نذر الاسلام چودھری/ محمد زبیر خان
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کو کیمپوں میں دبک کر پڑے رہنے کی ہدایات جاری کردی گئیں۔ بھارتی عسکری قیادت کی جانب سے مقبوضہ وادی میں فوجی قافلوں کی نقل و حرکت پر تا حکم ثانی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ دوسری جانب پلوامہ حملے کی تحقیقات میں اندرونی مخبری کا پہلو بھی زیر تفتیش رکھا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ پلوامہ میں بھارتی فوجیوں کو جہنم واصل کرنے والے فدائی مجاہد عادل ڈار نے ویڈیو پیغام میں للکار کر دو روز بعد مشن سر انجام دیا۔ عادل ڈار نے نے اپنی بارود بھری اسکارپیو گاڑی سے 78 فوجی گاڑیوں کے کانوائے میں گھس کر غاصب فوج پر آگ برسائی تھی۔ بھارتی تفتیش کاروں کے مطابق فدائی حملہ آور نے کانوائے کی حفاظت پر مامور اسپیشل پروٹیکشن گروپ کے کمانڈوز کو بھی چکمہ دیا اور اپنی گاڑی ایک بس سے ٹکرا دی۔ انٹرنیشنل بزنس ٹائم انڈیا ایڈیشن کی رپورٹ کے مطابق اعلیٰ تفتیشی افسران کا کہنا ہے کہ وہ عادل ڈار کو معمولی جنگجو سمجھتے تھے، لیکن ملنے والی اطلاعات میں معلوم ہوا کہ وہ کشمیری مجاہدین کے ’’اسنائپر گروپ‘‘ کا سرگرم رکن ہے۔ اس گروپ کے سینئر کمانڈر عثمان حیدر تھے جنہیں ان کے ایک ساتھی سمیت بھارتی فوج کے اسپیشل پروٹیکشن گروپ نے شہید کردیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے کشمیر میں متحرک تمام جیش جنگجوئوں کا صفایا کردیا ہے۔ لیکن پلوامہ حملے کے بعد بھارتی افواج کی رائے تبدیل ہوچکی ہے۔ اپنے ویڈیو پیغام میں عادل ڈار نے حملے کو کمانڈر عثمان حیدر کی شہادت، کولگام میں کشمیریوں کی شہادتوںاور بابری مسجد کا انتقام قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی مظالم کے باوجود ہماری جدو جہد کم ہونے کے بجائے مزید بڑھے گی اور کشمیریوں کی جنگ آزادی خطے سے نکل کر گجرات اوردہلی کو اپنی لپیٹ میں لے گی۔ ادھر پلوامہ حملے کی تفتیش کیلئے نیشنل انٹیلی جنس ایجنسی سمیت نیشنل سیکورٹی گارڈز اور ریسرچ اینڈ اینا لائس ونگ (را) کے اعلیٰ افسران سری نگر پہنچ چکے ہیں۔ دوسری جانب بھارتی ملٹری ذرائع کا کہنا ہے کہ جموں بیس کیمپ سے رات تین بجے سری نگر کیلئے نکلنے والے اس کانوائے کی نقل و حرکت کی اطلاع لیک ہوئی تھی، جس کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔ دکن کرونیکل نے لکھا ہے کہ فدائی حملہ آور کی ٹائمنگ اور تکنیکی مہارت سے اس بات کا اندازہ ہو رہا ہے کہ مذکورہ گروپ کو منظم بنیادوں پر استوار کیا گیا تھا۔ جبکہ یہ پہلو بھی زیر غور ہے کہ جموں کے ملٹری کیمپ سے کانوائے کے سری نگر کیلئے سفر کی اندرونی مخبری فراہم کی گئی تھی۔ بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس بات کے واضح امکانات ہیں کہ عادل ڈار کے پاس کانوائے کے روٹ اور ٹائمنگ کے بارے میں معلومات موجود تھیں۔ عادل ڈار کے ویڈیو پیغام سے بھی اس بات کا پتا چلتا ہے کہ حملہ انتہائی منظم بنیادوں پر استوار تھا جس کی پلاننگ ویڈیو پیغام ریکارڈ کرانے سے قبل تیار کی جاچکی تھی۔ کلاشنکوف، ایم فور رائفل، آٹومیٹک پستول، ہینڈ گرنیڈز اور نائٹ ویژن گوگلز کے ساتھ ویڈیو شوٹ کرانے والے فدائی مجاہد عادل ڈار کا کہنا تھا کہ ایک برس پہلے جس مقصد کیلئے انہوں نے تنظیم جوائن کی تھی، وہ انتظار اب ختم ہونے جارہا ہے۔ اپنے ویڈیو پیغام میں عادل ڈار نے تمام کشمیری نوجوانوں کو تحریک آزادی کشمیر میں شمولیت کی دعوت بھی دی۔ عادل ڈار نے اپنے احباب، اہلخانہ اور رشتہ داروں سے کہا کہ اس کی شہادت پر جشن منایا جائے کیونکہ یہ قربانی اسلام کی خاطر دی جارہی ہے۔ کشمیری بیٹیوں کو حجاب کی پابندی اور نوجوانوں کو غیر اخلاقی کاموں سے دوری کا درس دینے والی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر لاکھوں بار شیئر کی جاچکی ہے اور یو ٹیوب پر بھی دیکھی جارہی ہے، جس سے بھارتی سماجی میڈیا میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک سمیت عسکری تفتیش کاروں نے پلوامہ حملے کی ذمہ داری بھارتی انٹیلی جنس پر ڈال دی ہے اور کشمیر میں انٹیلی جنس سیٹ اپ کو مکمل طور پر ’’اوور ہال‘‘ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ستیہ پال ملک نے جمعہ کو جاری کئے جانے والے بیان میں انٹیلی جنس افسران کو لتاڑتے ہوئے کہا ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے جہادی گروپس کی تو خوب رپورٹنگ کرتے ہیں، لیکن ان کی ناک کے نیچے ایک فدائی حملہ آور کو ٹریننگ دے کر بھیجا گیا اور نا اہل انٹیلی جنس اہلکار اس سنگین واقعے کو روک نہیں پائے، جس سے اس بات کا یقین کیا جانا چاہئے کہ پلوامہ حملہ انٹیلی جنس کی ناکامی کا مظہر ہے جس پر ذمہ داروں کا مواخذہ کیا جانا چاہئے۔ انڈین انٹیلی جنس حکام کے حوالے سے بھارتی جریدے فنانشل ایکسپریس نے بتایا ہے کہ انہیں اس بارے میں علم تھا کہ کشمیری جنگجو گروپ جیش، خطرناک قسم کا دھماکا خیز مواد جمع کررہا ہے۔ ادھر ایک اعلیٰ سطحی اسٹریٹیجک میٹنگ میں قومی سلامتی کے بھارتی مشیر اجیت دووال اور وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارتی عسکری کمانڈرز کو کشمیری شہریوں کے خلاف طاقت کے بھرپور استعمال کی اجازت دیدی ہے، جس کو تجزیہ نگاروں نے کشمیریوں کے قتل عام کی اجازت سے تعبیر کیا ہے۔
دوسری جانب پلوامہ واقعے کے بعد پاکستان بھر کے تمام بڑے شہروں میں سیکورٹی ہائی الرٹ کردی گئی ہے۔ جبکہ افغانستان اور ایران سے ملنے والی سرحدوں پر بھی چیکنگ اور نگرانی کا عمل سخت کردیا گیا ہے۔ وزارت داخلہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خدشے کے پیش نظر کراچی، لاہور، پشاور، راولپنڈی، اسلام آباد، فیصل آباد اور کوئٹہ سمیت دیگر شہروں میں سیکورٹی اہلکاروں کو 24 گھنٹے الرٹ رہنے کی ہدایات جاری کی گئیں ہیں۔ ذرائع کے مطابق خیبر پختون اور قبائلی علاقوں سے ملحق اضلاع میں بھی سیکورٹی انتہائی سخت کردی گئی ہے۔ جبکہ لائن آف کنٹرول پر پاک فوج کے جوان ممکنہ بھارتی جارحیت سے نمٹنے کیلئے الرٹ ہیں۔
٭٭٭٭٭
Prev Post