البغدادی پر قاتلانہ حملہ داعش کے تیونسی دھڑے نے کیا

0

محمد علی اظہر
عراق و شام میں شکست سے دو چار دہشت گرد تنظیم داعش کے سربراہ البغدادی پر قاتلانہ حملہ داعش کے ہی ایک تیونسی دھڑے نے کیا۔ بغاوت ہونے کے بعد داعش کی جانب سے اپنے سرکردہ غیر ملکی جنگجو کے سر کی بھاری قیمت مقرر کر دی گئی ہے۔ امریکی اور برطانوی سیکورٹی ایکسپرٹس کا دعویٰ ہے کہ داعش کا سربراہ قاتلانہ حملے میں بچ نکلا ہے۔ البغدادی پر فائرنگ اسی کے قریبی ساتھی سمجھے جانے والے آزمودہ جنگجو ابو معاذ الجزائری نے کرائی۔ جو امکانی طور پر داعش کی قیادت حاصل کرنا چاہتا تھا۔ ابو معاذ الجزائری کا تعلق تیونس سے ہے۔ جبکہ باغی دھڑے میں تیونسی فائٹرز کی اکثریت بتائی جاتی ہے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ باغی دھڑے کے سربراہ ابو معاذ الجزائری کے ساتھ دہشت گرد تنظیم کے کچھ اور لوگ بھی شامل ہیں۔ جس میں سے دو البغدادی پر حملے کے بعد گھمسان کی جنگ کے دوران مارے گئے۔ تاہم داعش میں بغاوت کے واقعے کے حوالے سے متضاد اطلاعات ہیں۔ بعض عالمی میڈیا آؤٹ لیٹس کا کہنا ہے کہ داعش کے سربراہ البغدادی پر قاتلانہ حملہ ستمبر کے وسط میں کیا گیا۔ جبکہ اسرائیلی جریدے یروشلم پوسٹ کے مطابق البغدادی پر حملہ 10 فروری کو کیا گیا، جس میں وہ محفوظ رہا۔ داعشی سرغنہ پر حملے کا واقعہ شام میں دریائے فرات کے کنارے واقع حاجن نامی گاؤں میں پیش آیا۔ جس کے بعد اب البغدادی کے شام سے عراق بھاگ جانے کی اطلاعات ہیں۔ یہ انکشاف برطانوی اخبار مرر نے دو امریکی سیکورٹی ذرائع کے حوالے سے کیا ہے۔ واضح رہے کہ عراق اور شام میں ظلم و جبر کی داستانیں رقم کرنے والی تنظیم داعش میں اندرونی اختلافات کی خبریں پہلی بار سامنے آئی ہیں۔ جبکہ اس کے سربراہ پر اتحادی افواج کے فضائی حملوں میں زخمی ہونے کی رپورٹس پہلے بھی میڈیا میں آتی رہی ہیں۔ اس بار اپنے ہی ساتھیوں کے ناکام حملے کے بعد یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ البغدادی زخمی ہوا ہے یا نہیں۔ اور یہ کہ وہ عراق میں کس مقام پر روپوش ہے۔ برطانوی اخبار گارجین کے مطابق شام میں بیشتر علاقوں کا کنٹرول ہاتھ سے نکلنے کے بعد داعش کا سربراہ صوبہ دیر الزور کے قصبے باغوز میں چھپا رہا۔ یہ اب شام میں داعش کا آخری مضبوط گڑھ کہلاتا ہے۔ جہاں 600 سے زائد داعشی کارندے اب بھی موجود ہیں۔ داعشی کارندوں نے اسی علاقے میں مقامی آبادی کے علاوہ مغوی غیر ملکیوں کو بھی انسانی ڈھال کے طور پر قید کر رکھا ہے۔ جن میں انگلش صحافی جان چانٹائل بھی شامل ہے۔ گارجین کا دعویٰ ہے کہ البغدادی کو زندہ یا مردہ پکڑنے کا منصوبہ ابو معاذ الجزائری نے گزشتہ برس سمتبر میں بنایا تھا۔ ستمبر کے وسط میں حاجن کے مقام پر البغدادی پر حملہ کیا گیا، جس میں وہ بال بال بچ گیا۔ واضح رہے کہ حاجن عراق کی سرحد سے 20 مربع میل کے فاصلے پر واقع ایک گاؤں ہے، جہاں داعشی کارندوں نے بشار الاسد کی فضائیہ اور امریکی اتحاد کے حملوں سے بچنے کیلئے گھروں میں سرنگیں بنائی ہوئی تھیں۔ انہی سرنگوں میں تیونسی دھڑے اور داعشی سربراہ کے وفاداروں کے درمیان جھڑپ ہوئی، جس میں دو جنگجو ہلاک ہوگئے۔ سیرین آبزرویٹری کے مطابق تیونسی جنگجوؤں کے علاوہ چیچنیا، عراق اور سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے داعش کے ارکان اب بھی البغدادی کے وفادار ہیں۔ تاہم تنظیم میں قیادت کا بحران 2015ء سے ہی پنپ رہا ہے۔ اس کی وجہ ان پر ہونے والے متعدد فضائی حملے بتائے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ 18 مارچ 2015ء کو بھی ایک حملے میں داعش کے سربراہ کے شدید زخمی ہونے والی اطلاعات آئی تھیں۔ اس وقت البغدادی کو نینویٰ کے قریب شام کی سرحد پر البعاج کے مقام پر نشانہ بنایا گیا تھا۔ گارجین کے مطابق تازہ حملے کے بعد خطے کے انٹیلی جنس حکام سمجھتے ہیں کہ البغدادی اب حاجن میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ اپنے چنیدہ محافظوں کے حصار میں مشرقی شام میں کسی اور مقام پر منتقل ہو گیا ہے۔ دہشت گرد تنظیم داعش نے واقعہ کے بعد ابو معاذ الجزائری کے سر کی قیمت کا بھی اعلان کیا ہے۔ تاہم ’’سر کی قیمت‘‘ کو مانیٹری ریوارڈ کا نام دیا گیا ہے، جو کسی بھی آرگنائزیشن کی ورک فورس کو توقعات پر پورا اترنے پر کیش، بونس اور مراعات کی صورت میں دی جاتی ہے۔ ادھر برطانوی جریدے مرر نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ حملے میں بچ جانے والا البغدادی مشرق شام میں روپوشی کے بجائے عراق چلا گیا ہے۔ جبکہ اسرائیلی جریدے یروشلم پوسٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ البغدادی کے حریف ابو معاذ الجزائری نے اس پر حملہ رواں برس 10 جنوری کو کرایا تھا، جو مکمل طور پر ناکام ثابت ہوا اور تیونسی دھڑے کے ہی دو کارندے ہلاک ہوگئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق داعش کے سربراہ البغدادی کو آخری بار 2014ء میں دیکھا گیا تھا، جس کے بعد سے اب تک وہ منظر عام پر نہیں آیا۔ البغدادی کے حوالے سے روس کا موقف ہے کہ داعشی سربراہ 2017ء میں ہی ہلاک ہوگیا تھا۔ دو برس قبل ایک بیان میں روسی وزارت دفاع نے کہا تھا کہ البغدادی شام کے شہر رقہ کے قریب روسی فضائیہ کے حملے میں ہلاک ہوا تھا۔ جبکہ اس سے قبل متعدد فضائی حملوں میں اس کے شدید زخمی ہونے کی خبریں بھی زیر گردش رہیں۔ گزشتہ برس جون میں اس کے جواں سال بیٹے کی بھی ہلاکت کی تصدیق ہوئی تھی۔ فرانسیسی خبر رساں ایجسنی کے مطابق داعشی سربراہ البغدادی کا نوجوان بیٹا حذیفہ البدری شام کے صوبے حمس میں اتحادی افواج کے خلاف ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا۔ داعش کی ترجمان اعماق نیوز ایجنسی نے حذیفہ البدری کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ حذیفہ صوبہ حمس میں بشار حکومت کے خلاف لڑ رہا تھا۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More