہ سماجی رابطوں کی عالمی سائٹس پر عبد الرحیم حیات کی شہادت کی خبر کی تصدیق کی جارہی ہے۔ ادھر یوغور مسلمانوں نے عبد الرحیم حیات کی شہادت پر اسٹاک ہوم، نیویارک اور استنبول میں چینی سفارتخانوں کے سامنے بیجنگ حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے ہیں۔ نیویارک کے مظاہرے میں شریک امریکی یوغور کمیونٹی کے رکن احیان اوزمیکاک نے اپنے خطاب میں کہا کہ عبد الرحیم حیات جیسے عظیم شاعر کی شہادت سے چینی حکومت کی مسلمانوں کے حوالے سے اپنائی جانے والی بد ترین پالیسی کا اظہار ہوتا ہے۔ سویڈن کے شہر اسٹاک ہوم میں بھی چینی مسلمان نے گزشتہ روز ایک مظاہرہ منعقد کیا، جس میں یوغور مسلمانوں نے اپنے ہم وطن مسلمانوں کے خلاف چینی حکومتی کریک ڈائون کی مذمت کی۔ ترک میڈیا کے مطابق ترکی کے وزیر خارجہ نے ایک بیان میں چینی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ یوغور مسلمانوں کیلئے قائم حراستی مراکز بند کردے۔ کیونکہ یہ انسانیت کو شرمندہ کرنے کا عمل ہے۔ ترک میڈیا نے لکھا ہے کہ چین میں مسلمانوںکی تعداد دو کروڑ سے زیادہ ہے، لیکن ان کو چینی اتھارٹیز کی جانب سے مسلسل نگرانی اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اقوم متحدہ کی ایک رپورٹ میں بھی واضح کیا جاچکا ہے کہ چینی حکومت نے دس لاکھ سے زیادہ مسلمان مرد و خواتین کو حراستی مراکز میں رکھا ہوا ہے، جہاں ان کی برین واشنگ کی جارہی ہے۔ جبکہ ترکستانی نسل کے مسلمانوں کی ثقافت اور اسلامی شناخت کو چینی حکام کے تربیتی عمل سے خطرہ لاحق ہے۔ ترک جریدے ینی شفق نے بتایا ہے کہ عبد الرحیم حیات کو چینی سیکورٹی فورسز نے دہشت گردی پر اکسانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ حالانکہ انہوں نے اپنے ترک آبا و اجداد کی مدح سرائی کی تھی اور ایک مقبول گیت ’’میرے آبا و اجداد‘‘ کے نام سے ترتیب دیا تھا، جس میں ’’جہاد‘‘ اور ’’شہادت‘‘ کے الفاظ نے چینی اتھارٹیز کے کان کھڑے کردیئے اور ان کو 2016ء میں گرفتار کرلیا گیا۔ ان پر ’’دہشت گردی‘‘ کو فروغ دینے کا سنگین الزام عائد کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ عبد الرحیم کئی مرتبہ حیات چین کے سرکاری طائفہ میں شریک بھی رہے۔ انہوں نے متعدد چینی تقریبات میں اپنے فن کا مظاہرہ کرکے عالمی و مقامی سطح پر شہرت پائی تھی۔ سائوتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے بتایا ہے کہ چین اور ترکی کے درمیان اچھے سفارتی و تجارتی تعلقات ہیں۔ لیکن اب ترک حکومتی ردعمل کے بعد چین کا موقف سامنے نہیں آیا ہے، جس میں تمام حراستی مراکز بند کرنے اور یوغور مسلمانوں کو رہائی دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ترک اتھارٹیز نے چینی حکومت سے مطالبہ کیا ہے وہ یوغور مسلمانوں کی سالمیت اور انسانی حقوق کا احترام کرے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی متعدد مواقع پر عبد الرحیم حیات کو رہا کر نے کی اپیلیں کی تھیں۔ جبکہ ہیومن رائٹ واچ نے بھی عبد الرحیم کی بلا وجہ گرفتاری کو المیہ قرار دیا تھا۔ لیکن چینی حکومت نے ان کو رہا کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ترک میڈیا نے اتوار کے روز عبد الرحیم حیات کی تشدد کے سبب شہادت کی خبریں شائع کی ہیں۔ ترک وزیر خارجہ حامی ایکسوین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ چینی حکومت کے طرز عمل سے واضح ہوگیا ہے کہ حراستی مراکز میں قید مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر دین سے دور کیا جارہا ہے۔ اگرچہ زنجیانگ، تبت کی طرز پر ایک خود مختار علاقہ ہے۔ لیکن یہاں آباد یوغور مسلمانوں کیخلاف مسلسل کریک ڈائون کیا جاتا ہے اور ان کو اپنی مادری زبان بولنے سمیت اسلامی شعائر پر عمل کرنے پر بھی گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ ترک وزارت خارجہ کے ایک بیان میں اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ چینی حکومت کی جانب سے یوغور مسلمانوں کیخلاف کریک ڈائون اور تشدد کا نوٹس لیا جائے۔ اس سلسلے میں عالمی برادری کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ چینی حکومت پر دبائو ڈالیں اور زنجیانگ ریجن میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو ختم کرائیں۔ ادھر ’’مسلم نیوز یو کے‘‘ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یوغور مسلمانوں کے حراستی مراکز میں چینی حکام، تمام قیدیوں سے زبردستی مشقت کرا رہے ہیں اور ان سے متعدد اقسام کا گھریلو اور کمپیوٹرز کا سامان بھی بنوا رہے ہیں، جس کو چینی حکومت ایکسپورٹ کرکے زر مبادلہ کما رہی ہے۔ اس سلسلہ میں جریدے نے امریکی نارتھ کیرولینا فرم بیجر اسپورٹس ویئر کا نا م لے کر تصدیق کی ہے کہ چینی حکام حراستی مراکز میں مسلمان قیدیوں سے بنوایا جانے والا کھیلوں کا سامان امریکی کمپنیوں کو ایکسپورٹ کررہی ہے۔ حالانکہ امریکی قوانین کے تحت کسی بھی جبری مشقت والے ادارے کا تیار کردہ سامان امریکا میں کسی بھی صورت نہیں منگوایا جاسکتا۔
٭٭٭٭٭