امت رپورٹ
بھارتی وزیراعظم مودی نے اپنے انتہا پسند ہندو ووٹرز کو خوش کرنے کے لئے عام انتخابات سے پہلے پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک یا اس نوعیت کی دوسری مہم جوئی کرنے کا پروگرام بنا رکھا تھا، اب اس قسم کے طے شدہ ایڈونچر یا مس ایڈونچر کے لئے پلوامہ حملے کو جواز کے طور پر استعمال کرنے کی تیاری کی جارہی ہے ۔ پاکستانی سیکورٹی ذرائع نے بتایا ہے کہ بھارت کی جانب سے کسی بھی ممکنہ کارروائی کا فوری اور دگنی طاقت سے جواب دینے کی تیاری مکمل کرلی گئی ہے۔
سیکورٹی ذرائع کے بقول اب تک کی اطلاعات یہ ہیں کہ مودی ’’کیچ 22‘‘ سچویشن میں پھنسا ہوا ہے۔ یہ اصطلاح ایسی صورتحال کے لئے استعمال کی جاتی ہے ،
جس میں پھنسا شخص راہ فرار اختیار نہیں کرسکتا۔ ذرائع کے مطابق اس وقت جنگی جنون میں مبتلا بھارتی قوم بالخصوص بی جے پی کے انتہا پسند سپورٹرز اور ووٹرز کا بدلہ لینے کے لئے وزیراعظم پر شدید دبائو ہے، پھر اپوزیشن پارٹی کا پریشر الگ ہے کہ ممبئی حملوں کے وقت خود مودی نے اس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن کو طنعے دیئے تھے کہ اگر ان کی جگہ وہ ہوتے تو اب تک پاکستان کے خلاف کارروائی کرچکے ہوتے۔ اب یہی بیانیہ اور انتہا پسندوں کا دبائو مودی کے لئے دردسر بن گیا ہے اور بالخصوص بھارتی اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے مودی نے جس سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کیا تھا، اس کو وہ نہیں مانتے کیونکہ حکومت عملی طور پر اس سرجیکل حملے کو ثابت کرنے میں ناکام رہی تھی۔ لہٰذا مودی پر دبائو ہے کہ اب دعوے کے مطابق اصلی سرجیکل اسٹرائیک کرکے دکھائو۔ ذرائع کے مطابق اس دبائو کے تحت مودی حکومت کارروائی کے مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہے۔ یہ معاملہ پلوامہ حملے کے بعد سیکورٹی سے متعلق کابینہ کمیٹی کے اجلاس میں بھی ڈسکس ہوا، جس کی صدارت خود مودی نے کی تھی۔ اس اجلاس کے بعد ہی پاکستان سے ’’پسندیدہ ملک‘‘ کا اسٹیٹس واپس لینے کا اعلان کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اگر دبائو اور جوش میں آکر مودی پاکستان کے خلاف ایڈونچر یا مس ایڈوانچر کرلیتے ہیں تو اس سے مطلوبہ نتائج نکلنا ممکن نہیں۔ نتائج صرف مکمل جنگ مسلط کرنے کی صورت میں نکل سکتے ہیں اور بھارت مکمل جنگ کی پوزیشن میں نہیں۔ جبکہ سرجیکل یا ٹیکٹیکل اسٹرائیک کی صورت میں پاکستان نے دگنی طاقت سے فوری جواب دینے کی تیاری مکمل کررکھی ہے۔ بھارتی جارحیت کی صورت میں پاکستان کو جوابی ایکشن کا جواز بھی مل جائے گا۔ اسی طرح اگر سرجیکل اسٹرائیک کے بجائے بھارت کی جانب سے کوورٹ کارروائی کی جاتی ہے تو اس کا بھی اسی انداز سے جواب دیا جائے گا۔ اس صورت میں مودی کی ممکنہ کارروائی موثر ثابت نہیں ہوسکے گی اور بالخصوص بی جے پی کے انتہا پسند ووٹرز مطمئن نہیں ہوں گے۔ اس کا اثر لامحالہ بی جے پی کی الیکشن مہم پر پڑے گا۔ ذرائع کے مطابق اس سیناریو کو پیش نظر رکھ کر اگر مودی سرکار ’’بدلے‘‘ یا کارروائی سے اجتناب کرتی ہے تو اس صورت میں بھی بی جے پی کا سیاسی کیریئر دفن ہوجائے گا۔ یوں وزیراعظم مودی اس وقت دونوں طرف سے پھنسے ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ بھارت میں جنرل الیکشن اپریل اور مئی میں ہوں گے۔
ذرائع کے مطابق بھارتی مہم جوئی کا سعودی ولی عہد کے دورہ بھارت کے بعد زیادہ امکان ہے۔ تاہم پاکستان کی مسلح افواج ابھی سے 24 گھنٹے کے الرٹ پر چلی گئی ہیں اور کسی بھی نوعیت کی بھارتی جارحیت کا فوری جواب دینے کی تیاری مکمل ہے۔ اگر بھارت ڈرون حملے کی کوشش کرتا ہے تو پاکستان بھی جوابی ڈرون حملہ کرے گا۔ میزائل مارتا ہے تو دگنی طاقت سے میزائل مارے جائیں گے۔ بھارت کنٹرول لائن پر کسی اہم پوسٹ پر قبضے کی کوشش کرتا ہے تو جواب میں دو یا تین بھارتی پوسٹوں پر کنٹرول کی حکمت عملی تیار ہے۔ ٹیکٹیکل ہتھیار استعمال کرتا ہے تو پاکستان بھی یہی طریقہ اختیار کرے گا۔ ذرائع کے بقول اہم نکتہ یہ ہے کہ کسی بھی بھارتی کارروائی کا اس سے دوگنا زیادہ طاقت کے ساتھ جواب دینے کے احکامات جاری کئے جاچکے ہیں۔
اس سارے معاملے پر معروف دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون کا کہنا ہے کہ بھارت پچھلے کچھ عرصے سے سرجیکل اسٹرائیک کی جو دھمکیاں دے رہا ہے، یہ باتیں وہ ہوا میں نہیں کر رہا بلکہ اس نے اس کی پلاننگ کر رکھی ہے۔ بھارت نے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کے تحت پاکستان میں 15 اہداف کا تعین کر رکھا ہے، جس میں ایسٹرن بارڈر اور کنٹرول لائن کا علاقہ شامل ہے۔ اس کے جواب میں پاکستان نے بھی اپنے اہداف کا انتخاب کر رکھا ہے۔ تاہم سیکورٹی وجوہات پر ان اہداف کی تفصیل بیان نہیں کی جاسکتی۔ یہ طے ہے کہ بھارتی ایڈونچر کی صورت میں فوری طور پر ان منتخب اہداف میں سے بیشتر کو نشانہ بنایا جائے گا۔ اگر بھارت کی طرف سے بین الاقوامی طور پر متنازعہ قرار دیئے گئے علاقے کے بجائے پاکستانی حدود میں کارروائی کی جاتی ہے تو پھر پاکستان بھی بھارتی شہروں تک مار کرنے والے میزائل استعمال کرے گا۔ اور اس کے لئے بھی بہت پہلے سے اہداف کا تعین کیا جاچکا ہے۔ اس سوال پر کہ اگر روایتی ہتھکنڈوں سے ہٹ کر بھارت نے ہمیشہ کی طرح پراکسی کے ذریعے نام نہاد ’’بدلہ‘‘ لینے کی کوشش کی، یعنی دہشت گردی کی کارروائی کی تو اس کا جواب کیسے دیا جائے گا؟
آصف ہارون کا کہنا تھا ’’اب اس ضرورت کو محسوس کیا جارہا ہے کہ ہم کب تک یکطرفہ طور پر اپنے بدن پر زخم لگواتے رہیں گے۔ 1990ء تک آئی ایس آئی دنیا میں اپنے ’’لانگ آرم‘‘ یعنی سرحد پار رسائی رکھنے کی بہترین صلاحیت کے حوالے سے مشہور تھی۔ بعد ازاں اس ’’لانگ آرم‘‘ کو ایک منصوبے کے تحت Shirink ( سکیڑنا) کردیا گیا کیونکہ امریکہ نے پابندیاں لگادی تھیں، لہٰذا ہمیں دفاعی پوزیشن پر جانا پڑا۔ اس کے برعکس ’’را‘‘ سمیت دیگر پاکستان مخالف ممالک کی ایجنسیوں کا ’’لانگ آرم‘‘ کھلا رکھا گیا۔ جس کا نقصان ہم آج تک برداشت کر رہے ہیں۔ لہٰذا اب ایک بار پھر آئی ایس آئی کے ’’لانگ آرم ‘‘ کو موثر بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہم بھارت سمیت دیگر دشمن ممالک کی ایجنسیوں کی پراکسی کا ترکی بہ ترکی جواب دے سکیں۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ آئی ایس آئی کی یہ صلاحیت ’’را‘‘ سمیت دنیا کی تمام ایجنسیوں سے کہیں زیادہ بہتر ہے ۔ بد سے بدنام برا ہوتا ہے۔ ہماری طرف سے دفاعی پالیسی اپنائے جانے کے باوجود اس کا کوئی فائدہ نہیں ملا۔ کہیں پذیرائی نہیں ہوئی۔ کوئی بھی واردات ہوئی تو اس کا الزام ہم پر تھوپ دیا گیا، لہٰذا آج کے حالات پالیسی میں تبدیلی کے متقاضی ہیں۔‘‘ آصف ہارون کے بقول اسی پالیسی کی وجہ سے کشمیر میں آزادی کی تحریک کو بھی نقصان پہنچا۔ جس کے ذمہ دار سابق آرمی چیف پرویز مشرف ہیں۔ آصف ہارون کا کہنا تھا ’’دہشت گردی کے ذریعے ہمیں دن رات لہولہان کیا جارہا ہے۔ ہم نے اب تک کیا بدلہ لیا؟ 2003-2ء میں امریکی دبائو پر جنرل مشرف نے بھارت کو یہ تحریری معاہدہ دے دیا تھا کہ پاکستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ اسی معاہدے کے تحت مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی مسلح جدوجہد کرنے والی تنظیموں پر پابندی لگائی گئی۔ دراصل پاکستان کے خلاف بھارت کی ’’کوورٹ وار ‘‘ میں مقبوضہ کشمیر کی یہ جہادی تنظیمیں ایک بڑی رکاوٹ تھیں۔ امریکہ کو بھارتی ’’کوورٹ وار ‘‘ کی ناکامی پر تشویش تھی، جبکہ بھارت کا کہنا تھا کہ مطلوبہ رزلٹ کے لئے اس کی جان مقبوضہ کشمیر میں برسرپیکار جہادی تنظیموں سے چھڑائی جائے۔ یہ ریلیف ملنے کے بعد وہ اپنی پراکسی وار پر فوکس کرسکتا ہے۔ یہ کام اس نے امریکہ کے ذریعے جنرل پرویز مشرف سے کرالیا اور جہادی تنظیموں پر پابندی کے ساتھ ان کے اکائونٹ بھی منجمد کردیئے گئے اور وہ غیر موثر ہوکر رہ گئیں۔ اس کا سارا فائدہ بھارت نے اٹھایا اور بھارتی پارلیمنٹ سے لے کر ممبئی حملوں تک دہشت گردی کی جعلی کارروائیوں کا ایک سلسلہ چل نکلا، جس کا الزام پاکستان پر لگایا گیا۔ بھارتی فوج دس ماہ تک پاکستانی بارڈر پر بیٹھی رہی۔ پاکستان نے اس بھارتی یلغار کو فوجی لحاظ سے تو روک لیا، لیکن بھارت نے اس کا بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک بھارت کے لحاظ سے خطرناک اسٹیج پر پہنچ چکی تھی۔ انڈین آرمی کا مورال گرا ہوا تھا۔ آئے روز بھارتی فوجی خودکشی کر رہے تھے۔ کوئی بھارتی فوجی مقبوضہ کشمیرمیں پوسٹنگ پر تیار نہیں تھا لیکن مشرف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے بعد جہادی تنظیموں پر پابندی سے بھارتی فوج اس بدترین صورتحال سے باہر نکل آئی۔ بھارت نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نا صرف لائن آف کنٹرول پر آہنی باڑ لگادی، بلکہ اس آہنی باڑ کے ساتھ پکٹس، پوسٹیں اور پوزیشنیں بھی اچھی جگہ پر بنالیں۔ آج وہ اسی کا ایڈوانٹیج لیتے ہوئے کنٹرول لائن سے ہمارے شہریوں کو مارتے ہیں ۔ بھارت سے کئے جانے والے معاہدے میں یہ کہہ کر کہ پاکستان کی سرزمین کو دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا ، ایک طرح سے یہ الزام بھی اپنے سر لے لیا گیا کہ جیسے اس سے قبل پاکستانی سرزمین دہشت گردی کے لئے استعمال ہورہی تھی، اور اب ہم نہیں ہونے دیں گے۔ یہی بیانیہ آج تک بھارت نے پکڑا ہوا ہے۔ پلوامہ کے حالیہ حملے میں بھی اسی بیانیہ کو بھارت نے آگے بڑھایا ہے۔ حالانکہ بھارتی پارلیمنٹ پر حملے اور ممبئی حملوں پر اب تک جو پانچ سے چھ کتابیں آچکی ہیں، ان تمام کتابوں میں غیر جانبدار مصنفین نے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ سارے حملے ’’را‘‘ اور موساد کی مشترکہ کارروائیاں تھیں، جس کا مقصد پاکستان کو گھیرنا تھا۔‘‘ آصف ہارون کا یہ بھی کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں برسرپیکار جہادی تنظیموں پر پابندی کے نتیجے میں ایک بڑا نقصان یہ بھی ہوا کہ ان تنظیموں کے بیشتر ارکان نے ٹی ٹی پی اور لشکر جھنگوی کو جوائن کرلیا اور یوں وہ خود اپنے ملک کے خلاف استعمال ہوئے۔٭
٭٭٭٭٭
Next Post